خبرنامہ

آسٹریلیا پاکستانی طلبہ کا منتظر…اسد اللہ غالب

آسٹریلیا پاکستانی طلبہ کا منتظر…اسد اللہ غالب

تنویر نذیر عام پاکستانیوںجیسا ایک نوجوان ہے۔مگر اس کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے اوراس کے لئے وہ ملک کے ہونہار طلبہ کے لئے بیرونی یونیورسٹیوں میں داخلوں اورا سکالر شپس کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ اس کی خدمات سے استفادہ کرنے والے نوجوان اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کے بعد ملک واپس آکر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کی استعداد اور صلاحیتوںمیں اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔

پچھلے دنوں تنویر نذیر آسٹریلیا گئے۔ وہاں دنیا بھر سے ان کی طرح کے کوئی تین سو اداروں کے نمائندے اور آسٹریلیااور نیوزی لینڈ کی ایک سو یونیورسٹیوں کے کارپردازان اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔ تنویرنذیر نے آنسوئوں میں بتایا کہ نیوزی لینڈ کے حکومتی نمائندے نے اپنی بات کاآغاز اس دعا کے ساتھ کیا کہ کرائسٹ چرچ میں شہید ہونے والوں کی اللہ مغفرت فرمائے اور ان کے والدین کو صبر عطا کرے۔اس نے فخریہ طور پر ا علان کیا کہ ہم نیوزی لینڈ کے باشندے سب ایک ہیں، ایک جیسے ہیں۔ کسی میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے۔ سب برابر ہیں اور ہر ایک کی جان ہمیں عزیز ہے اور ہم مذہب، رنگ اور نسل سے بالاتر ہو کر ا سلامی ممالک اور دنیا بھر کے طلبہ کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔انہوںنے واپسی پر میرے ساتھ خصوصی ملاقات کی اور اپنے سفر کاا حوال شیئر کیا اور اپنے مشاہدات کو بلا کم وکاست بیان کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آ سٹریلیا ایک بڑا بر اعظم ہے مگر اس کے تین شہروں ملبورن ، سڈنی اور پرتھ کو چھوڑ دیںتو باقی سار ا بر اعظم شاید پاکستان سے بھی بد تر تصویر پیش کر رہا ہے مگر چند برس پہلے اس ملک کو ساحلی علاقوں سے معدنیات کے ذخائر ملے اور وہ اب دولت سے مالا مال ملک ہے مگر ترقی اور خوش حالی کے لحاظ سے امریکہ ، یورپ ، جاپان جنوبی کوریا سنگا پورا ور ملائیشیا سے بہت پیچھے ہے مگر اس ملک کے اندر ایک عزم ہے۔ وہ دن رات تعمیرو ترقی کے عمل میں کوشاںہیں‘ اس لئے ان کی پہلی ضرورت محنت کش اور مزدور ہیںجو یورپ سے بھی جا رہے ہیں اور پاکستان سے بھی جا سکتے ہیں ۔ مگر پاکستان کو اس ضمن میں حکومتی سطح پر کوئی معاہدہ کرنا پڑے گا۔ اسوقت آسٹریلیا والے طلبہ کو تو ویزہ دے رہے ہیں مگر اس کی تعداد بھی محدود ہے۔نیپال جیسا ملک ہم سے سو گنا زیادہ طلبہ کو وہاں سے ویزہ دلوانے میں کامیاب رہتا ہے مگر ہمارے فارن آفس ، وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی جس کی وجہ سے امریکہ، یورپ میں تو ہمارے طلبہ کے ویزے بند ہیں۔ اس کے لئے ہماری حکومت کو خواب خرگوش سے بیدار ہونا ہو گا اور امریکہ اور یورپ سے باقاعدہ معاہدے کرناہوں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ویزے جاری کرے۔ دنیا میں کوالٹی کی تعلیم آج بھی صرف امریکہ اور برطانیہ کی چند معروف یونیورسٹیوں سے دستیاب ہے۔ آسٹریلیا تو تعلیم اور تحقیق کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے مگر کوئی درجن بھر ادارے ایسے ہیں جہاںمعیاری تعلیم کا انتظام ہے۔ ان میں پاکستانی طلبہ کو داخلہ مل جاتا ہے مگر یہ بچے جب وہاں کے ہوائی اڈوں پر اترتے ہیں تو انہیں طرح طرح کے ایجنٹ گھیر لیتے ہیں اور اس چکر میں ڈال دیتے ہیں کہ تم نے غلط اور مہنگی یونیورسٹی کاا نتخاب کیا ہے۔ ہم تمہیں سستی تعلیم کا بند و بست کئے دیتے ہیں ۔،اس جھانسے میں وہ ہمارے بچوں کو دور افتادہ اضلاع میں غیر معیاری کالجوں میں داخل کرو ادیتے ہیں اور ان کا وجود کاغذ کی حد تک محدود ہوتا ہے۔بچوں سے کہا جاتا ہے کہ انہیںکالج جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ دو سال بعد ڈگری مل جائے گی۔ اس دوران وہ کھل کر محنت مزدوری کریں اور پیسہ کمائیں۔ اس جھانسے میں مبتلا کرنے والوں کو ہمارے بچوں کے مفاد سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں تو اپنی فیس اورکمیشن سے غرض ہے ۔تنویر نذیر نے کہا کہ اگر ہمارے بچے ان ٹائوٹوں سے بچ جائیں تو ان کامستقبل نہائت شاندار ہے ورنہ وہ پیسہ کمانے والی مشین بن کر رہ جائیں گے۔ آسٹریلیا نے اس کے لئے بڑا لچک دار رویہ اختیار کیا ہو اہے۔ ایک تو وہ تین سال کا تعلیمی ویزہ جاری کرتے ہیں یعنی دوسال پڑھنے کے لئے اور ایک سال محنت مزدوری کی بھی سرکاری طور پر اجازت ہے۔ اکثر کیسوں میں وہ مستقل شہریت بھی دے دیتے ہیں۔ اس پالیسی کا سب سے بڑا فائدہ ا ٹھانے والاملک بھارت ہے، چین بھی پیچھے نہیں اور نیپال اور برازیل بھی اس میں پیش پیش اور سرگرم ہیں۔

