شریف فیملی کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 5 بار موخر ہوا، رجسٹرار سپریم کورٹ نے بتایا کہ فیصلے میں تاخیر فیصلے کی فوٹو کاپیاں کرانے کی وجہ سے ہوئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستوں پر سماعت کی۔ وکلاء نے عدالت سے استدعا کی کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 7 روز کیلئے مؤخر کر دیں، ملزمان عدالت حاضر ہونا چاہتے ہیں، بیگم کلثوم نوازکی میڈیکل رپورٹ درخواست کے ساتھ موجود ہے۔ نیب نے فیصلہ مؤخر کرنے سے متعلق درخواست کی مخالفت کی اور کہا عدالت نے ملزمان کی طلبی کے نوٹسز بھی جاری کیے تھے، ملزم جان بوجھ کر عدالت نہیں آئے، ٹرائل مکمل ہے، فیصلے کیلئے تاریخ بھی مقرر تھی۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
یاد رہے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کیلئے درخواستیں دائر کیں، نمائندوں کے ذریعے دائر درخواستوں میں نواز شریف اور مریم نواز نے کہا کہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے برطانیہ گئے، جہاں ان کی طبعیت زیادہ خراب ہونے پر مزید قیام کرنا پڑا، کلثوم نواز کی صحت سے متعلق آئندہ 48 گھنٹے اہم ہیں، لہذا ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کم از کم ایک ہفتے کے لیے موخر کر دیا جائے۔
ایون فیلڈ ریفرنس مکمل
احتساب عدالت نے تقریباً ساڑھے 9 ماہ کیس کی سماعت کی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف سمیت ملزمان سے 127 سوالات پوچھے گئے ، مجموعی طور پر 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے جبکہ نیب کے گواہ رابرٹ ریڈلے اور راجا اختر کا ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کیا گیا، ملزمان کی طرف سے اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا، ایون فیلڈ ریفرنس کی 107 سماعتیں ہوئیں ہیں، سابق وزیر اعظم نواز شریف 78 اور مریم نواز 80 مرتبہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
نیب نے نواز شریف اور بچوں کیخلاف 8 ستمبر 2017 کو عبوری جبکہ مزید شواہد سامنے آنے پر 22 جنوری کو ضمنی ریفرنس دائر کیا۔ 19 اکتوبر 2017 کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی جبکہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ نواز شریف 26 ستمبر 2017 کو جبکہ مریم نواز 9 اکتوبر کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری ہونے کے باعث کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت پیش کیا گیا۔ مسلسل عدم حاضری پر عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، 8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نواز شریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔ 11 جون 2018 کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے۔ نواز شریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کرایا۔ 19 جون کو خواجہ حارث نے دستبرداری کی درخواست واپس لے لی۔ اس کے بعد خواجہ حارث اور امجد پرویز کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر لندن فلیٹس ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
اپریل 2016 کو پاناما پیپرز کا معاملہ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے اٹھایا تھا۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے ) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھا، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام شامل تھے۔ ڈیٹا کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز کئی آف شورکمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔ ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا، اس حوالے سے وزیر اعظم نوازشریف نے دوبار قوم سے خطاب کیا اور ایک بار پارلیمنٹ میں بھی خطاب کیا۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں تحقیقات کیلئے ٹی اوآرز بنانے کیلئے کوشش کرتی رہیں لیکن حکومت کا اصرار تھا کہ احتساب کا عمل سب سے شروع ہونا چاہیے جبکہ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ صرف وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کا پہلے احتساب ہونا چاہیے۔
نواز شریف نااہل قرار
عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد پاناما کے ایشو پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اس پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جما لی کی سربراہی میں پہلی مر تبہ یکم نومبر 2016 کو پاناما کیس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دیا گیا، کچھ روز سماعت کے بعد سابق چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کی وجہ سے یہ بینچ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے کیس کی سماعت کی اور سماعت مکمل کر نے کے بعد 20 اپریل 2017 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ پانچ رکنی بینچ کے تین ججوں نے پاناما پیپرز کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ سنایا جبکہ دو ججوں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو صادق اور امین قرارنہ دیتے ہوئے نا اہل قرار دیا۔
جے آئی ٹی تشکیل
تین رکنی بینچ نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی۔ اس میں نیب، سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے شامل تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین نیب، صدر نیشنل بینک، اس وقت کے چیئرمین ایس ای سی پی کو طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کو 6 بار جبکہ حسن نواز کو 3 بار طلب کیا تھا۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے 63 روز میں تحقیقات مکمل کر کے 10 جولائی کو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو پیش کی تھی۔ جے آئی ٹی نے 10 جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فریقین کے اعتراضات 17 جولائی سے سنے اور پانچ روز مسلسل سماعت کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
یہ خبر بھی پڑھیں:نواز شریف پارلیمانی سیاست سے تاحیات نا اہل
نواز شریف سیاست سے تاحیات نااہل
سابق وزیراعظم نواز شریف پارلیمانی سیاست سے بھی تاحیات نااہل ہوئے، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی، جو شخص صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نا اہل قرار دیتا ہے، رکن پارلیمنٹ ہونے کیلئے صادق اور امین ہونا ضروری ہے ، نواز شریف تاحیات نااہل ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عبدالغفور لہڑی کیس میں جھوٹے بیان حلفی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوا ، عبدالغفور کیس میں کہا گیا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی ، آئین سازوں نے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا ، آرٹیکل 62 ون ایف کا 63 ون ایچ سے موازنہ نہیں ہوسکتا، عدالتی ڈیکلیئریشن کی موجودگی تک نا اہلی تاحیات ہوگی ، اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف میں عدالتی میکنزم فراہم کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل تھے، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کر کے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور 6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