بلدیاتی اداروںاور سیاسی نظام کے ساتھ کھلواڑ…اسد اللہ غالب
پاکستان میں بلدیاتی نظام کی کیفیت شعر کے اس مصرے سے ملتی جلتی ہے کہ: ’’اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘۔ جیسے ہی کوئی بلدیاتی اداروں کو زندہ کرنے کی غلطی کرتا ہے تو ساتھ ہی ان کے گلے پر تلوار چل جاتی ہے، یہ تاثر بر منگھم کے چوہدری عبد الغفار کا ہے، جنہوں نے یہ خبر سن کر اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ عدلیہ نے بلدیاتی ادارے بحال کردیئے ہیں لیکن اب وہ پاکستان میں اپنی جان پہچان کے لوگوں کو فون کرتے ہیں تو انہیں بڑی دکھی کردینے والی خبریں ملتی ہیں کہ بلدیاتی اداروں کی بحالی محض ایک تماشا ہے اور ایک دکھاوا ہے، انہیں اس وقت بحال کیا گیا ہے جب ان کی ٹرم میں صرف دو ماہ باقی ہیں اور دوسری طرف کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ان کے اختیارات میں مینگنیاں ڈالی جائیں۔ ہمارے اوورسیز پاکستانی اپنے ہاں تو ان اداروں کو انتہائی منظم، خودمختار اور فعال دیکھتے ہیں۔ انہیں ساری شہری سہولتیں انہی اداروں سے ملتی ہیں۔ ہسپتال سے لے کر تعلیمی ادارے انہی کے کنٹرول میں چلتے ہیں۔ گلیوں کی تعمیر اور صفائی ستھرائی انہی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ سوشل سکیورٹی کے نظام کی کامیابی کا دارومدار بھی انہی اداروں کے سر پر ہے۔ ہر سہولت دروازے پر دستیاب ہوتی ہے، شہریوں کو صوبائی یا مرکزی حکومتوں یا ارکان پارلیمنٹ کے پیچھے نہیں بھاگنا پڑتا‘ ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ کے چکر نہیں لگانے پڑتے، شاہی سرکار اور دربار کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا‘ کیا مجال کہ سرخ فیتہ کسی کے مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ بن سکے لیکن عبدالغفار کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو بلدیاتی ادارے بحال ہوئے ہیں وہاں ان کے جاننے والوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہ انہیں فنڈ ملتا ہے نہ اختیارات سونپے جاتے ہیں، بس وہ اپنے دفتروں میں بیٹھے مکھیاں مارنے کا کام کرتے ہیں۔بر منگھم کے چوہدری عبدالغفار پاکستان کے اگلے الیکشنوں میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تارکین وطن پاکستان کی سیاست میں آکر حصہ لیں، کامیابی کے جھنڈے گاڑیں اور یہاں کے گلے سڑے بدبودار نظام کو بدلنے کی کوشش کریں۔ عبدالغفار کہتے ہیں کہ پاکستان کے گلی کوچوں اور نالوں سے ہی بدبو نہیں آتی بلکہ اقتدار کے اونچے ایوان بھی بدبودار ہیں، ملک کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ دیمک چاٹ چکی ہے اور ایک کھوکھلا فرسودہ نظام پاکستان کی بنیادوں کو لرزہ براندام کر رہا ہے۔ انگریز اپنے ترکے میں جس پٹواری اور تھانہ منشی کا نظام چھوڑ گیا تھا، اسے آج چوہتر برس بعد بھی ہم نے گلے سے لگایا ہوا ہے، ہم تھانہ کلچر اور پٹواری کلچر کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نت نئے مافیاز نے سر اٹھا لیا ہے۔ کہیں کلاشنکوف کلچر پھنکار رہا ہے، کہیں ہیروئن مافیا بدمست ہاتھی بنا ہوا ہے، کہیں منی لانڈرنگ مافیا قومی خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے
چوہدری عبدالغفار کہتے ہیں کہ کوئی ہم سے پوچھے کہ پاکستانی سیاست دانوں، بیوروکریٹوں، صنعت کاروں اور میڈیا پرسنز نے بیرون ملک کتنی جائیدادیں کھڑی کرلی ہیں۔
عبدالغفار صاحب کہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے پارلیمانی نظام کا حصہ بنیں گے، اقتدار میں شریک ہوں گے تو وہ یقینی طور یورپ اور امریکہ کی طرح ایک منظم سسٹم کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے، ایسا سسٹم جس پر عوام آنکھیں بند کرکے اعتماد کر سکیں۔
