بڑی سی ’’اگر‘‘…اعزاز سید
30 مئی کی دوپہر اسلام آباد پولیس کے ایک سینئر افسر سے فون پر بات ہورہی تھی۔ پوچھا نئی تازی کیا ہے؟ جواب آیا کہ ہمیں سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بارے میں الرٹ رہنے کا کہا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی ایک کرنٹ میرے جسم میں دوڑا اور میں پارلیمنٹ ہائوس سے سیدھا اسلام آباد ہائیکورٹ میں جا پہنچا۔ دراصل عین اسی وقت سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں ہائیکورٹ میں جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت جاری تھی۔ ایک روز قبل ہی انہیں صرف ایک دن کی ضمانت دی گئی تھی۔ آج نیب کے وکلا ضمانت کے خلاف دلائل دے رہے تھے۔ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالبعلم صحافی کے طورپر میں اس نئی پیدا ہوتی صورتحال کو براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں پہنچا تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ عدالت کے باہر سیکورٹی غیر معمولی تھی۔ کسی نے سرگوشی کی کہ نیب کی ٹیم گرفتاری کے دو مختلف وارنٹس لے کر پہنچی ہوئی ہے۔ کمرہ عدالت میں آصف زرداری دو رکنی بینچ کے عین سامنے پہلی رو میں دیگر افراد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کی پچھلی رو میں فریال تالپور، آصفہ زرداری کے ساتھ براجمان تھیں۔ کمرے میں موجود تمام لوگ عدالتی کارروائی سننے میں محو تھے۔ حیران کن طورپر آصف زرداری مجھے مطمئن نظر آرہے تھے۔ ججز اور وکلا کے مکالمے سے لگ رہا تھا کہ گرفتاری کا اعلان ہی باقی ہے مگر آخری 40سیکنڈ میں ججز نے نیب کے وکیل اور تفتیشی افسران سے سوال جواب کیا تو سارا کھیل ہی پلٹ گیا۔ عدالت نے نیب کو 10جون کو دوبارہ تیاری کرکے آنے کی ہدایت کی تو آصف زرداری مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھے اور سیکورٹی اہلکاروں کے حصار میں اپنی بہن اور بیٹی کے ہمراہ کمرہ عدالت سے باہر نکل گئے۔
صحافی نجومی نہیں ہوتا مگر پھر بھی پیشن گوئیاں کرتا پھرتا ہے۔ علم کسی کی میراث ہے نہ عقل پر کسی کا پہرہ، خدا جس پر مہربان ہوجائے وہ بھی آج کی دنیا میں بیٹھ کر کل کا نقشہ کھینچ لیتا ہے۔ صحافی ہی نہیں اگر کوئی بھی شخص حالات کے مقابل کھڑے کرداروں کا وزن اوران کی استعداد کی پیمائش جانتا ہو، واقعات کی درست جمع تفریق سے آشنا ہو اور ان سب کی ضرب تقسیم سے صحیح نتائج اخذ کرنے کا ملکہ رکھتا ہوتو مستقبل اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے ۔ ہاں ان خصوصیات کے حامل لوگ ذرا کم ہیں۔
اوپر ذکر کی گئی خوبیاں میرے پاس ہیں نہ گیان۔ البتہ ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنے کی سعی ضرورکرتا ہوں جن پر علم، عقل اور طاقت کی دیویاں مہربان ہوں۔ ایسے ہی لوگوں سے گفتگو کی روشنی میں ذرا مستقبل کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کررہا ہوں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آصف زرداری کو کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی آصف علی زرداری کو جیل بھیجنے کی شدید خواہش ہے۔ نیب نے جعلی اکائونٹس کیس کی تفتیش بھی کرلی ہے اور اس وقت اسی کیس سے جڑے کم وبیش مختلف مقدمات میں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے گرفتاری کے وارنٹس پر دستخط بھی کررکھے ہیں۔ نیب راولپنڈی کے دفتر میں ایک وی آئی پی حوالاتی کے لیے خصوصی کمرہ بھی تیار کرلیا گیا ہے جس میں ڈبل بیڈ، ائیرکنڈیشنڈ، صوفہ سیٹ اور ایل ای ڈی کی سہولیات دی گئی ہیں۔ کمرے میں آنے جانے کے لئے دروازے پر خصوصی بائیو میٹرک سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ نیب راولپنڈی کی طرف سے عید کے بعد گرفتاریوں کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
میرے خیال میں سابق صدر زرداری کی گرفتاری سےقبل پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ اہم رہنما گرفتار کیے جائیں گے تاکہ پیپلزپارٹی کو سندھ کارڈ کھیلنے کا موقع نہ دیا جاسکے۔ اگر نیب راولپنڈی کو دیکھا جائے تو اس نے پنجاب سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کیس تیارکر رکھا ہے۔ اسی طرح نیب لاہور کے پاس مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز اوردیگر رہنمائوں کے ساتھ مسلم لیگ ق کے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کا ایک مبینہ کیس بھی تیار ہے۔ نیب اس سے قبل اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو گرفتار کرکے اسپیکر جیسے عہدے پر ہاتھ ڈالنے کی مثال بھی قائم کرچکی ہے۔ مجھے علم نہیں لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ جس دن شاہد خاقان عباسی یا حمزہ شہباز کو گرفتار کیا گیا اس کے بعد باری آصف زرداری کی ہوگی۔ آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے بعد نیب خیبرپختونخواایکشن میں آئے گی جہاں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور وزیر دفاع کا کیس بس ایک اشارے کا منتظر ہے۔ انصاف سب کے لئے کا تاثردینے کے لیے حکومتی شخصیات کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔ نرغے میں 2پرویزوں میں سے کم ازکم ایک ضرور آئے گا۔ پرویزالٰہی یا پرویز خٹک؟
دوسری طرف مولانا فضل الرحمان کی آل پارٹیز کانفرنس بھی جون کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں منعقد ہوگی۔ جہاں اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر سوچ بچار کریں گی۔ یہ شدید گرمی اور بجٹ کا موسم ہوگا۔ نشانیاں یہی بتارہی ہیں کہ بجٹ میں مہنگائی کا ایک اور طوفان عوام کا بھرکس نکال دے گا۔ جس سے کرپشن الزامات پر جیلوں میں موجود ملزمان سیاسی ہیرو بننا شروع ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں ابتدا میں اپوزیشن نومبر تک کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرپائے گی۔ نومبر تک اپنی صفوں میں اتحاد اور نئی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر صورتحال تبدیل نہ ہوئی اور الٹا وزیراعظم نے غرانا شروع کردیا تو پورا سسٹم لپیٹے جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ لیکن اگر صورتحال تبدیل ہوئی تو اپوزیشن جماعتیں اپنا وار شروع کردیں گی۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو ایسے ہی احتجاجی دھرنوں کا سامنا کرنا پڑیگا جو کسی زمانے میں وہ خود کیا کرتے تھے۔ حکمران جماعت میں موجود موسمی پرندے حالات بدلتے ہی اڑنا شروع کردیں گے۔
اپوزیشن کے اندر بھی اقتدار کا ایک الگ کھیل چل رہا ہوگا۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ چل رہی ہوں گی مگر خود کو قابل قبول بنانے کے لیے خاموشی سے تگ و دو بھی کریں گی۔ اگر کھیل کے اصل کھلاڑی مداخلت بند کردیں اور اگر وزیراعظم عمران خان کی حکومت بہتر کارکردگی دکھانا شروع کردے تو کچھ بھی بھیانک نہیں ہوگا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس فقرے میں موجود ’’اگر‘‘بہت بڑاہے۔