اسلام آباد (ملت آن لائن + آئی این پی) سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید نے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ پینوراما سینٹر کی تعمیر کے وقت تاریخی عمارت گرائی گئی‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا جائے ‘ ہڑپہ کا علاقہ ختم کر کے وہاں ٹریک بچھا دیا گیا ‘ کسی کو علم ہی نہیں وہاں کتنا بڑا ظلم کیا گیا ‘ انجینئرز کو وہاں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا ‘ وکیل جب اونچی آواز میں بات کرتا ہے تو لگتا ہے دلائل ختم ہو گئے ہیں ‘ جب آواز اونچی ہو تو سمجھ لیں قانون نے ساتھ چھوڑ دیا ہے ‘ غلط دلیل صحیح دلیل کو ختم کر دیتی ہے ۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ وکیل سول سوسائٹی عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ تعمیرات پر تحفظات کو دور کرنا حکومت کا کام ہے ‘ ہمیں مک مکا نہیں کرنا۔ حکومت پنجاب تاریخی ورثے کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکی ‘ تاریخی عمارتوں کی 200 فٹ حدود میں تانگہ کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ‘ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میٹرو ٹرین کے لئے این او سی جاری کر دیا گیاہے۔ ٹریک کے ستونوں سے عمارتوں کی خوبصورتی ختم ہو جائے گی ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر قانون پر عمل نہیں کرنا تو اسے ختم کر دیں ‘ تاریخی ورثہ ختم ہو گیا تو دوبارہ نہیں بن سکے گا ‘ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ تاریخی ورثہ پاکستان عوام کی ملکیت ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ٹرین سیدھی بھی چلائی جا سکتی ہے۔ تحفظ کے لئے موڑ دیا گیا ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر عدالت اور حکومت مطمئن ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ تمام پہلوؤں کو دیکھ کر ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پینوراما سنٹر کی تعمیر کے وقت تاریخی عمارت گرائی گئی اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا جائے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہمیں کمیٹی میں شمولیت کے لئے رابطے کئے جا رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ثقافتی ورثے کو مکمل محفوظ بنانے کا دعویٰ کیا گیاہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف ثقافتی ورثہ بچانے آئے ہیں۔ ڈی جی آثار قدیمہ نے 11 تاریخی عمارات سے ٹرین کی اجازت دی ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آمروں کو بھی اجازت نہیں دی کہ جو دل میں آئے کرتا پھرے ۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ تاریخی عمارات کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کیس کسی نے سٹڈی کیاہے؟۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ انجینئرز کو وہاں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ ہڑپہ کا علاقہ ختم کر کے وہاں ٹریک بچھا دیا گیا۔ کسی کو علم ہی نہیں وہاں کتنا بڑا ظلم کیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ رپورٹ میں لکشمی کا ذکر کئے بغیر این او سی جاری کر دیا گیا ۔ یونیسکو کے 140 افراد کو ویزے جاری نہیں کئے جا رہے۔ یونیسکو ممبرز نے یہاں آ کر جلوس نہیں نکالنا جائزہ لینا ہے۔ قومی ورثے کا تحفظ ہمارا فرض ہے۔ وکیل سول سوسائٹی اظہر صدیق نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ نے مجھے سنے بغیر درخواست خارج کی۔ غیر ضروری دلائل دینے پر عدالت نے وکیل اظہر صدیق کی سرزنش کر دی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ابھی آپ کشمیر ‘ کلبھوشن یادیو ‘ غائب کرنل پر بات شروع کر دیں گے۔ آپ سب کی کشتی ڈبونا چاہتے ہیں۔ اب صرف کلبھوشن رہ گیا ہے باقی سب کہہ چکے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وکیل جب اونچی آواز میں بات کرتا ہے تو لگتا ہے دلائل ختم ہو چکے ہیں جب آواز اونچی ہو تو سمجھ لیں قانون نے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ غلط دلیل صحیح دلیل کو ختم کر دیتی ہے۔