میں نے چوہدری عبدالغفار سے پوچھا، آپ فوری طور پر پاکستان میں کون سی اصلاحات تجویز کرتے ہیں۔ انہوں نے بر جستہ کہا کہ سب سے پہلے تو شفاف اور غیرجانبدارانہ بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں اور ان بلدیاتی اداروں کو وہ تمام اختیارات دئیے جائیں جو یورپ اور امریکہ کے بلدیاتی اداروں کو حاصل ہیں۔ بلدیاتی اداروں کا ناظم اور کونسلر عوام کی پہنچ میں ہوتا ہے اور وہ شہر کے چوک میں کھڑے ہوکر اس کا احتساب کر سکتے ہیں، ایسی صورتحال میں کوئی بھی کونسلر اور ناظم غیراصولی، غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گا کہ اسے عوام کے اندر رہنا ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں ارکان اسمبلی عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر اپنا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے پوش علاقوں میں ڈیرے جمالیتے ہیں۔ ان کی لینڈ کروزروں کے آگے پیچھے مسلح گاڑیوںکے جتھے ہوتے ہیں جو عوام اور ارکان اسمبلی کے درمیان دیوار بن جاتے ہیں۔
چوہدری عبدالغفار نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور یورپ کے ارکان پارلیمنٹ ملکی پالیسیاں بناتے ہیں، قانون سازی میں مصروف رہتے ہیں جبکہ پاکستان کے منتخب ارکان اپنے لیے خصوصی فنڈ کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ روایت پوری دنیا میں موجود نہیں ہے جو صرف پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس بنا پر عوام کے دکھ درد کا درماں کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس طریقہ کار نے پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ حکومت کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے اور اپوزیشن صرف شور شرابہ کی حد تک محدود ہے جبکہ اسے متبادل پالیسیاں تشکیل دینی چاہئیں اور حکومت جہاں ناکام دکھائی دے وہاں اپوزیشن اس کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ نکالے۔
پہلے مرغی یا انڈا والی بحث کی طرح اس بحث کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ پہلے حکومت کو اوپر سے ٹھیک کیا جائے یا نیچے سے۔ چوہدری عبدالغفار صاحب کہتے ہیں کہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہئیں، حکومت اپنے فرائض پہچانے اور بلدیاتی ادارے عوام کی خدمت کے لیے جتن کرے۔ اس سلسلے میں کوئی تاخیر نہ کی جائے اور جیسے ہی نئے بلدیاتی الیکشن ہوں انہیں مقامی حکومتوں کا درجہ دیا جائے اور خودمختار کیا جائے۔
جنرل الیکشنز کے انعقاد میں بھی کوئی زیادہ وقت نہیں رہا، اس میں حصہ لینے والوں پر واضح کردیا جائے کہ وہ اسے دولت کا کھیل نہ بنائیں، اس وقت ایم پی اے، ایم این اے کو الیکشن مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جسے پورا کرنے کیلئے پھر وہ حکومتی خزانے کی لوٹ مار کرکے اپنی جیب بھرتا ہے۔ اس طرح کرپشن کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس عادت سے چھٹکارا پانا چاہئے اور اپنے ارکان پالیمنٹ کو قانون سازی تک محدود کر دینا چاہئے۔ حکومتی مشینری میں ارکان پارلیمنٹ کا عمل دخل بڑھ رہا ہے، من مرضی کی ٹرانسفریں کرائی جا رہی ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے۔
چوہدری عبدالغفار کہتے ہیں کہ وہ ایک صاف ستھری سیاست کو رائج کرنے کے لیے پاکستان کے انتخابی دنگل میں کودنا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی اور انتظامی اصلاحات کے لیے بھی آواز اٹھائیں گے اور بلدیاتی اداروں کو بھی خودمختار بنانے پر زور دیں گے۔
پاکستان میں یہی نظام حضرت قائداعظم کے پیش نظر تھا اور اب اس کے احیاء کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی ہے، ہمیں ملک کو داخلی طور پر مستحکم کرنا ہوگا اور خارجہ محاذ پر پاکستان کے وقار کو سربلند کرنا ہوگا تاکہ قائداعظم کی روح کو چین نصیب ہوسکے ۔