خبرنامہ

انتشار کی بڑی وجہ ناانصافی،انصاف کی عدم فراہمی کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے،انصاف ہوتو لوگ معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں،سول مقدمات کا فیصلہ سال میں کرانا ہے،عمران خان

انتشار کی بڑی وجہ ناانصافی،انصاف کی عدم فراہمی کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے،انصاف ہوتو لوگ معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں،سول مقدمات کا فیصلہ سال میں کرانا ہے،عمران خان

لاہور(ملت آن لائن) وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی ساری باتیں مان سکتے ہیں لیکن احتساب سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ، اگر ہم نے کرپشن پر ہاتھ اور کرپشن کرنے والوں کو جیلوں میں نہ ڈالا تو ملک کا مستقبل خطرے میں ہے ، قوم نے بیرون ملک مقیم حکمرانوں کو کیسے قبول کرلیا، اسمبلی میں ہر روز ڈرامہ ہوتا ہے، اپوزیشن کہتی ہے ہم انتقام لے رہے ہیں، درحقیقت یہ لوگ پہلے حکومت کو پیسہ بنانےپھر اسمبلی کو کرپشن بچانے کیلئے استعمال کرتے ہیں،انصاف کی بڑی وجہ ناانصافی ہے، انصاف کی عدم فراہمی کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے، انصاف ہو تو لوگ معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، سول مقدمات کا فیصلہ ایک سال کرانا ہے، پنجاب پولیس اور زراعت میں اصلاحات ضروری ہے، جو سرمایہ کار آرہے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے، پاکستان کے سربراہ کی عزت دیکھنی ہے تو ایوب خان کا دورہ امریکا دیکھیں، سعودی عرب

اور امارات نےغیرمشروط امداد دی، ہماری کسی سے کوئی کمٹمٹ نہیں، پاکستان کا کردار امن کے لیے ثالث کا ہے، پاکستان کو دوست ممالک سے بغیر کسی شرائط کے امداد ملی ہے اور ہماری کسی سے کوئی کمٹمنٹ نہیں کہ ہم کسی کی جنگ میں اپنی فوج استعمال کرنے دیں گے ، ہماری کوشش ہے کہ ایران اور سعودی کے تعلقات بھی بہتر کریں،جب کوئی ملک قرضہ لیتا ہے تو اسکی خود مختاری دائو پر لگتی ہے اور وہ عزت کھو بیٹھتا ہے ، میں پاکستان کو ایک خود مختار ملک دیکھنا چاہتا ہوں ،جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوئی یہی وجہ ہے کہ ملک کے مخالف اس کا فائدہ اٹھا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں،جیل میں بیٹھے شخص کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے سے پوری دنیا میں ہمارا مذاق اڑ رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ایون اقبال لاہور میں پنجاب حکومت کی 100روزہ کارکردگی کے حوالے سےمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقعہ پر گور نر پنجاب چوہدری محمدسرور اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار،سینئر وزیر عبدالعلیم خان،وزیر ہائوسنگ میاں محمودالرشید، جہانگیرترین،وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان، وزیر صنعت وتجارت میاں اسلم اقبال،وزیراعلٰی کے معاون خصوصی عون چودھری،ڈاکٹر یاسمین راشد،صدر وسطی پنجاب عمر ڈار،ڈاکٹر مراد راس،وزیراعلٰی کے معاون خصوصی اکرم چوہدری، بانی رہنماڈاکٹر شاہد صدیق،میاں حامد معراج،مظہر ساہی،رکن اسمبلی نذیرچوہان،وزیراعلٰی کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہزاد گل،ظہیر عباس کھوکھرمحمد مدنی سمیت پنجاب کابینہ کے وزراء اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ پرانی حکومتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ کرنا ضروری ہیں کیونکہ جب تک آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے تو آپ کس سے اپنا موازنہ کریں گے۔میری زندگی میں مشرقی پاکستان جدا ہوا۔ بنگلہ دیش کو بنے ہوئے 18سال گزر چکے تھے اور وہاں کے لوگوں میں پاکستان کے خلاف غصہ تھا لیکن جب ہم نے ڈھاکا میں بھارت کے خلاف میچ جیتا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں لاہور میں کھڑا ہوں، ڈھاکہ میں اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔انصاف نہ ملنا انتشار کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اور لوگ ملک سے علیحدگی کی مہم چلاتے ہیں ، مشرقی پاکستان کے لوگ بھی مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہمیں انصاف نہیں مل رہا لیکن انہیں نہیں سنا گیا اور ایک حصہ الگ ہوگیالہٰذاہمیں ان غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔جنوبی پنجاب کے حصے کا 250ارب وہاں خرچ نہیں ہوا جس سے وہاں احساس محرومی پیدا ہوا اسی طرح بلوچستان میں یہ ہوا، جب اس طرح کے حالات ہوں تو ملک کے مخالف اسی کا فائدہ اٹھا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ لوگ حکمرانی پاکستان میں کرتے ہیں لیکن جائیدادیں پاکستان سے باہر بناتے ہیں، چھٹیاں باہر گزار تے ہیں ، علاج بیرون ممالک سے کراتے ہیں ، عیدں باہر مناتے ہیں، بچے باہر پڑھتے ہیں اور ان کے کاروبار باہر ہیں لیکن حکمران پاکستان پر کرنی ہے ، ایسا لیڈر کیسے پاکستان سے وفادار ہو سکتا ہے ۔ باہر جائیدادیں بنانے او رکاروبار کرنے والے لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں ۔انہوںنے کہا کہ ایک وقت میں پاکستان خطے میں سب سے ابھرتا ہوا ملک تھا۔ ایوب خان امریکا گئے تو امریکی صدر انہیں ائیر پورٹ پر ملنے آیا ، برطانیہ میں شاندار استقبال ہوا ۔ 21کروڑ آبادی والے پاکستان کی ایکسپورٹ صرف 24ارب ڈالر ہیں، 50لاکھ آباد ی والے سنگا پور کی ایکسپورٹ 330ارب ڈالر جبکہ6کروڑ آبادی والے ملک ملائیشیاء کی ایکسپورٹ 220ارب ڈالر ہیں ۔ ہم کیوں پیچھے رہ گئے اسکی وجہ یہی تھی کہ ہمارے حکمرانوں کے مفاد یہاںنہیں تھے ۔ انہوںنے کہا کہ وفاق اور پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم میں اربوں روپے کی سرکاری زمینیں واگزار کرائی گئی ہیں اور یہ عوام کی دولت اوراثاثہ ہے ۔جب کسی ملک میں کرپشن ہوتی ہے تو اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے، کرپشن کے ذریعے جو پیسہ چوری ہوتا ہے وہ حکومت کا نہیں بلکہ عوام کا پیسہ ہوتا ہے ۔ جو بھی ملک ترقی یافتہ ہیں وہاں کرپشن کو پھڑکنے نہیں دیا جاتا ، کرپشن معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں ہم کرپشن کی بات کرتے ہیں تو عجیب ڈرامہ ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے ۔ ہماری حکومت کے دور میں نیب کا ایک بھی کیس نہیں بنایا گیا ،یہ سارے کیسز ایک سال پہلے کے ہیں،جعلی اکائونٹس کا معاملہ 2015ء میں سامنے آیا تھا لیکن میثاق جمہوریت کے ذریعے مک مکا کر لیا گیا ، دوسری بار 2017ء میں جعلی اکائونٹس کا معاملہ سامنے آیا لیکن پھر کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔ نگران حکومت کے دور میں چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا ، ہم نے یہ کیا ہم نے کارروائی روکی نہیں ۔ پہلے شور مچا کہ شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف بنائو ، پھر کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنائو ، جو شخص نیب کی جیل میں ہے اسے پی اے سی کی چیئرمین شپ پر بٹھانے لگے ہیں ، دنیا میں ہمارا مذاق اڑے گا بلکہ اڑ رہا ہے کہ احتساب کی بات ہو رہی ہے اوروہ چیئرمین ہے جو جیل میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کو کہا ہے کہ اپوزیشن جو کہے مانتے جائو ، انہوںنے کہا کہ سعد رفیق کو پارلیمنٹ میں لے آئو ہم نے کہا آنے دو ، دھاندلی پر کمیشن بنائو ہم نے بنا دیا لیکن ہم ایک چیز نہیں مان سکتے کہ ہم احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ یہ ملک کی سالمیت، ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے ، اگر ہم نے کرپشن کرنے والوں پر ہاتھ اور انہیں جیلوں میں نہ ڈالا تو ملک کا مستقبل خطرے میں ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سول پروسیجر میں تبدیلی کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں اور اس کے تحت ایک سال میں سول کیسز کا فیصلہ کرنا ہے ۔ ہم وفاق اور پنجاب میں اس پر قانون سازی کرنے جارہے ہیں ۔ پولیس میں اصلاحات لے کر آرہے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے ، پنجاب میں ہم اس کیلئے پورا زور لگانا ہے ۔