خبرنامہ

بچوں کے جینے کا مزا ، جینا فائونڈیشن کے سنگ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بچوں کے جینے کا مزا ، جینا فائونڈیشن کے سنگ…اسد اللہ غالب

اس تصور کا چشمہ برطانیہ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں سے پھوٹا۔ڈاکٹر آفتاب صدیقی کا شمار ملک کے ممتاز غذائی معالجین میں ہوتا ہے۔وہ گولڈ شیف کے نام سے ایک دوا ساز فیکٹری بھی چلا رہے ہیں ،یہ ایک برطانوی کمپنی ہے،جس کے ساتھ انہوں نے اشتراک کار کیا ہے۔2004 کی بات ہے وہ برطانیہ میں اپنے عزیزوں سے ملنے گئے،ان کا دو ہفتے قیام کا ارادہ تھا۔ایک روز ان کے میزبانوں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آج بچوں کے سکول چلیں، وہاں والدین کی ایک میٹنگ ہے۔انہوں نے سوچاکہ شاید بچوں کے تعلیمی معاملات زیر بحث آئیں گے مگر جب وہ سکول پہنچے تو انہوں نے وہاں ایک میڈیکل کیمپ لگا دیکھا جس میں دو ماہر غذایات،ایک میڈیکل ڈاکٹر اور اور ماہر نفسیات باری باری بچوں کا معائنہ کر رہے تھے۔یہ سلسلہ چار گھنٹے تک محیط رہا اور اس دوران دوسو بچوں کا معائنہ کیا گیا۔سب سے پہلے ایک نرس بچے کا قد اور وزن ماپتی جس سے پتہ چلتا کہ بچہ اپنی عمر کے حساب سے کمزور ہے یا موٹاپے کا شکار ہے اور کیا اس کا قد اسکی عمر کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔غذایات کے ماہرین بچے کے ناشتے، دوپہر اور شام کے کھانے کے بارے میں معلوم کرتے۔میڈیکل ڈاکٹرانکے ناک، کان، گلے،پھیپھڑوں، سانس اورخوراک کی نالی کا معائنہ کرتے۔ بچے سے یہ بھی معلوم کرتے کہ اسے قبض کی شکایت تو نہیں ہے،بچے کی نظر بھی چیک کی جاتی۔بچے کو لاحق جسمانی تکالیف کے پیش نظر اسے ایک غذائی چارٹ فراہم کیا جاتاتاکہ اسکے ذریعے ان کی جسمانی نشوونما میں مدد مل سکے۔ڈاکٹر آفتاب صدیقی یہ سارا منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ یہاں کوئی فضائی آلودگی نہیں ہوتی،غذا میں ملاوٹ نہیں ہوتی،پانی میں کوئی غلاظت نہیں ملی ہوتی جس کی وجہ سے بچوں کی صحت خراب ہوسکتی ہو لیکن اسکے باوجود ان بچوں کی حفظان صحت کے سلسلے میں اس قدر کاوش کی جارہی تھی۔ ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے امریکہ کا سفر کیا تو وہاں بھی انہوں نے یہی منظر دیکھا۔انہیں بتایا گیا کہ یہ سارا کام این جی اوز کے ذریعے کیا جارہا ہے،جسے حکومت کی مکمل سر پرستی حاصل ہے اور سکولز کی انتطامیہ بھی ان سے مکمل تعاون کرتی ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کر ڈاکٹر آفتاب صدیقی کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ وہ بھی اپنے ملک میں اس کام کا آغاز کریں۔ پاکستان میں اس کام کی اشد ضرورت تھی کیونکہ ہمارے ہاںبچے گوناگوں بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر دوسرا بچہ گلے اور سانس کی بیماریوں میںمبتلا ہے۔والدین بچوں کو مناسب ناشتہ کروائے بغیر سکول بھیج دیتے ہیں،بچہ ایک سو ایک بخار میں تپ بھی رہا ہو، والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ سکول جائے ورنہ غیر حاضری کی صورت میں وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے محروم ہوجائیگا۔