بھارت صرف کالا باغ ڈیم ہی کا نہیں، پاکستان میں ہر ڈیم کا مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پاکستان ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہا ہے، جس کامطلب یہ ہے کہ اسے اس پانی کی ضرورت نہیں۔
دوسری طرف بھارت کہتا ہے کہ اس کے عوام کو پانی کی اشد ضرورت ہے، مشرقی پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے لوگ پانی کو ترس رہے ہیں، اس لئے بھارت، پاکستان کے حصے کے دریاﺅں پر بند باندھ کر یا ان کا رخ موڑ کر اپنے لوگوں کو پانی مہیا کرے گا۔
پاکستان کے ڈیموںکی مخالفت کی ایک وجہ بھارت یہ بیان کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کو بہر صورت نعوذ بااللہ مٹانا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کے لوگوں کو پانی کی بوند بوند کے لئے ترسانا چاہتا ہے، وہ پاکستان کے لوگوں کو پیاسا مارنا چاہتا ہے اور یوں پاکستان کو قبرستان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
بھارت ان مذموم عزائم کو پروان چڑھانے کے لئے دن رات کوشاں ہے اور ہم ہاتھ پہ پاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور اگر ہماری حکومت یا اب چیف جسٹس کسی ڈیم کی تعمیر کا اعلان کرتے ہیں تو ہم بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ان ڈیموں کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیموں کے مخالفین پر آئین کی دفعہ چھ کے تحت غداری کے مقدمے چلائے جائیں، اس پر ایک ہا ہا کار مچ گئی ہے اور ہمارے ٹی وی اینکر ان لوگوں کو سامنے بٹھا کر شورو غوغا برپا کر رہے ہیں کہ ڈیم کی مخالفت غداری کیسے ہو گئی۔ ایک صاحب ہیں چانڈیو، وہ بھی دھمکا رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں تین اسمبلیاں قرارداد منظور کر چکی ہیں، اس لئے اسے نہ چھیڑا جائے ورنہ باقی ڈیم بھی متنازعہ ہو جائیں گے۔
ڈیم کی مخالفت غداری یوں ہوئی کہ جس چیز کی مخالفت بھارت کرتا ہے، ہم میں سے جو بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملائے گا تو وہ غداری ہی کا راتکاب تو کرے گا، کیا یہ حب الوطنی کہلائے گی کہ بھارت کی آواز میں آواز ملائی جائے۔ رہی تین اسمبلیوں کی قراداد تو یہ اسمبلیاں تو صوبائی ہیں، قومی اسمبلی اور سنیٹ نے درجنوں قراردادیںمنظور کر رکھی ہیں جن کو کسی نے آج تک گھاس نہیں ڈالی۔ اسلئے نہیں ڈالی کہ یہ قراردادیں بائنڈنگ نہیں ہوتیں یعنی ان پر عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا، بھارت توکہتا ہے کہ سلامتی کونسل نے کشمیر میں استصواب کی جو قرارداد منظور کر رکھی ہے وہ بائنڈنگ نہیں، اسی لئے اس نے اس پر اکہتر برس گزرنے کے باوجود عمل نہیں کیا۔ کالا باغ ڈیم کے پاکستانی برانڈ مخالفیں کبھی اس سوال کا جواب تو دیں کہ بھارت نے کشمیر میں پاکستان کے حصے کے دونوں دریاﺅں جہلم اور چناب پر درجنوں ڈیم بنا لئے ہیں یا ان کی پلاننگ کر رکھی ہے مگر پاکستان کے یہ مخصوص لوگ بھارت پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور نہ اسے یہ دھمکی دیتے ہیں کہ کشمیر کے سارے بھارتی ڈیم صرف ان کی لاشوں پر سے گزر کر ہی بنائے جا سکتے ہیں مگر وہ پاکستان پر اسی وقت اعتراض داغ دیتے ہیںجب وہ اپنے حصے کے دریا پر کوئی ڈیم بنانے کی تیاری کرتا ہے اور دھمکیوں پر اترا آتا ہے۔ باچا خان نے دھمکی دی تھی کہ کالا باغ ڈیم بنا تو اسے بم مار کر اڑا دیا جائے گا۔ ان کے بیٹے ولی خاں نے دھمکی دی تھی کہ کالا باغ ڈیم کو بلا ٹکٹ بحیرہ عرب پہنچا دیا جائے گا۔ اب یہ ڈیوٹی خورشید شاہ اور چانڈیو نے سنبھال لی ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ پہلے وہ بھارت کے مقابل تو تن کر کھڑے ہو کر دکھائیں جو چناب اور جہلم کا رخ اپنے مشرقی پنجاب کی طرف موڑ کر اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے کہ بوند بوند کو ترسے گا۔ پاکستان، پیاسا مرے گا پاکستان، قبرستان بنے گا پاکستان۔
تین اسمبلیوں کی قراردادوں کی دھمکی دینے والے ذرا وہ وقت یاد کریں جب ساری دنیا کے حکمران بھٹو کی سزائے موت منسوخ کرنے کی اپیلیں کر رہے تھے مگر ضیاءالحق نے کسی کی نہیں سنی۔ نہ تو دنیا ضیاءالحق کاکچھ بگاڑ سکی اور نہ کوئی لاشیں گریں۔ یہ لوگ تو اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے مقدمے کی تفتیش بھی آگے نہ بڑھا سکے اور جس پارٹی کو قاتل لیگ کہا گیا اور جس کے سربراہ پرویز الہی کو محترمہ نے اپنی ای میل میں قاتل نامزد کیا تھا، اسے ڈپٹی وزیراعظم بنا لیا گیا۔
ریاست کو دھمکیاں دینا تو آسان ہے مگر ان پر عمل درآمد اکثر مشکل ثابت ہو جاتا ہے، الطاف حسین نے کراچی کے لوگوں کو زیور بیچ کر اسلحہ خریدنے کو کہا، بھارتی را سے مدد بھی مانگ لی مگر رینجرز نے یلغار کی، کوئی ان کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکا اور اب اس پارٹی کی باقیات کا لیڈر پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لے مچل رہا ہے۔ دھمکیاں تو لال مسجد، سوات اور فاٹا کے انتہا پسندوںنے بھی بے شمار دیں لیکن ریاست پاکستان کا وہ بال بیکا نہ کر سکے، ان کا اپنا وجود اب تلاش کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
میں نے ہفتہ کے روز اپنے کالم میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ ایک عمر رسیدہ قاری کی طرف سے سوال اٹھایا تھا کہ ضیاءالحق اور مشرف بڑے بڑے خطرات سے نہیں ڈرے مگر کالاباغ ڈیم بنانے پر آئے تو ان کی گھگی بندھ گئی، وہ کس سے ڈر گئے۔کیا یہ ڈرانے والے اتنے ہی طاقتور اور خوفناک ہیں کہ ان سے ڈرنے میں ہی عافیت ہے۔ آفرین ہے چیف جسٹس کی کہ انہوںنے انصاف سے کام لیتے ہوئے کہا کہ وہ کالا باغ ڈیم بھی بنائیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔ مگر چیف جسٹس خاطر جمع رکھیں جو لوگ بلوچستان میں، تھر میں، جنوبی پنجاب میں، بہاولنگر میں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور بھارت کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں، وہ جناب چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کراچی میں وزیراعظم نے بھی نئے ڈیموں کا مقدمہ خوب لڑا اور قوم کو بتایا کہ بھارت پانچ ہزار ڈیم بنا چکا ہے اور چین چوراسی ہزار ڈیم، دونوں ملک ہمارے ساتھ آزاد ہوئے مگر پاکستان صرف دو ڈیموں پر گزارا کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دو ڈیم بنے تو بجلی سستی ملی اور ملک میں صنعتی انقلاب آیا اور جنوبی کوریا، ملیشیا اور سنگاپور ہمارے ترقی کے ماڈل کی کاپی کرنے لگے۔ مگر پھر ہم لمبی تان کر سو گئے اور تھرمل بجلی گھروں کی طرف چلے گئے جن سے بجلی مہنگی ملی۔ اب ایک تو سستی بجلی کے لئے اور دوسرے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ہمیں نئے ڈیم بنانے پڑیں گے، وزیر اعظم نے صرف بھاشہ اور مہمند ڈیم کا نام لیا اور کالا باغ کا نہیں لیا۔ شاید کراچی میں وہ اس کا نام لینے سے ڈر گئے مگر جو دو ڈیم وہ بنانے کے حق میں ہیں، ان کے سلسلے میں بھی انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ یہ ڈیم حکومت نہیں بنا سکتی۔ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وزیراعظم کو بتانا چاہئے کہ حکومت کے پاس کس کام کے پیسے ہیں اور وہ بتائیں کو وہ کونسا ملک ہے جو چندہ خوری پر چلتا ہے، میں نے لکھا تھا کہ ریاست نبوی میں فنڈ ریزنگ کی جاتی تھی مگر اس میں پیارے نبیﷺ کے معتمد ترین ساتھی سیدنا صدیق اکبر ؓ گھر کا سارا سامان لا ڈھیر کرتے تھے، اب عمران خان پہلے تو اپنی بنی گالہ کی جائیداد ڈیم کے لئے ہبہ کریں۔ پھر ان کے امیر ترین ساتھی علیم خان، چودھری سرور، جہانگیر ترین اور اعظم سواتی سب کچھ لا کر وزیراعظم کے قدموں میں ڈھیر کر دیں تو قوم بھی جذبوں کا مظاہرہ کرے گی۔ موجودہ حالات میں ڈیموں کا منصوبہ صرف چیف جسٹس کا برین چائلڈ ہے جسے وزیراعظم اچکنا چاہتے ہیں، ایسا نہیں ہو سکے گا بھئی۔ لوگ چیف جسٹس کی اپیل پر مثبت رد عمل کا اظہار کرتے رہیں گے۔ میں حامد میر کا پہلے ہی معترف تھا لیکن جب سے انہوں نے ڈیم فنڈ کے لئے اپنے آپ کو مختص کیا ہے اور پہلے تو اپنی جیب سے دس لاکھ کا چندہ دیا ہے، پھر اپنے ادارے کے دو ڈائریکٹروں سے دس دس کروڑ چندہ دلوایا ہے اور ان کے ٹی وی پر اعلان ہوتا ہے کہ جو لوگ چندہ دیں وہ انہیں بتائیں۔ ان کے نام حوصلہ افزائی کے لئے نشر کئے جائیں گے اور تاریخ میں ان کا ذکر سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ میری گزارش باقی اینکروں سے بھی یہ ہے کہ وہ بھی حامد میر کے سے جذبے کی تقلید کریں اور اپنے پروگراموں کو بیلنس کرنے کے بجائے پاکستان کے مفاد کے لئے وقف کریں، چیف جسٹس نے اب کالا باغ ڈیم کا نام لے ہی لیا ہے تو وہ اپنے چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں اور کالا باغ ڈیم کے معترضین کے دانت کھٹے کر دیں، مگر دلائل کے ساتھ، ٹیکنیکل وجوہات کی بنیاد پر اور بھار ت کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے اور آنے والی نسلوں کی خوش حالی اور ترقی کے لئے۔ بھارت کا میڈیا اپنی ریاست کا ساتھ دیتا ہے تو کیا ہمارے میڈیا کو پاکستان کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ بالکل دینا چاہئے، اور کالاباغ ڈیم کے نقادوں کو دلیل سے چپ کرانا چاہئے اور عمران کے صاف انکار کے بعد ان ڈیموں کے لئے چیف جسٹس کی فنڈ ریزنگ مہم کو اولین ترجیح بنا لینا چاہئے۔ اس سے پہلے زلزلہ کی قیامت آئی اور سیلاب نے تباہی مچائی تو یہ میڈیا ہی تھا جس نے عوام کا شعور بیدار کیا تھا اورامدادی سامان سے لدے ٹرکوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔ آئیے ہم اپنی مدد آپ کریں۔ اپنے چیف جسٹس کے ہاتھ مضبوط کریں۔ کالا باغ ڈیم کے مخالفین نے ظفر محمود چیئرمین واپڈا کو کھا لیا، اب انہیں ایک چیف جسٹس پر زبان کھولنے کا موقع نہ دیا جائے۔