بھارت نے بچوں کا عالمی دن منایا، ہم نے ایک بچے کا گلا گھونٹ کر یہ دن منایا، بھارت نے کنٹرول لائن پر سیدھا فائر کر کے چار بچوں کو شہید کیا۔اسی روز بھارتی افواج نے ایک کشمیری کو بھی شہید کر دیا۔
بندوق سے نکلنے والی گولی کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کانشانہ کون ہے مگر ٹریگر دبانے والے کو ضرور پتہ ہوتا ہے کہ اس کی گولی کانشانہ کون بنے گا۔ الا یہ کہ جب اندھا دھند فائر نہ داغا جا رہا ہو لیکن شست لے کر ٹریگر دبایا جائے اور ایسی گولی نشانے کو مس نہیں کرتی،ایسی ہی چار گولیوں نے کنٹرول لائن پر معصومانہ طور پر کھیلتے چار بچوں کے جسموں کو چھید ڈالا۔کشمیری پچھلے انسٹھ برس سے لہو لہان ہو رہے ہیں۔ دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے کشمیر میں انتفاضہ شروع ہوا تو اس میں ایک لاکھ کشمیریوں کی نئی قبریں بنیں۔ہم کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے پندرہ برس میں ایک لاکھ جانوں کی قربانی دی، میں کہتا ہوں کہ اگر ہم کشمیریوں کی خاطرجنگ لڑتے تو کشمیر اور پاکستان کے دو لاکھ لوگوں کی ہر گز جانیں نہ جاتیں اور یہ جو دو لاکھ لوگ شہیدہوئے ہیں، ان کی قربانی کا حاصل کیا تھا، مجھے تو کچھ نظر نہیں آتا۔اڑتالیس ، پینسٹھ، اکہتر ، سیاچین اور کارگل کی جنگوں میں اس قدر جانیں نہیں گئیں مگر ان میں ہم نے اتنا تو کیا کہ آزاد کشمیر کا خطہ حاصل کیاا ور سیاچین میں بھارتی فوج کے بڑھتے قدموں کو بریک لگا دی۔ مگر کشمیری انتفاضہ ا ور دہشت گردی کی جنگ میں دو لاکھ انسان جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، حاصل کیا ہوا، کیلکولیٹر پکڑیں اور ذرا حساب لگاکر مجھے بھی مطلع فرمائیں۔
مجھے شک پڑتا ہے، شک نہیں مجھے یقین ہو چکا ہے کہ ہم کشمیر کا برائے نام ہی نام لیتے ہیں،ہم کشمیر کی واپسی کے لئے مخلص نہیں ، ہم نے قائداعظم کے اس قول کو پس پشت دھکیل دیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، بھارت نے ہمارے دریاؤں کا پانی لحظہ بہ لحظہ بند کر دیا، ہم گھگو گھوڑے بنے رہے، ہاتھ پہ ہاتھ باندھ کر تماش بینی کرتے رہے۔ اور آج قحط سالی کا شکار ہیں، شکائت کرتے ہیں اور روناروتے ہیں کہ ہماری زمینیں بنجر ہو گئی ہیں۔ہم نے گلے پھاڑ کر نعرے لگائے کہ کشمیر بنے گا پاکستان ، کشمیر ی ڈر گئے کہ وہ پاکستان کا حصہ بن گئے تو ان کا حشر بھی وہی ہو گا، جو بلوچوں، سندھیوں، پختونوں، پٹھانوں اور جنوبی پنجاب والوں کا ہو رہا ہے، اور سری نگر ، شوپیاں، پہلگام اوربڈگام میں ڈی ایچ اے اگنے لگیں گے ، پاکستانی حکمران صوابدیدی اختیارات کے تحت ڈل جھیل کے کنارے اپنے پیاروں کوپلاٹ الاٹ کر دیں گے۔پاکستان کا پانامہ زدہ طبقہ کشمیر کے طول وعرض میں فارم ہاؤس تعمیر کرے گا، اور کشمیری وہی صدیوں کی طرح بھوکی ،لاغر ،بھیڑیں چرانے پر مجبور رہیں گے۔
ہم کشمیر سے مخلص کیوں نہیں ہیں، میں اس راز سے پردہ نہیں اٹھا سکتا، ہمارا ایٹمی ڈیٹرنس بھی کشمیریوں کو بھارتی فوج کی قتل و غارت ا ور اجتماعی عصمت دری سے نہیں بچا سکا۔ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بسنے والے پاکستانی ا ور آزاد کشمیر کے دیہات کے باشندے مسلسل بھارتی توپوں اور مشین گنوں سے چھلنی کئے جاتے رہیں گے۔