ہم زرعی شعبے میں اصلاحات لے کر آرہے ہیں ہم یہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کسان کس طرح اپنی پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں اس کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر منتقل ہونے بارے منصوبہ بندی کی جارہی ہے، ہم نے چھوٹے کسان کو اوپر اٹھانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو اقلیتوں کیلئے وہ ملک بنانا ہے جہاں پر انہیں برابری کے حقوق ملیں ۔ ہم نے نریندر مودی کو بتانا ہے کہ ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسے رہتے ہیں اور آپ اپنی اقلیتوں کو کیسے رکھتے ہیں۔ انہوںنے صوبائی کابینہ کے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وزارت وزیر کو نہیں بناتی بلکہ وزیر اپنی محنت سے وزارت کو بناتاہے ۔ آپ صحیح طرح اور دیانتداری سے کام کریں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی جماعت کی رکن نے کہا کہ اگر عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہنا تو اگلے وزیر اعظم نے تو اس میں رہنا ہے میں بتانا چا ہتاہوں آگے بہت دور تک آپ کا وزیر اعظم نہیں آنے والا ۔انہوںنے وزیر خزانہ کو کہا کہ آپ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ یہاں خادم اعلیٰ کے کیا اخراجات تھے ۔ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں کیونکہ مجھے فکر ہے کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ہم نے پناہ گاہوں کے قیا م کے لئے اقدامات اٹھائے تو اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم پناہ گاہیں قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس ملک میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن ہم نے ظلم کیا کہ ہم نے اپنے ملک کو صحیح گورننس نہیں دی ۔ آئل ڈرنگ کمپنی ایگزون 27سال بعد پاکستان آئی ہے اور اس کی رپورٹ مارچ یا اپریل میں آنی ہے کہ اگر سمندر میں گیس نکل آئی تو پاکستان کی عوام کیلئے پچاس سال کے لئے ذخائر کافی ہوں گے اور ہم یہ گیس فروخت بھی کر سکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کسی قوم کے لیڈر کا کام نہیں کہ وہ قرض اور مدد مانگتا پھرے ۔ جب آپ کسی سے کسی طرح کی امداد یا قرض لیتے ہیں تو اپنی سلامتی خودمختاری کھو بیٹھتے ہیں، جو گھر قر ض لیتا رہتا ہے وہ اپنی عزت کھو بیٹھتا ہے ۔ میں پاکستان کو ایک خود مختار ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوںنے کہا کہ یہاں کچھ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کا بھی مائنڈ سیٹ ہے کہ پیسہ بنا رہے ہیں اور اسے بری نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اگر کوئی جائز طریقے سے بناتا ہے اس سے ملک کا فائدہ ہے ، اس سے ملک میں روزگار کے مواقع ملتے ہیں ،ٹیکسز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ایک پالیسی اور سوچ رکھتی ہے ہم نے لوگوں کو مواقع اور ایسا ماحول دینا ہے کہ وہ پیسہ بنائیں اور پھر سرمایہ کاری کریں ۔ انہوں نے کہا ہم ایسے مواقع اور ماحول دیں گے کہ سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جب پیداوار ی لاگت زیادہ ہو گی تو ہمارے ایکسپورٹرز بیرون ممالک مقابلہ نہیں کر سکیں گے ہم ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے ۔ جب چھوٹے تاجر کو ریبیٹ اور ری فنڈ نہیں کریں گے تو وہ بینک کرپٹ ہو جائے گا اور ہماری انڈسٹری کے بند ہونے کی بھی یہی وجہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ کچھ مشکلات ہیں لیکن چار ماہ کا جو تجربہ ہوا ہے کہ اگر ہم نے گورننس کے سسٹم کو ٹھیک کرلیا تو یہ ملک ٹیک آف کر جائے گا۔ ۔ انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کے باعث دوست ممالک سے رابطہ کیا،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کسی شرط کے بغیر ہماری مدد کی ہے۔ ہم مشکل وقت سے نکل گئے ہیں ،ہم انڈسٹری کے لوگوں کی مدد کریں گے کیونکہ ایکسپورٹ بڑھیں گی تو روزگار بڑھے گا، کرنٹ اکائونٹ خسارجہ کم سے کم ہوتا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ صنعت کے لیے ماحول درست کریں گے، صنعتوں کو گیس اور بجلی سستی ملے گی،اگرصنعت کوری بیٹ نہیں دیں گے تو ان کا دیوالیہ نکل جائے گا، جائز طریقے سے پیسہ بنانے سے ملک کا فائدہ ہوتا ہے،سرمایہ کاروں کی دلچسپی تب ہی بڑھے گی جب وہ پیسہ بنائیں گے۔