پہلی غلط فہمی تو یہ رفع کر لیجئے کہ امریکہ نے پاکستان کی کسی امداد کو نہیں روکا، اور دوسری یہ غلط فہمی جودور کر نے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اب پاکستان سے کوئی نرم برتاﺅ کرے گا۔
امریکی وزیر خارجہ کے جہاز نے ابھی پاکستان کے لئے اڑان نہیں بھری تھی کہ پینٹاگون یعنی امریکی جی ایچ کیو نے اعلان کیا کہ پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کرنے کے لئے دباﺅ برقرار رکھا جائے گا۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کو امریکہ سے نیک توقعات ہیں تو اس کی دماغی صحت کا علاج کرانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اسوقت ایک ایسی حکومت ہے جو کسی کے سامنے یعنی امریکہ کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ ایران پر امریکی پابندیاں لگیں مگر اسے کیا نقصان پہنچا۔ عمران کو پاکستان کی دھرتی کے نیچے تانبے کے ذخائر پر بہت بھروسہ ہے۔ انہوںنے تیل کے ذخائر کا نام نہیں لیا اور ریکو ڈیک کے سونے کے ذخائر کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ عمران کی حد سے بڑھی ہوئی اس خود اعتمادی کاامتحان لے۔ ایک زمانہ تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خاںنے بھی امریکہ کے نخرے اٹھانے کے بعد کسی وجہ سے یہ نعرہ لگایا کہ اس رزق سے موت اچھی جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو۔ بھٹو نے بھی پنڈی کے راجہ بازار میں کسی امریکی حکومتی اہل کار کا خط بڑی رعونت سے پھاڑا تھا اور پھر خود اس کی حکومت کا غبارہ پھٹ گیا۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے اور خود انحصاری کا نعرہ لگایا اورقرض اتارو ملک سنوارو کی اپیل کی مگر وہ اپنی قسمت نہ سنوار سکے۔ اب عمران خاں نے آتے ہی کمرہ امتحا ن کا رخ کیا ہے ۔انہیں امریکہ سے پہلی کال آئی ، اس کے مندرجات پر دونوں ملکوں میں اختلاف ہو گیا۔ امریکہ نے کہا کہ اس نے پاکستان کوملک کے اندر موجود دہشت گردوں سے نبٹنے کی نصیحت کی ہے جبکہ پاکستان نے کہا کہ ایسی کوئی بات ہی نہ ہوئی۔ مگر بھارت کے مودی صاحب نے ایک خط لکھا اورا سکا مطلب خود ہمارے وزیر خارجہ نے لائیو پریس ٹاک میں یہ نکالا کہ مودی نے مذاکرات کی دعوت دی ہے، بھارت نے فوری طور پر تردید کر دی کہ مودی کے خط میںایساکوئی اشارہ بھی نہیں۔ اس طرح خارجہ معاملات کو دو بڑے جھٹکے شروع ہی میں لگ گئے۔ ایک بڑا جھٹکا مجھے اور نظر آ رہاہے ، وزیر خارجہ نے ایک میڈیا ٹاک میں میز کوٹھوک بجا کر کہا کہ اب خارجہ پالیسی یہاں بنے گی۔ بننی بھی چاہئے مگر چند روز کے اندر آرمی چیف سے وزیر اعظم کی تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں، اس دوران ملک کو کوئی بڑا سیکورٹی خطرہ سامنے نہیں آیا جس پر آرمی چیف سے مشاورت ضروری ہو گئی ہو۔( ممکن ہے یوم دفاع شایان شان منانے پر صلاح مشورہ کیا گیا ہو) اگر کوئی سیکورٹی خطرہ ہو بھی تو حکومت کے پا س ایک وزیر دفاع بھی ہیں۔جو پانچ سال تک ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہونے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اور یہ صوبہ دہشت گردی کی جنگ کا بڑا مرکز رہا۔
بڑاسوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے پاکستان کی امداد میں کوئی کمی کی ہے یا نہیں ۔ مجھے جتنی بھی گیٹ تھرو گائیڈیں دستیاب ہوسکی ہیں ، ان کے مطابق امریکہ نے کسی امداد میں کٹوتی نہیں کی بلکہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے اخراجات ادا کر رہا تھا، وہ ا س نے اس سال جنوری میں ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اب اگر ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنی ہے تو وہ اپنے زرو بازو سے ۔اور اپنے خزانے سے۔ بات صرف جنگی اخراجات کی نہیں بلکہ نیٹو افواج پاکستان کا جو انفرا سٹرکچر استعمال کرتی ہیں اور ہماری سڑکوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتی ہیں اس کی تعمیر ومرمت کے لئے امریکہ اخراجات ادا کرتا تھا۔ ان اخراجات کی ادائیگی سے اب انکار کر دیا گیا ہے۔ عمران خان تو نیٹو سپلائی کو بند کرنے میں پیش پیش تھے اور وہ آئندہ بھی نیٹو سپلائی کے ٹرالے پاکستان کی سڑکوں سے گزرانے سے روک سکیں تو ملک کو مزید نقصان نہیں پہنچ سکے گا۔ مگر جو نقصان پچھلے ایک سال میں پہنچایا جا چکا ہے۔ اسے بھی ہمیں اپنے وسائل سے برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ امریکہ کا فیصلہ ہے جس کو بدلنا ہمارے بس میں نہیں کیونکہ ہم امریکہ کے ڈو مور کے ہر تقاضے کو بھی پورا کر لیں تو پھر بھی امریکی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ پاکستان ا ٓٹا گوندھتے ہلتا کیوں ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ امریکہ جوالزام پاکستان پر عائد کرتا ہے، اس الزام کو ہمارے سیاست دان ا ور دانش ور بھی دہراتے ہیں۔اور ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں کہتا کہ ہماری فوج نے اپنے جہادی گروپ پال رکھے ہیں۔ ڈان لیکس کا واحد نکتہ یہی اعتراض تھا ۔ شہباز شریف نے فوج سے کہا تھا کہ ہم جس کو پکڑتے ہیں ، آپ یعنی ان کے سامنے براجمان ا ٓئی ایس آئی کے ڈی جی اسے چھوڑنے کے لئے دباﺅ ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارا بندہ ہے۔
مجھے ایک بریفنگ یاد آتی ہے جو آئی ایس پی آر کے اس وقت کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ نے لاہور کے صحافیوں کو دی۔ وہ ضرب عضب کی تیاری کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم شمالی وزیرستان میںداخل ہونے سے پہلے وہاں کی آبادی کو اس بات کا موقع دیں گے کہ ہر کوئی ایک خاص تاریخ سے پہلے علاقہ چھوڑ دے۔ اس کے بعد ہم آپریشن کریں گے ۔لاہور کے ایک نئے اخبار کے ایڈیٹر نے بڑے شاطرانہ انداز میں سوال کیا کہ جنرل صاحب ! جب ساری آبادی نکل جائے گی تو آپ کس کے خلاف آپریشن کریں گے۔ جنرل صاحب سر پکڑ کر رہ گئے۔ انہیں یاد آیا کہ یہ اخبار نویس ایک زمانے میں جنرل اختر عبدالرحمن کے پروردہ سات جہادی لیڈروں پر فخر کیا کرتے تھے اور میں کہتا ہوں کہ وہ آج بھی ان افغان جہادی لیڈروں پر فخر کرتے ہیں۔ اسی بریفنگ میں ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ اگر وہاںسے حقانی گروپ نے علاقہ خالی نہ کیا تو، جنرل صاحب نے کہا کہ ہم سامنے موجود ہر شخص کو دشمن سمجھتے ہوئے ا س کے خلاف بھر پور کاروائی کریں گے مگر پیارے قارئین ! پاکستان کے کئی لوگ فوج کے ا س بیانیئے پر اعتبار نہیں کرتے اورا س ضمن میں امریکہ، بھارت اور افغان بیانیئے کو قبول کرتے ہیں۔جب حال یہ ہو تو امریکہ پاکستان پر کیسے ا عتبار کرے گا۔ ہم خود پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ امریکہ کوئی نرالی حرکت نہیں کرتا۔
پاکستان ایک نرالا ملک ہے جہاں کا میڈیا اپنے ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے برخلاف نقطہ نظر کا پرچار کرتا ہے۔ واہگہ کی لکیر کے پار کا میڈیا یہ حرکت نہیں کرتا۔ ایران کامیڈیا یہ حرکت نہیں کرتا،یورپ، اور امریکہ کا میڈیا یہ حرکت نہیں کرتا۔ ہمارا میڈیاملکی خارجہ اور دفاعی حکمت عملی کے خلاف پرچار کر نے پر فخرکرتا ہے اور سینہ پھلاتا ہے۔یہ بھی ہمارے میڈیا کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ امریکی امداد اور جنگی اخراجات کے بل کے فرق کو بھی نہیں سمجھتا۔ ا س میڈیا کے ہوتے ہوئے امریکہ ملک کی تقدیر سے کھیلنا چاہے یا حکومت اپنے عوام کو بیوقوف بنانا چاہے تو دونوں کو کھلی آزادی میسر ہے۔ ہم جہالت پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں ، جاہلوں پر حکومت کرنا بھی ا ٓسان ہوتا ہے۔ کسی کے ٹیلی فون کا کوئی بھی مطلب نکال لیں اور کسی کے خط سے کوئی مطلب نکال لیں۔ کسی کو اس پر قطعی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔
امریکی وزیر خارجہ کتنا وقت پاکستان میں گزاریں گے اور کتنا وقت بھارت میں گزاریں گے، کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم نے تو بل کلنٹن کو بھارت میں پانچ روز گزارنے کے بعد ایک گھنٹے کے قیام کے لئے اسلام آباد میں کھلے بازوﺅں سے ویلکم کیا تھا۔
وہ بھی ٹرانزٹ دورہ تھا۔اب بھی ٹرانزٹ دورہ ہے۔ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گی