بسم اللہ..پہلے تو میں اپنے کل کے کالم پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ ادھر قیام امن کے اعلان پر میں نے دا دو تحسین کے ڈونگرے برسائے، ادھرا س اعلان کی ہوا سرک گئی۔ایک بار جنرل ضیا الحق کو سائیکل سواری کا شوق لاحق ہوا، ابھی واہ واہ ہو رہی تھی کہ امریکی سفارت خانے کو کھنڈر بنا دیا گیا تھا۔
میرا آج کا یہ کا لم ایک چشم دید گواہی ا ور چشم کشا کہانی ہے۔
میرا قلم بے تاب ہے کہ پولیس کی بے بہا قربانیوں پر اسے سلام پیش کروں۔ پولیس سب سے آسان ٹارگٹ ہے اور یہ بات ڈیوٹی پر کھڑے ہونے والے ہر سپاہی کے علم میں ہوتی ہے، پولیس کی گاڑیوں کو آئے روز نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایک دھماکہ ہوجانے کے بعد پولیس امدادی سرگرمیوں کے لئے جمع ہو جاتی ہے تو دوسرا دھماکہ کر کے اعلی تریں پولیس افسروں کی جان بھی لینے کی متعدد مثالیں بیان کر سکتا ہوں۔ پنجاب اسمبلی اورمناواں پولیس سنٹر کے حملے کسے یاد نہیں۔
اس قدر سنگین خطرات کے باوجود پولیس نے کسی گبھراہٹ یا جھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، کوئی سپا ہی یا افسر استعفے دے کر گھر نہیں گیاا ور کسی نے آج تک دن یا رات، بارش یا دھوپ میں ڈیوٹی سے انکار نہیں کیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پولیس کو کیا تخواہ ملتی ہے، چپڑاسی کی تنخواہ زیادہ ہو گی عام سپاہی اس سے بھی کم۔یہ لوگ گھر بارسے دور خود اپنا پیٹ کیسے پالتے ہیں اور پیچھے اپنے والدین یا اہل و عیال کے مالی بوجھ سے کیسے نبٹتے ہیں۔ اس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا، بس ہمارا زور پولیس کے خلاف دشنام طرازی پر ہے، سارے ٹاک شوز میں پولیس کو مسخروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے سینیما کی فلموں میں بھی ان کے ساتھ اسی بد سلوکی کا مظاہرہ کیا جاتا رہاہے۔ ہم اس پولیس کو طعنہ دیتے نہیں تھکتے کہ موٹر وے پولیس کو دیکھو کس قدر چابک دستی سے ڈیوٹی دیتی ہے اور رشوت بھی نہیں لیتی مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ موٹر وے پولیس کی تنخواہ کس قدر زیادہ ہے اور جو ہم نہیں جانتے وہ یہ کہ جتنے چالان کریں، اسی قدرکمیشن بھی ملے گا۔ ہم لندن پولیس سے اپنی پولیس کامقابلہ کرتے ہیں ، کس قدر نادان ہیں ہم کہ لندن پولیس کو ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر حاضری نہیں دینا پڑتی۔ لندن پولیس کو وزیر اعلی، گورنر ، وزیر اعظم یا صدر کے لئے تین تین متبال روٹوں پر کھڑا نہیں کیا جاتا۔ وہاں کا وزیر اعظم جانے ا ور ملک ا لموت جانے۔
ہم اپنی پولیس کو حقارت ا ور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر ا س سے نتائج کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ حقیقت میں حقارت اور نفرت کے حق دار تو ہم ہیں۔
ہم تھانے جاتے ہیں، وہاں ہماری رپٹ لکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہم تھانہ انچارج کو صلواتیں سناتے ہیں کہ وہ کہاں غائب ہو گیاا ور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ بے چارہ ساری ساری رات ناکوں پر کھڑی نفری کو چیک کرتا ہے، اور کہیں اس کی آ نکھ لگ بھی جائے تو موبائل فون اور وائر لیس سیٹ اس کے دونوں کانوں کے آس پاس پڑے ہوتے ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ اگر یہی حالات کار ہمارے دفتری بابووں کے ہوتے تو وہ کب کے پاگل خانوں میں پہنچ چکے ہوتے ۔
مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ لاہور پولیس کا ڈی آئی جی گوشت پوست کا انسان ہپے یا کوئی ربوٹ جو سارے طعنے سنتا ہے، اپنے افسروں اور جوانوں کی لاشوں کو کندھا بھی دیتا ہے اور پھر بھی اس کا لہجہ ٹھنڈا ٹھار، میں نے اس سے زیادہ متحمل مزاج انسان کم دیکھے ہیں۔ وہ بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتا اور پھر جو حرف تسلی بولتا ہے،اس پر پورا اترتا ہے۔آفریں ہے ایسے پولیس افسر کی۔ اسے ا ورا سکی ماتحت پولیس کو درجہ بدرجہ سلام۔
مگر کل دن کا�آغاز ایک بد شگونی سے ہوا۔ رانا ثنا اللہ بولے ا ور د ل کو دھڑکالگا کہ آج کوئی گل کھلے گا۔ کوئی انہونی ہو گی۔ سہہ پہر کو جب میں اپنے ڈاکٹر کے پا س جانے کے لئے کوٹ لکھپت کا پل اتر رہا تھا تو سامنے سے موٹر سائیکلیں حواس باختہ ہو کر واپس آ تی دکھائی دیں، یوں لگا کہ سڑک پر ٹائر جلا کر آگ لگا دی گئی ہو، پھر کوئی میرے کانوں کے قریب چنگھاڑتے ہوئے بولا کہ گاڑی ریورس کرو، میں نے نرمی سے پوچھا ، ہوا کیا ، اس نے کہا کہ بلاسٹ ، میں نے کہا کہ یہ تو متروک سبزی منڈی کی دکانوں کا ملبہ گرا پڑا ہے اور وہی لوگ ا سکے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہوں گے، اس شخص کے لہجے میں پہلے سے زیادہ کرختگی آ چکی تھی،۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ ٹھڈا مار کر میری گاڑی کا منہ موڑ دیتا، میں نے اسے پہچاننے کی کوشش کی، پتہ چلا کہ وہ عقب سے آنے والی 1122 کے عملے کا رکن ہے ، میں نے ان لوگوں کی کرختگی کا بار ہا مشاہدہ کیا ہے ، حالانکہ وہ ایک ایسی فورس کا حصہ ہیں جسے ایمر جنسی سے نبٹنا ہے ا ور ایمر جنسی سے نبٹنے والے کو تو انتہائی ٹھنڈا اور ملائم انسان ہونا چاہئے ۔
میں نے کل کی قیامت کا خود مشاہدہ کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میٹرو بس کا پراجیکٹ کس قدر ظالمانہ ہے، پرویز الہی نے اسے جنگلہ بس کہا تو کوئی غلط نہیں کہا مگر میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس پراجیکٹ نے لاہور کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، یہ دیوار برلن سے مشابہ ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں میٹرو تو خراماں خراں چلتی رہے گی مگر اطراف کی دونوں سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں کاریں، موٹر سائیکلیں اور دوسری ٹریفک بری طرح پھنس جاتی ہے۔ میں نے تجویز بھی دی تھی کہ یا توجنگلہ ہٹا دیا جائے یا جنگلے میں ہر نصف کلو میٹر پر ہنگامی گیٹ لگائے جائیں۔میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو اور سان فرانسسکو میں دیکھ چکا ہوں کہ سڑک کے عین درمیان ٹرین بھی چلتی ہے اور معمول کی ٹریفک کی روانی میں بھی کوئی فرق واقع نہیں ہوتا مگر لاہور میں کسی نے سریئے کو بلا ضرورت اور بے دریغ استعما ل کیا ہے، یہ کام اسلام آباد میں بھی نہیں ہو اتو لاہور میں اس کو ڈھا دینا چاہئے تھا، ایک زمانے میں شہباز شریف نے جیل وڈ بنائی ا ور اس پر درجنوں کے حساب سے سرکاری ا ور نجی ہسپتال ہیں مگر کسی کو داخلی یا خارجی راستہ نہیں دیا تھا، میں نے ا س منصوبے کی خرابیوں پر کالم لکھا مگر اگلے روا ز ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ ایک روز پہلے میں نے ڈیوٹی پر کھڑے پولیس کے ایک سپاہی سے پوچھا کہ اس سڑک پر ہسپتالوں کو کب راستہ ملے گا، اس نے برجستہ جواب دیا کہ جس دن ان کی حکومت ختم ہو گی، اسی روز لوگ اپنے اپنے لئے راستہ بنالیں گے اور ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ بعد میں درجنوں راستے بنا لیئے گئے۔، مگر یہ خیال شہباز شریف کوکیوں نہیں آیا۔ اس لئے نہیں آیا کہ وہ عوامی سطح پر تو کجا اپنی کابینہ یا اسمبلی سے بھی مشاورت نہیں کرتے ۔کوئی انسان عقل کل نہیں ہوتا۔
