خبرنامہ

برما کی دل کو خون کے آنسو رلا دینے والی تصویریں..بشکریہ بی بی سی

برما کی دل کو خون کے آنسو رلا دینے والی تصویریں..بشکریہ بی بی سی

……
برما پر کالم
میرا جرم کیا ہے؟ … کالم عمار چوہدری

ذرا سوچیں آپ اپنے ملک میں عشروںسے رہ رہے ہوں ‘ آپ یہیں پیدا اور یہیں پلے بڑھے ہوں‘ آپ کی نوکری‘ خاندان‘ رہائش اور کاروبار برسوں سے اسی سرزمین سے وابستہ ہو اور ایک دن آپ کو کہہ دیا جائے کہ آپ کی شہریت ختم کر دی گئی ہے‘ آپ اس ملک کے شہری نہیں رہے لہٰذا فوری طور پر یہ ملک چھوڑ دیں توآپ کا کیا ردعمل ہو گا۔ یہی نہیں بلکہ آپ سے زبردستی آپ کا مکان بھی چھین لیا جائے‘ آپ کے بینک اکائونٹس منجمد کر دئیے جائیں‘ آپ کو نوکری سے نکال دیا جائے‘ آپ کے بچوں کا سکولوں میں داخلہ بند کر دیا جائے ‘حتیٰ کہ آپ پر بازار سے چیزیں خریدنے‘کھانا کھانے یا ہسپتال سے علاج کرانے تک پر پابندی لگا دی جائے اوروہ گھر جس میں آپ رہتے ہوں پولیس دھاوا بول دے‘ بلوائی آپ کے گھر کا سامان لوٹ لیں‘ آپ کو اُٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں اور مزاحمت پر آپ کو قتل کرنے یا زندہ جلانے کی کوشش کریں تو آپ کیا کریں گے؟ یقینا آپ جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کریں گے۔اگر آپ کے اردگرد عورتوں‘ جوانوں اور بچوں کے گلے اور نازک اعضا کاٹے جا رہے ہوں‘ انہیں درختوں سے باندھ کر آگ لگائی جا رہی ہو اور ان کی کھوپڑیوں میں سوراخ کر کے ان کی لاشوں کو چوکوں چوراہوں پر لٹکایا جا رہا ہو تو آپ کے پاس واحد راستہ یہی رہ جائے گاکہ آپ اپنی جان بچائیں اور فوراً ملک چھوڑ دیں۔ آپ چاروناچار بھوکے پیاسے سرحد کی طرف بڑھیں تو بارودی سرنگوں پر پائوں رکھنے سے آپ کے اردگرد کئی جسم ہوا میں پتوں کی طرح بکھرنے لگیں تو آپ کیا کریں گے۔فرض کریں آپ ان بارودی سرنگوں سے بھی بچ جاتے ہیں لیکن آگے پڑوسی ملک آپ کو قبول کرنے سے انکار کر دے اور آپ پر گولیوں کی بارش کر کے‘ خاردار باڑ لگا کر آپ کا راستہ روک دے تو آپ کیا کریں گے۔ ایسے میں ایک طرف آپ کی طرف آپ کے ملک کی فوج اور بلوائی بندوقیں‘ٹینک‘ خنجر نیزے‘کلہاڑے اور ڈنڈے لے کر لپک رہے ہوں اور دوسری طرف سرحد پار ملک آپ کو ویلکم کہنے سے انکار کر دے تو آپ کیا کریں گے۔یقینا آپ آسمان کی طرف منہ کر کے یہ سوال کریں گے کہ میرا جرم کیا ہے۔
یہی سوال گزشتہ کئی برس سے برما میں مقیم دس لاکھ روہنگیا مسلمان اپنے آپ سے پوچھ رہے ہیں۔ وہاں بربریت کی جو داستانیں رقم کی جا رہی ہیں وہ سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ شیئر کی جانے والی ویڈیوز کے بارے میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ یہ واقعات کب اور کہاں پیش آئے۔ کچھ ویڈیوز ایسی ہیں جو دو تین سال قبل پرانی ہیں‘ وہ بھی دھڑا دھڑ شیئر کی جا رہی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج وہاں ظلم نہیں ہو رہا۔ اس وقت بھی برمی فوج کی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے وگرنہ یہ ایشو عالمی ممالک اور عالمی میڈیا کی اس قدر توجہ حاصل نہ کر پاتا۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوںکو قانونی حیثیت حاصل نہیں۔حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ میانمار میں نسلوں سے رہ رہے ہیں۔ریاست رخائن میں گزشتہ پانچ برس سے فرقہ وارانہ تشدد میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔برما کی مغربی سرحد بنگلہ دیش اور بھارت کے ساتھ ملتی ہے جبکہ تھائی لینڈ اور لائوس اس کے مشرق اور شمال میں چین واقع ہے۔جنوب میں سمندر ہے۔اب تک ترکی اور متحدہ عرب امارات روہنگیا مسلمانوں کیلئے امداد کا اعلان کر چکے ہیں لیکن یہ امداد روہنگیا مسلمانوں تک کیسے پہنچے گی‘ اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ برما کی فوج او رنام نہاد حکومت نے مسلمان اکثریتی علاقوں میں عالمی میڈیا اور اداروں کے داخلے پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ننھے منے ملک مالدیپ‘ جس کی کوئی فوج ہی نہیں اس نے برما سے تعلقات ختم کر دئیے ہیں۔ برمی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد چند برس قبل سعودی عرب بھی پہنچ گئی تھی جنہیں وہاں رہائش کے خصوصی ویزے جاری کیے گئے ۔ انہیں سعودی عرب میں دیکھ بھال ، سرپرستی اور ہمدردی ملی۔روہنگیا میڈیا سینٹر کے مطابق سعودی عرب دنیا بھر میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا سب سے بڑا