اس سے قبل روزیراعظم عمران خان نےآل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی اور بہتری کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے ،ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا تو ہم نچلے طبقے کی مدد کر سکتے ہیں ،پاکستان نے اگر اپنا گورننس سسٹم ٹھیک کر لیا تو یہ ٹیک آف کر جائے گا ،ماضی میں پیسے کے عوض ہم دوسروں کی جنگیں لڑتے رہے ہیں ، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سمیت تاجر برادری کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور ممکنہ وسائل سے ان کیلئے ہر ممکن آسانیاں پیدا کریں گے تا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ترقی کرے۔ اس سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہو گا بلکہ روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے ٗ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا تھا جس کے لئے دوست ممالک سے امداد لینا پڑی ٗانہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو ایک خوددار ملک دیکھنا چاہتے ہیں ٗ ماضی میں پاکستان کی دنیا کے دوسرے ممالک میں بہت عزت تھی ٗ اتنے مشکل حالات نہیں تھے ٗ خطے میں پاکستان کی بجائے دوسرے ممالک ترقی میں ہم سے آگے نکل گئے ٗانہوں نے کہا کہ جو طبقہ جائز طریقے سے اپنی آمدنی میں اضافہ کر تا ہے وہ ملک کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے ٗ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں 40فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ٗ ہمیں ایسے طبقے کی غربت کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے ٗوزیراعظم نے کہا کہ چین نے 70کروڑ افراد کو 30برسوں میں غربت سے نکالا ٗ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ سے ہی ہم نچلے طبقے کی مدد کر سکتے ہیں ٗ انہوں نے کہا کہ مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں سرمایہ کاروں کو مواقع فراہم کئے تو ملائیشیا نے ترقی کی ٗوزیراعظم نے کہا کہ تاجروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے ٗ چھوٹے بزنس مین کو ریفنڈز کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے ٗ انہوں نے کہا کہ ملک مشکل حالات سے نکل آیا ہے ٗ تاجر برادری سے تعاون کریں گے تا کہ وہ سرمایہ کاری کریں جس سے برآمدات میں اضافہ ممکن ہو ٗ وزیراعظم نے واضع کیا کہ پاکستان میں گورننس سسٹم میں بہتری سے ملک ٹیک آف کر جائے گا ٗایران اور سعودی عرب میں بہتر تعلقات کے لئے کوششیں کر رہے ہیں ٗ پاکستان کا کردار ایک پیس میکر کا ہے ٗ قبل ازیں اپٹما کے گروپ لیڈر گوہر اعجاز نے وزیر اعظم کو ٹیکسٹائل انڈسٹر ی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ٗگوہر اعجاز نے کہا کہ 2013ء میں پاکستان کی برآمدات 25بلین ڈالر تھیں ٗ گزشتہ پانچ سالوں میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا ٗ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کی برآمدات 13بلین ڈالر سے بڑھ کر 40بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں ٗ 2013ء کے بعد 2017میں ملکی برآمدات کم ہو کر 21بلین ڈالر رہ گئیں ۔انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ کروڑ افراد کا روزگار ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ ہے گزشتہ پانچ سالوں میں 150ٹیکسٹائل ملیں بند ہوئیں ٗگوہر اعجاز نے وزیراعظم سے اپیل کی کہ حکومت تاجروں کو ریفنڈز کی ادائیگی کے لئے اقدامات کرے ٗاس موقع پر اپٹما کے چیئرمین سید علی احسان نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی تقریب میں شرکت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اس سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی ممکن ہوگی بلکہ ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ بعدازاں وزیراعظم نے اپٹما عہدیداران میں شیلڈ ز تقسیم کیں۔