تنویر نذیر نو عمر ہونے کے باوجود اپنے پیشے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ پہلے پہل انہوںنے لارنس روڈ کے اس حصے پر جسے سیسل چودھری روڈ کا نام دیا گیا‘ وہاں لنڈن ہائوس کی ایک چار منزلہ بلڈنگ میں انہیں کسی انگریز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔یہ انگریز تو کچھ عرصہ بعد واپس چلاگیا مگر تنویر نذیر نے ا سکی بلڈنگ اور اس سے یونی گائیڈکا نام گرامی کاروبار خرید لیاا وراس تندہی سے آگے بڑھا کہ وہ ہر سال تین چار ممالک کا دورہ کرتا ہے۔ وہاں کے تعلیمی اداروں سے مذاکرات کرتا ہے اور پاکستانی طلبہ کے داخلے کے امکانات کا جائزہ لیتا ہے۔ جیسا کہ میںنے پہلے کہا کہ اس کے بھیجے ہوئے طلبہ اب ملک کا سرمایہ بن چکے ہیں۔ اور جوو اپس نہیں آئے وہ کثیر اور خطیر رقم پاکستان بھجواتے ہیں ۔ پاکستان اس وقت زرمبادلہ کا محتاج ہے اوریہ محتاجی اگلے کئی عشروں تک چلتی رہے گی ۔اس کے لئے حکومت جہاں دیگر کئی اقدامات اٹھا رہی ہے ، وہاں اسے اپنے فارن آفس ،اپنی وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کو متحرک کرنا چاہیے اور امریکہ اور یورپ کے جن ممالک نے تعلیمی ویزے بند کر رکھے ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں، ان کے ساتھ معاہدے کرنے چاہئیں ورنہ بیرونی تعلیمی اداروں میں بھارت کی برتری ہو جائے گی اور ہم نے امریکہ کا کیا مقابلہ کرنا ہے‘ ہم تو بھارت سے بھی مقابلے کی سکت سے محروم ہو جائیں گے۔ تنویر نذیر نے کہا کہ پاکستان کے لئے ایک سنہرا وقت وہ تھا جب ملکی معیشت کی باگ ڈور ڈاکٹر محبوب الحق جیسے جید اور محب وطن کے ہاتھ میں تھی اور انہوںنے اعلان کیا تھا کہ جو پاکستانی طلبہ امریکی اور یورپی تعلیمی اداروں میں میرٹ پر داخلہ لیں گے، ہم ان کی پوری فیس بھی بھریں گے، ان کے آمد و رفت کے اخراجات بھی برداشت کئے جائیں گے اور ان کے ہوسٹل کے اخراجات بھی حکومت پاکستان ادا کرے گی۔ یہ ہے وہ اسپرٹ جس سے ہمیں کام لینا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات تو کی ہے مگر اس کے لئے وہ عملی اقدامات بھی تو کریں ‘ وہ پاکستانی طلبہ کے لئے بیرونی ملکوں کے بند دروازے بھی کھلوائیں اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے وسیع اور بے بہا امکانات سے بھرپور فائدہ ا ٹھانے کیلئے آگے بڑھیں۔