بھارت نے ایک دن پاکستان سے مذکرات کی حامی بھری اور نیویارک میں ششما سوراج ا ور شاہ محمود قریشی کی ملاقات پرآمادگی کا اظہار کیا۔ مگر اگلے روز ہی یہ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ بظاہر ا سکی وجہ یہ بیان کی کہ کہیں جولائی میں اس کی سیکورٹی فورسز کے دو جوانوں کی سر بریدہ لاشیںملی تھیں،بھارت نے ا سکے لئے پاکستان کومورد الزام ٹھہرایا۔ اور اس کے آرمی چیف نے دھمکی دی کہ پاکستان کو ا سکی زبان میں سبق سکھانے کا وقت ا ٓ گیا ہے اور اسے درد محسوس کروایا جائے گا۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی یو ٹرن پر تعجب کا اظہار کیاا ور اسے انتہائی افسوسناک قرار دیا کہ ایک دن بھار ت ہاں کہتا ہے اور ودسرے دن ناں کر دیتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں نے ٹویٹ میں کہا کہ چھوٹی ذہنیت کے لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں تو وہ وسیع تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتے ہیں،۔ انہوںنے بھارت کے لب ولہجے کومتکبرانہ قرار دیا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ بھارتی آرمی چیف ایک ریاستی ادارے کے سر براہ بنیں ، ایک جنونی اور انتہا پسند بی جے پی کے ترجمان بننے کی کوشش نہ فرمائیں۔یہ کام ان کے عہدے کے منافی ہے۔
ضرور پڑھیں: حسین ؑ رب کا حسین ؑسب کا:عشرہ محرم کے پرامن اختتام پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا اظہار تشکر
جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ عمران خان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں بھارت کو پیش کش کی تھی کہ وہ ہماری طرف ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے ایک خط میں عمران خاں کو وزیر اعظم منتخب ہونے ہر مبارکباد دی۔اگرچہ یہ ایک رسمی خط تھا مگر پاکستان نے ا سے بے حد اہم قرار دیا اور پاک بھارت قریبی تعلقات استوار کرنے کے لئے نیک شگون بھی قرار دیا۔اس خط کے جواب میں عمران خاں نے شکریہ ادا کیاا ورا س خواہش کا ظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات میں سلجھائو آنا چاہئے اور ممکن ہو تو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو جائے، بھارت نے اس خط کا مثبت جواب دیا اور اس ملاقات کے لئے رضامندی کاا ظہار کر دیامگر ابھی ان الفاظ کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ اس نے ایک بے سروپا الزام کی ا ٓڑ میں مجوزہ ملاقات بھی منسوخ کر دی اور بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو جلی کٹی سنا ڈالیں، جس کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان کو جواب دینا پڑا ا ور اس نے یہ کہا کہ جنگ سے وہ ملک ڈرتے ہیں جو جنگ کے لئے تیار نہ ہوں ، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ، اسے ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا مگر پاکستان امن کا خواہاں ہے اور یہ امن جنگ یا دھمکیوں کی زبان سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔
بھارت نے اپنے اندرونی خبث کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ وہ جب بھی مذاکرات کی حامی بھرتا ہے پھر کسی نہ کسی بہانے اس سے مکر جاتا ہے۔ کہہ مکرنی اس کی پرانی عادت ہے اور برصغیر کے ماحول کو کشیدہ بنانے میںبھارت نے کبھی کوئی کسر نہں چھوڑی ۔ چند برس قبل کشمیر میں ایک واقعے کی ا ٓڑ میں اس نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی اور پھر یہ اعلان بھی کر دیا کہ اس نے یہ سرجیکل اسٹرائیک کر دی ہے ا ور ا س کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ایک تربیتی کیمپ کا صفایا کر دیا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میںکسی دہشت گردا نہ کاروائی کی کیا ضرورت۔ برہان وانی پاکستان سے نہیں بھیجا گیا ۔ وہ کوئی دہشت گرد نہیںتھا، وہ کشمیر ہی کا ایک نوجوان تھا، وہیں ا سکا گھر تھا، وہیں ا س کا باپ ایک ا سکول ٹیچر تھا مگر بھارت نے جس بہیمانہ طریقے سے برہان وانی کو شہید کیا ورا سکی لاش کا تماشہ لگایا، اس سے کشمیری نوجوان بپھر گئے ا ور کشمیر کے طول و عرض میں آزادی کا ولولہ پیدا ہوا۔ نوجوان سڑکوں پر کفن پہن کر نکلتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں کیا چاہئے ، آزادی آزادی۔ بھارتی فوج ان پر سیدھے فائر کرتی ہے ، صرف پچھلے چار روز میں بھارتی قابض اور جابر فوج نے ہر رو زسات بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا ہے۔ اب جو قابض فوج ظلم کے اس قدر پہاڑ توڑ رہی ہو، اسے جواب میں گلاب کے پھول تو پیش نہیں کئے جائیں گے، کشمیریوں سے خالی ہاتھ جو بن پڑتا ہے، وہ بھی جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس جواب سے بھارتی افواج بوکھلا گئی ہیں، اس میں بغاوت پید اہو گئی ہے۔ بھارتی فوجی خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اس پر بھارتی حکومت کے حواس جواب دے گئے ہیں اور وہ پاکستان پر برس رہی ہے۔ اوپر سے اسے امریکہ کی کھلی شہہ حاصل ہے۔ ایک ہفتہ ہی تو گزرا ہے کہ امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارت کو سٹرٹیجک پارٹنر بنانے کے لئے کئی معاہدے کئے۔ بد قسمتی سے امریکہ کا عشق پاکستان سے ختم ہو گیا ہے اور وہ بھارت پر دل و جان سے فریفتہ ہے۔ امریکہ دراصل خطے میں کشیدگی بڑھا کر اپنا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے، امریکہ میں کساد بازاری کا عالم ہے۔ لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور طویل جنگوں نے امریکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے امریکہ کے پا س کوئی اورراستہ نہں کہ وہ دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکائے رکھے تاکہ اس کا اسلحہ ڈھیروں کے حساب سے فروخت ہوتا رہے۔ اس طرح امریکہ اپنے عوام کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ نکتہ بھار ت کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جنگ جویانہ ذہنیت سے وہ بھی اپنے غریب اور بھوکے عوام کے لئے مزید مسائل کھڑے کر رہا ہے۔
پاکستان چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بھارت کو ا سکی زبان میں جوب دینے کا اہل ہے، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھارت کی ایسی ہی ذہنیت کے پیش نظر کہا تھا کہ پاکستان کولڈ اسٹارٹ اور ہاٹ اسٹارٹ کے لئے تیار ہے۔ اس کے بعد بھارت میں ٹھنڈ پڑ گئی تھی مگر اب باسی کڑھی میں پھر ابال آگیا ہے۔ بھارت میں اگلے سال نئے الیکشن ہیں اور انتہا پسند اور جنونی بے جی پی کی الیکشن جیتنے کے لئے بڑھکیں مارنا ایک ضروت بن گئی ہے۔ مگر اسے محتاظ رہنا چاہئے کہ کہیں یہ دھمکیوں کا کھیل حقیقی جنگ میں نہ بدل جائے جس کے نتیجے میں بر صغیر کے ایٹم بم اس کے ڈیڑھ ارب عوام کو خاکستر بنا ڈالیں۔
بھارت کو پاکستان میںنئی حکومت کی امن پسندی کی خواہش اور آئے روز مذاکرات کی پیش کش کو اس کی کمزوری نہیں سمجھ لینا چاہئے بلکہ ا س سازگار ماحول کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے پائیدار امن کے قیام کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت یہ سنہری موقع ضائع کر رہا ہے ا ور بر صغیر کو جنگ کے الائو میں جھونکنے پر تلا ہوا ہے۔ اسے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ دنیا میں پرانے جھگڑے طے کئے جا رہے ہیں، شمالی اور جنوبی کوریا ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یورپ اپنی سرحدیںختم کر چکا ہے مگر بھارت کو اپنی سکھ آبادی کے لئے یہ بھی منظور نہیں کہ اس کے لئے پاکستان کرتار پور کا بارڈر کھولے تاکہ وہ مقدس تقریبات میںآزادانہ شریک ہو سکیں۔بھارت کو آج نہیں تو کل اپنی روش کو بدلنا ہو گا اور قیام امن کی راہ ہموار کرنا ہو گی۔