سپورٹر ہے ۔ان کے مطابق اڑھائی لاکھ سے زیادہ برمی مسلمانوں کو پناہ دی گئی۔پاکستان اس سلسلے میں جو کم از کم اقدام کر سکتا تھا وہ برما کے سفیر کی ملک بدری تھی۔ برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا یہ کمزور ترین اظہار ہو سکتا تھا ۔ ہماری حکومت کس سوچ بچار میں ہے یہ خدا جانتا ہے لیکن اس معاملے کا ایک نفسیاتی پہلو ایسا ہے جسے اگر نظر انداز کر دیا گیا تو اس قسم کے خوفناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں جن کی ایک جھلک ہمیں گزشتہ دنوں کراچی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے پروفیسر اور طلبا کے دہشت گردی میں ملوث ہونے میں ملی۔ سوشل میڈیا پر جو تصاویر اور ویڈیوز شیئر ہو رہی ہیں‘ اس سے قطع نظر کہ وہ پرانی ہیں یا نئی‘ ان کے جو منفی اور نفسیاتی اثرات ہماری نوجوان نسل اور بچوں پر ہو رہے ہیں وہ ملکی سلامتی کیلئے انتہائی خوفناک ہو سکتے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے دہشت گردی میں معاونت کے الزام میں جو طلبہ پکڑے گئے‘ وہ انتہائی پڑھے لکھے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے طلبہ جنہیں تعلیم و تحقیق میں چاند پر کمند ڈالنی چاہیے‘وہ کیوں ایسے راستے پر چل پڑتے ہیں کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ پڑھے لکھے نوجوان داعش اور اس سے منسلک تنظیموں کا بڑا ہدف ہیں، نوجوان طلبہ سوشل میڈیا پر دشمنوں کے بیانیے سے چوکنا رہیں۔ گزشتہ دنوں انصار الشریعہ نیٹ ورک میں پکڑے جانے والوں نے جو انکشات کئے اس کے بعد سکیورٹی اداروں نے باقاعدہ درخواست کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی نگرانی کریں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ دشمن کے بیانیے کے جواب میں ہمارا بیانیہ کیا ہے یہ ہمارے نوجوانوں کو کون بتائے گا۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ جب فلسطین‘ کشمیر یا برما سے متعلق ایسی کوئی ویڈیوز‘ خبریں یا تصاویر شیئر ہوتی ہیں تو یہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں پر کیا اثرات ڈالتی ہیں۔ ہمارا نوجوان اس وقت کیا سوچتا ہے جب وہ
یہ دیکھتا ہے کہ ہم اکلوتی مسلم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ایک معمولی سے ہمسایہ ملک میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو ہم نہ روک سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر کسی قسم کا پُراثر احتجاج کرسکتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں اگر مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اور اگر اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ دنیا میں کہیں مظلوم و مغلوب مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو تو انہیں بچانا دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے توپھر ہم طاقتور ہوتے ہوئے بھی کیوں ان کی مدد نہیں کر رہے۔ ایسے نوجوانوں کو جب کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا اور جب کوئی ایسا قومی بیانیہ سامنے نہیں آتا جو ان کی تشنگی دُور کر سکے‘ انہیں مطمئن کر سکے تو پھر ایک خلا پیدا ہوتا ہے اور یہ خلا پھر انصار الشریعہ‘ ٹی ٹی پی اور القاعدہ جیسی تنظیمیں پُر کرتی ہیں‘ وہ آگے بڑھ کر ایسے نوجوانوں کا ہاتھ تھامتی ہیں اور انتہائی سائنٹفک انداز میں انہیں نہ صرف اُن کے سوالوں کا دلائل کے ساتھ جواب دیتی ہیں بلکہ ان میں ایک ایسی تحریک پیدا کردیتی ہیں جس کے بعد وہی طالب علم جو اپلائڈ فزکس کے اصولوں کو ملکی دفاع کی مضبوطی کیلئے استعمال کر سکتا ہے‘ وہ ان اصولوں کوخودکش ہتھیار ‘ بم اور جیکٹیں بنانے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیتاہے ۔ یہ وہ خطرناک رجحان ہے جو برما جیسے ایشوز کے بعد تیزی سے موبائل فونز کے ذریعے ہمارے بیڈ رومز تک پہنچ رہا ہے اور ہمارے بچوں اور جوانوں کے ناپختہ ذہنوں میں سرایت کر رہا ہے‘ ہمارے بچے انٹرنیٹ اور موبائل سے تحقیق کر رہے ہیں یا خدانخواستہ ایسے کسی گروہ کے ہتھے چڑھ رہے ہیں‘ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اس مسئلے کا تدارک اکیلے والدین کر سکتے ہیں نہ حکومت یاسکیورٹی فورسز۔لیکن اگر حکومت برما جیسے معاملات میں مبہم رویہ اختیار رکھے گی‘ اگر وہ ترک حکومت کی طرح برمی مسلمانوں کی مدد کیلئے کھل کر سامنے نہیں آئے گی‘ اوراپنے عوام‘اپنے نوجوانوں کو دہشت گردو ں کے بیانیے کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی تو پھر ہمارے نوجوان کسی مثبت راستے پر چل پائیں گے‘ نہ ہی اس ملک سے کبھی دہشت گردی کی جنگ ختم ہو سکے گی ۔