عام طور پر بچوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے اور انہیں بلیک بورڈ بھی نظر نہیں آتا،اکثر والدین بچوں کو دوپہر کا کھانا بھی نہیں دیتے اور ان کے ہاتھ میں سو پچاس روپے تھما دیتے ہیں جن سے وہ سکول کینٹین سے گندی ٹافیاں، تیز مصالحے دار چپس اور ٹھنڈی یخ آئس کریم کھا کر معدے اور انٹریوں کی سوزش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔بچوںکے بیڈ روم میں عدم صفائی کی وجہ سے جلد کی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں۔آلودہ پانی پینے کی وجہ سے وہ ہیپاٹائٹس کروا بیٹھتے ہیں۔بچوں میں پھیلنے والے کئی امرض متعدی ہوتے ہیں۔ نزلہ،زکام ، خارش اور خسرہ ایک سے دوسرے بچے کو لگ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر ان امراض کی برقت تشخیص ہوجائے تو کئی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے اور بچوں کی قیمتی جانیں محفوظ کی جاسکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں ہمارے بچے موذی امراض کا شکار ہوکر لاکھوں کی تعداد میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے برطانیہ اور امریکہ کی این جی اوز کی مثال کو پیش نظر رکھ کر جینا فائونڈیشن قائم کی اور مختلف سرکاری اور نجی سکولوں میں کیمپ لگانے شروع کیے، ان کا ارادہ تھا کہ وہ سرکاری سکولوں کے بچوں کا مفت معائنہ کرینگے جبکہ نجی سکولوں کے بچوں سے پچاس روپے فیس وصول کرکے انہیں جینا فائونڈیشن کا کارڈ جاری کرینگے۔اسے دکھا کر وہ محلے کے کسی ڈاکٹر یا ہسپتا ل کے سپیشلسٹ سے مفت معائنہ کروا سکیں گے۔ ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکول مافیا نے انکے پروگرام کو چلنے نہیں دیا، سکول والوں کا کہنا تھا کہ آپ والدین سے ڈائریکٹ پچاس روپے نہ لیں،یہ رقم ہم آپ کو ادا کریںگے اور والدین سے اسکے بدلے پانچ سوروپے وصول کریں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سکول والے والدین سے تو پیسے وصول کرتے رہے لیکن مجھے ایک روپیہ بھی نہ دیا ۔ مالی مشکلات کی وجہ سے میرا پروگرام تعطل کا شکار ہوکر رہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو حفظان صحت کے اصولوںپر عمل کیا جاتا ہے نہ اپنے بچوں کا باقاعدگی سے طبی معائنہ کرانے کا شوق ہوتا ہے،جس کی وجہ سے بچوں کی اکثریت بڑی تیزی سے موذی امراض کا شکار ہورہی ہے۔ڈاکٹر صاحب کا کہناہے کہ اگر لوگوں کا شعور بیدار ہوجائے اور سکول مافیا رکاوٹ نہ بنے تو لاکھوں بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرآفتاب صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ جینا فائونڈیشن کو برطانیہ اور امریکہ کی فائونڈیشنزپر ایک فوقیت یہ بھی حاصل ہے کہ ہم صرف بچوں کا طبی معائنہ ہی نہیں کرتے اور والدین کے ہاتھ میں غذائی چارٹ دے کر بری الذمہ نہیں ہوجاتے بلکہ اپنے کارخانے میں بننے والی ادویات مفت فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب نے کہا ہے کہ میں میڈیا سے درخواست کرتا ہوں کہ والدین میں میرا پیغام عام کریں تاکہ مرض بگڑنے سے پہلے بچوں کا علاج ہوسکے۔میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا مقصد نیک ہے اور وہ معاشرے کی خدمت کا ولولہ رکھتے ہیں، کاش کوئی ان سے رجوع کر کے دیکھے اور ان کی طرف دست تعاون بڑھائے۔جینافائونڈیشن بہرحال آپکے بچوں کو صحت مند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔آپ اسے آزما کرتو دیکھیں،اس کی حوصلہ افزائی تو کریں