یہی خرابی لاہور کے سیف سٹی پراجیکٹ کی نمایاں ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ کا ہپیڈکوار ٹر ارفع کریم آئی ٹی ٹاور میں واقع ہے ، یہیں اس کے سربراہ بھی براجمان ہیں، نوائے وقت کے صفحات گواہ ہیں کہ میں نے لکھا تھا کہ ا س منصوبے میں ملک کی آئی ٹی کمپنیوں تک سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جبکہ وہ سستا حل اور زیادہ کار�آمدحل پیش کرنے کی پوزیشن میں تھیں ، ان کمنیوں کے پاس اس قدر تجربہ ہے ان میں سے بعض کی مہارت کے ٹائٹل تک ٹائم میگزین شائع کر چکا ہے۔ مگر یہاں بھی شہباز شریف نے یا یو چینوں کی بات کو حرف مقدس سمجھا یا اس پراجیکٹ کے سربراہ کو علم لدنی سے مالا مال خیال کر لیا۔ کل کے دھماکے میں سیف سٹی پراجیکٹ کابھانڈاپھوٹ گیا،ا س کی آنکھوں کے سامنے ایک دھماکہ ہوامگر اس کے کیمرے اندھے، گونگے اور بہرے ثابت ہوئے ۔ وہ بھی ہیڈ کوارٹر کی بلڈنگ کے آس پاس جس کی شا ن و شوکت میں خلل ڈالنے والی دکانوں کوبلڈوزرا ور کرینوں کے ذریعے مسمار کیا جا رہا تھا۔
میں اگر شہباز شریف کی جگہ ہوتا تو کم از کم اس پراجیکٹ کے سربراہ سے تو استعفی لے چکا ہوتا۔
امدادی سرگرمیوں کے لئے بھی عقل استعمال نہیں کی گئی ،۔ دھماکے سے چند قدم کے فاصلے پر اتفاق ہسپتال کے باہر درجنوں ایمبولنسیں موجود تھیں ، اس کے باوجود دور دراز کے ٹھکانوں سے1122 کی گاڑیوں کو طلب کیا گیاا ور بے عقلی کی انتہا یہ ہے کہ جن زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا کرفوری طور پر اتفاق ہسپتال پہنچایا جاسکتا تھا ، انہیں جنرل ہسپتال، شیخ زائد ہسپتال اور جناح ہسپتال لے جایا گیا، جن لوگوں کا بے تحاشا خون رس رہا تھا، ان پر اس سے زیادہ کیا ظلم ہو سکتا ہے۔میری تجویز ہے کہ جس طرح ڈ ینگی کے دنوں میں ہر سرکاری ا ور نجی ہسپتال کو علاج کا پابند کیا گیا تھا ۔ا سی طرح حادثے، دھماکے یا ایمرجنسی میں ہر نجی ہسپتال کو علاج کا پابند کیا جائے ا ور جو اس سے انکار کرے ، اسے سیدھاجیل بھجوا دیا جائے ۔
میں پنجاب کے وزیر اعلی ا ور ان کی ماتحت افسر شاہی کے مضبوط اعصاب کی دا دد ئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عین ان دنوں جب خود اس حکومت کے رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ ہو رہا ہے، اس عالم میں آئی ٹی ٹاور کے سامنے بد نما عمارتوں پر دھاو ابول دیا گیا۔ فرض شناسی کی یہ حیرت انگیز مثال ہے۔ یہ کام وہ حکومت کر سکتی ہے جس کی اپنی قسمت داؤ پر نہ لگی ہو ۔
آخری بات یہ کہ جس علاقے میں دھماکہ ہوا، اس سے زیادہ لاہور شہر میں کوئی علاقہ محفوظ نہیں، یہ رایڈ زون سے بھی زیادہ محفوظ ہے، میں اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ یہاں ارد گردکسی سڑک پر ایمرجنسی میں بھی فون کرنے کے لیئے گاڑی روکنے کی اجازت نہیں دی جاتی ، میں نے اپنا تجربہ بیان کیا تھا کہ تنگ آ کر میں نے خفیہ والے سے پوچھا کہ کیا اس لمبی سڑک پر کہیں بھی نہیں رک سکتا،ا س نے کہا کہ سترہ آدمی تعینات ہیں ،وہ آپ کو بظاہر نظر نہیں آتے مگر آپ جہاں گاڑی روکیں گے، وہ سلیمانی ٹوپی اتار کر آپ کو آگے چلتا کر دیں گے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک میں صرف حکمرانوں کی حفاظت کی جاتی ہے مگر ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کے گھروں کے آس پاس کا علاقہ بھی دہشت گردوں کی مار سے محفوظنہیں۔کیا آپ پنڈ ارائیاں کا مقابلہ بھول گئے ہیں جس میں جاتی عمراہ کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونیو الے ا یم �آئی کے لانس نائیک کے لئے شہباز شریف کی طرف سے دو کروڑ کی امداد کاا علان کیا گیا تھا۔ کیا کل کے پولیس کے شہیدوں کے لواحقین کو بھی دو دو کروڑ دیئے جائیں گے۔