دنیا کی کسی ا ور ایٹمی طاقت کو ایسی بدحالی اور بے بسی کاسامنا نہیں کرنا پڑا، پاکستان ا س قدر لاغرکیسے ہو گیا، ہو گیا یا کر دیا گیا، کس نے کیا، غیروں نے کیا یا اپنوں نے کیا، باہر سے کیا گیا یا اندر سے کسی نے کیا۔یا ہم بے حوصلہ ہیں، ابکے مار، ابلے بار، ابکے مار کی ہی گردان کر سکتے ہیں اور مسلسل مار بھی کھاتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک وجہ میری سمجھ میں آتی ہے ہوا یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی توسیع کے بارے میں یاا ن کے جانشین کے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے دشمن نے فائدہ اٹھایا ، پاکستان پر جو حالیہ سختی آئی ہے، وہ پچھلے ایک دو ماہ سے ہے،یہی وہ وقت تھا جب جنرل راحیل کی توسیع یا ان کے جانشین کا فیصلہ ہو جانا چاہیے تھا تاکہ دشمن کو ہماری گو مگو کی کیفیت کافائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملتا، یہ موقع ہم نے سونے کی طشتری میں رکھ کر دشمن کو پیش کیا۔ہم اگر فیصلے کی صلاحیت سے محروم ہیں تو دشمن اس صلاحیت سے پوری طرح لیس ہے اور اس کا جیسے دل چاہتا ہے، ہماری پٹائی کرر ہا ہے۔اگر کسی وقت وہ نہیں مارتاتو یہ اس کی مہربانی ہے۔اس کیلئے ہمیں ا س کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
بہر حال ہمیں ایک بار یہ حتمی فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم کشمیر کی واپسی چاہتے ہیں یا نہیں ، طاقت کے ذریعے چاہتے ہیں یا چکنی چپڑی منافقانہ باتوں سے۔اقوام متحدہ ہمارے لئے سود مند ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں۔نہیں ہو سکتی تو کیا ہم کشمیرا ور کشمیریوں کوہمیشہ کے لئے بھول جائیں۔
بھارت میں مودی ہم سے نہیں سنبھالا جاتا، اب امریکہ میں اس سے دو ہاتھ آگے ٹرمپ آ گیا ہے، ایسے لوگ قدرت کی طرف سے عذاب کے طور پر مسلط کئے گئے ہیں تاکہ ہمارے ہوش ٹھکانے آ جائیں ، یا تو ہم غیرت مند بنیں یا بے حمیتی کو ہمیشہ کے لئے شعار بنا لیں، اور غلامی کا طوق گلے کا ہار بنا لیں، مگر کیا طوق غلامی پہننے سے ہمیں عافیت نصیب ہو سکے گی، میرا خیال ہے کہ نہیں، یہ دور نئی صلیبی جنگوں کا ہے، دشمن اس جنگ کو تیز تر کئے چلے جا رہا ہے، وہ فلسطین کو،عراق کو، لیبیا کو، سوڈان کو ، یمن کو،افغانستان کو تہس نہس کر چکا ہے، شام کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے، سعودی عرب سے چھیڑ چھاڑ شروع ہے ا ور پاکستان کا بے تحاشہ خون بہایا جا چکا ہے، اس قدر خون بہہ جانے کے بعد ہمارے اندر مزاحمت کی کوئی سکت ہے یا نہیں، اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کسی افلاطون سے مشورہ ضروری نہیں رہا۔ہم نے فاٹا میں دہشت گردی کوکچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بلوچستان میں بھی امن قائم کر نے کا دعوی کیا، کراچی میں بھی آپریشن جاری ہے مگر عام شہری کو امن دور دور تک نظر نہیں آتا، مستقبل کی بے یقینی نے اس کی روح کوگھائل کر دیا ہے۔
ہم سب آرمی پبلک اسکول کے معصوموں کی شہادت پر دکھی ہوئے تھے، مگر چار کشمیری بچوں کی شہادت پر ہماری آنکھیں نہیں بھیگیں۔بھارت نے تو شقاوت کا ثبوت دیا اور بچوں کے عالمی دن پر چار معصوم پھولوں کا خون کیامگر کیاہم اے پی ایس اور کشمیری بچوں میں فرق کرتے ہیں، کیا کشمیریوں کے بچے بچے نہیں ہیں۔ ان کی شہادت پر بھارت کی مذمت کریں یا اپنی بے حسی کا ماتم کریں ۔
میں اپنی قسمت کا نوحہ ا س وقت لکھ رہا ہوں جب جنرل راحیل شریف نے ا لوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ باقی آپ سمجھ لیجئے کہ کیوں نوحہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ میرے قلم پر تالے پڑیں ہیں۔