ایون فیلڈریفرنس: نیب کے برطانوی گواہ رابرٹ ریڈلی کا اعتراف
اسلام آباد:(ملت آن لائن) شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ رابرٹ ریڈلی نے اعتراف کیا ہے کہ 2005 میں کیلبری فونٹ موجود تھا۔ شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت سماعت 6 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی جس میں بذریعہ ویڈیو لنک استغاثہ کے گواہ رابرٹ ریڈلی پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے جرح کی۔ خواجہ حارث کی نیب کے گواہ رابرٹ ریڈلی کے ساتھ جرح سوال و جواب کی صورت میں پیش کی جا رہی ہے۔ خواجہ حارث: کیا یہ درست ہے کہ ونڈو وسٹا کے 3 ایڈیشن جاری ہوئے؟ رابرٹ ریڈلی: یہ درست ہے کہ ونڈو وسٹا کے تین ایڈیشن جاری ہوئے تھے۔خواجہ حارث: کیا یہ بھی درست ہےکہ ونڈووسٹا کا پہلاباقاعدہ ایڈیشن31جنوری2007 کوجاری ہوا؟ رابرٹ ریڈلی: ونڈو وسٹا نے پہلا ایڈیشن 31 جنوری 2007 کو ہی جاری کیا تھا۔ خواجہ حارث: اگر میں یہ کہوں کہ ونڈو وسٹا بیٹا کا پری لانچ ایڈیشن2005 میں جاری ہوگیا تھا تو کیا یہ درست ہے؟ رابرٹ ریڈلی: ونڈو وسٹا بیٹا کاپہلاایڈیشن 2005 میں آئی ٹی ایکسپرٹ کے لیے جاری ہوا تھا۔ خواجہ حارث : کیا ونڈووسٹابیٹا کے پری لانچ ایڈیشن کے ساتھ کیلیبری فونٹ کی سہولت موجود تھی؟ رابرٹ ریڈلی: یہ درست ہے کہ ونڈو وسٹا بیٹا کےساتھ کیلیبری فونٹ کی سہولت موجود تھی لیکن یہ صرف آئی ٹی ایکسپرٹ اورآئی ٹی ڈویلپرکوٹیسٹ کرنےکیلیےفراہم کیا گیا تھا۔ خواجہ حارث : کیایہ درست ہےکہ ونڈووسٹا بیٹا کا کیلیبری فونٹ ہزاروں لوگ استعمال کررہےتھے؟ رابرٹ ریڈلی: یہ بات درست نہیں کہ ہزاروں لوگ استعمال کر رہے تھے بلکہ محدود پیمانے پرآئی ٹی ماہرین کولائسنس کےساتھ ٹیسٹ کیلیےفراہم کیاگیاتھا۔ خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ مریم نواز نے آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول سے متعلق جو حلف نامہ 2006 میں جمع کرایا وہ کیلیبری فونٹ میں تھا اور یہ فونٹ 2007 سے پہلے موجود نہیں تھا۔ خواجہ حارث : کیا آپ نےاپنی رائےسےپہلےتمام دستاویزات کوپڑھاتھا؟ رابرٹ ریڈلی: نہیں، میں نےدستاویزات کوتفصیل کےساتھ نہیں پڑھا۔ خواجہ حارث : کیا آپ نےان سےاصل دستاویزات مانگی تھیں؟ رابرٹ ریڈلی: نہیں میں نے اصل دستاویزات نہیں مانگی ، مجھےاصل دستاویزات کی ضرورت نہیں تھی، نا ہی میں نےاس کاذکرفارنزک رپورٹ میں کیا۔ خواجہ حارث : کیا آپ نےرپورٹ میں ذکرکیاتھاکہ آپ کواصل دستاویزات نہیں مہیا کی گئیں ؟ رابرٹ ریڈلی: نہیں، میں نےان سےاصل دستاویزات سےمتعلق سوال نہیں کیا۔ خواجہ حارث: کیا تمام دستاویزات کامواد ان کی اصلیت پرمبنی تھا،کیاآپ نےموادکاتفصیلی جائزہ لیا؟ رابرٹ ریڈلی: مجھےدستاویزات کےموادمیں دلچسپی نہیں تھی،میرا کام ان کافارنزک آڈٹ کرناتھا۔ خواجہ حارث : کیا آپ نے رپورٹ کےساتھ منسلک علیحدہ سےشیڈول کامطالبہ کیا؟ رابرٹ ریڈلی: جودستاویزات مجھےجیسی موصول ہوئیں، انہیں اسی طرح واپس کرنا میراٹاسک تھا۔ خواجہ حارث : ابھی جودستاویزات آپ کےپاس ہیں ان کے ساتھ شیڈول منسلک ہے؟ رابرٹ ریڈلی: جی جو دستاویزات میرے پاس موجود ہیں ان کے ساتھ شیڈول منسلک ہے۔ خواجہ حارث : اس کا مطلب ہے کہ آپ نےان سےمنسلک شیڈول کانہیں پوچھا،نا ہی رپورٹ میں ذکرکیا؟ رابرٹ ریڈلی: نہیں میں نےان سےشیڈول کامطالبہ نہیں کیا اور نا ہی یہ میرا کام تھا۔ خواجہ حارث : شیڈول ان دستاویزات کےساتھ منسلک ہے تو آپ کا شیڈول ساتھ نہ ہونےکابیان صحیح نہیں؟ رابرٹ ریڈلی: شیڈول ان دستاویزات کے ساتھ شیڈول منسلک ہے، میں تسلیم کرتاہوں کہ میرا بیان غلط ہے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کی، اس موقع پر نامزد ملزم کیپٹن (ر) محمد صفدر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ دیگر ملزمان میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز آج حاضری سے استثنیٰ ملنے کے باعث پیش نہیں ہوئے۔ خواجہ حارث: کیا یہ بات درست ہےآپ فونٹ کےحوالےسےنوٹس دیکھ کرجواب دےرہےہیں ؟ رابرٹ ریڈلی: یہ بات درست ہے کہ میں نوٹس دیکھ کر آپ کے سوالوں کا جواب دے رہا ہوں۔ خواجہ حارث: آپ نے نوٹس کب تیار کیے،کیا یہ نوٹس آپ نے جرح کے لیے تیار کیے ہیں؟ رابرٹ ریڈلی: یہ درست ہےنوٹس جرح کیلیےتیارکیےاورکل اس حوالےسےمیٹنگ ہوئی، اس حوالے سےبحث بھی ہوئی۔
خواجہ حارث: میٹنگ کس حوالے سے ہوئی؟
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اس موقع پر کہا کہ یہ سوال متعلقہ نہیں ہے، میں یہاں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آیا ہوں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کل کی میٹنگ بھی پھرعدالت کے حکم پر ہی ہوئی ہوگی۔
خواجہ حارث کے اس جملے پر احتساب عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
شریف خاندا ن کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز کیس میں استغاثہ کے غیر ملکی گواہ رابرٹ ریڈلی پر جرح مکمل نہ ہوسکی جس کے باعث سماعت کل دوپہر دو بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ اس کےعلاوہ شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اورفلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسزکی سماعت یکم مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے 4، 4 گواہان کو طلب کر لیا گیا۔ العزیزیہ سٹیل ملزریفرنس میں عرفان ملک،محمدعلی رضا،سنیل اعجازاوراظہراکرم کو بطور گواہ طلب کیا گیا جب کہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں نویدالرحمان، ذکی الدین، راؤعبدالحنان اور محمد رضوان خان کو طلب کیا گیا ہے۔ نیب کے گواہ رابرٹ ریڈلی کے احتساب عدالت میں دیئے گئے بیان پر مریم نواز نے کہا کہ میں آج کے دن کا انتظار کررہی تھی۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں جانتی تھی جس گواہ پریہ انحصارکررہےہیں وہ اہم موڑثابت ہوگا، میں جانتی تھی یہ گواہ جھوٹ نہیں بول سکتا اور میرا اللہ پر یقین ہے۔
نیب کے گواہ کا ویڈیو لنک کے ذریعے بیان
قبل ازیں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود رابرٹ ریڈلی نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ نیلسن اور نیسکول کے ڈیکلریشن پر تاریخوں کی تبدیلی کا موازنہ کیا اور دونوں ڈیکلریشن میں دوسرا اور تیسرا صفحہ ایک جیسا ہے۔ گواہ نے کہا کہ یہ بتانا ناممکن تھا کہ کون سا صفحہ اصل ہے اور کون سا اس کی نقل جب کہ دونوں صفحات پر موجود تاریخوں میں بھی تبدیلی کی گئی۔ رابرٹ ریڈلی کے مطابق 2004 کو تبدیل کر کے 2006 بنایا گیا اور 6 کی جگہ ممکنہ طور پر اصل میں 4 درج تھا، ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کاغذات تبدیل کرنے کے لیے کارنر پیس کو کھولا گیا اور دستاویزات پر 2 کی بجائے 4 اسٹیپلر پن کے سوراخ تھے۔ رابرٹ ریڈلی نے کہا کہ میں نے دستاویزات کے ٹائپنگ فونٹ کا بھی جائزہ لیا، ڈیکلریشن کی تیاری میں کیلبری فونٹ استعمال کیا گیا جب کہ یہ فونٹ 31 جنوری 2007 تک کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔ خیال رہے کہ نیب نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا ہے۔
حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور
اس سے قبل نواز شریف کی معاون وکیل عائشہ احد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں استغاثہ کے غیرملکی گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے موقع پر حاضری سے استثنیٰ دیا جائے، گواہوں کے بیان پر ہم نے جرح کرنی ہے، ملزمان کے آنے کی ضرورت نہیں۔ جس پر فاضل جج نے ہدایت کی کہ آپ درخواست لکھ کر دے دیں اور نہ آنے کی وجہ بھی بتائیں جب کہ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ صرف غیر معمولی حالات میں ہی حاضری سے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ فریقین کے دلائل کے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کو آج کے لئے حاضری سے استثنیٰ دے دیا تاہم غیرملکی گواہوں کے بیانات کے موقع پر صرف کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پیش ہونے کی ہدایت کی۔
نیب کے ضمنی ریفرنسز پر اعتراضات
نواز شریف کی معاون وکیل عائشہ حامد نے دلائل کے دوران دونوں ضمنی ریفرنسز پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیب کی جانب سے دائر دونوں ضمنی ریفرنسز کی ضرورت نہیں تھی اور ضمنی ریفرنسز دائر کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی شرائط پر عمل نہیں کیا گیا۔وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی نیا اثاثہ سامنے آنے پر ضمنی ریفرنس دائر کیا جائے، جن کمپنیوں کی تفصیلات دی گئیں وہ برطانیہ کا کوئی بھی شہری ایک فارم بھر کر حاصل کر سکتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران بھی یہ تمام ریکارڈ پبلک ڈومین میں موجود تھا اور ضمنی ریفرنسز میں دی گئی معلومات نئے اثاثوں کی کیٹیگری میں نہیں آتیں۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ضمنی ریفرنسز کی منظوری یا اسے مسترد کرنے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
نیب کے ضمنی ریفرنسز
نیب کی جانب سے 14 فروری کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق 2 ضمنی ریفرنس دائر کیے گئے جن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف تمام اثاثوں کے خود مالک تھے اور انہوں نے اثاثے اپنے بچوں کے نام بنا رکھے تھے اور ان کے بچے نواز شریف کے بے نامی دار تھے۔ ضمنی ریفرنسز میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف اپنے اثاثوں سے متعلق بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہے جب کہ انہیں تحقیقات کے لیے بلایا گیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ اس سے قبل نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے 5 افراد کے خلاف 22 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے سلسلے میں بھی ایک ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔
کیس کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔ نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔ دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