خبرنامہ

بی بی سی رپورٹ : کچھ قوتوں کو پاکستان میں خواجہ آصف کا بے تابی سے انتظار ہے

پاکستان کے نئے وزیر خارجہ کے ساتھ کیا نئی خارجہ پالیسی بھی آگئی ہے؟ بہت سے تجزیہ نگار اس سوچ میں ہیں کہ کیا خواجہ آصف کے گزشتہ دنوں نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی ایک تقریب میں دل کھول کر امریکہ اور پاکستان کے افغانستان کو لے کر عسکری اتحاد کی کلاس لینا ہواؤں کے رخ میں تبدیلی کے اشارے ہیں؟ چاہے خواجہ آصف نے نئی کوئی بات کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن جس طرح سے اُنہوں نے اپنے بڑے اتحادی امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا وہی اس تقریر کا نچوڑ تھا۔

’حافظ سعید جیسے عناصر بوجھ ہیں، جان چھڑانے کے لیے وقت چاہیے‘

’خواجہ آصف ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟‘

نئی کابینہ کی حلف برداری، خواجہ آصف وزیرِ خارجہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ برس اقتدار میں آنے کے فوراً بعد انہوں نے افغانستان پر نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ کافی طویل سوچ بچار کے بعد ان کی ظاہری پالیسی کو تو پاکستان میں بعض لوگوں نے نئی بوتل میں پرانی شراب قرار دیا لیکن اس کے جواب میں خواجہ آصف کی بےباک تقریر سن کر لگتا ہے کہ کم از کم پاکستان کی حد تک تبدیلی آگئی ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ دائمی ہے یا نہیں اور اسے طاقتور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہے یا نہیں، یا یہ محض خواجہ آصف صاحب کا غصہ قابو رکھنے میں عارضی ناکامی تھی۔ ماضی میں بھی وزیر خارجہ یا مشیر برائے خارجہ امور ایسے بیانات دے کر بعد میں یو ٹرن لینے پر مجبور ہوئے ہیں، لہذا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پر حتمی رائے قائم کرنے سے قبل کچھ دیر شاید انتظار بہتر ہوگا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے جب اسلام آباد میں ہفتہ ورا بریفنگ کے دوران دو مرتبہ پوچھا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ تو دنیا سے کہتے ہیں کہ وہ ’ڈو مور‘ کرے، ہم مزید کچھ نہیں کریں گے، جبکہ خواجہ آصف تو شدت پسندوں کے خلاف مزید کارروائی سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ تو ایسے میں ڈو مور پر کس کی بات کو سنا جائے گا؟ تو ان کا سادہ سا جواب تھا کہ اپنے رہنماؤں کے بیانات پر وہ بات نہیں کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے ایشیا سوسائٹی کی تقریب میں کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید جیسے عناصر پاکستان کے لیے ایک ‘لائبیلیٹی’ یا بوجھ ہیں مگر ان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کو وقت اور وسائل چاہئیں۔ یہ پہلی مرتبہ کھل کر حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی موجودگی بلکہ بوجھ بننے کا اعتراف ہے۔ یہ اعتراف بھی آہستہ آہستہ آیا ہے۔ پہلے تو کسی لشکر یا کسی حقانی کی موجودگی سے صاف انکار ہوتا تھا، یہاں تک کہ حقانیوں کی موجودگی تو آج تک تصدیق شدہ نہیں رہی ہے۔

خواجہ آصف کی تقریر پر اب تک کا سب سے بڑا ردعمل موجودہ حکومت کے مخالفِ اول تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے آیا ہے۔ انہیں بھی خواجہ آصف کی جانب سے شدت پسند گروہوں کی ملکیت تسلیم کرنے پر اعتراض ہے۔

ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ایسے وزیر خارجہ کی موجودگی میں کسی دشمن کی کسی کو کیا ضرورت ہے۔ عمران خان نے کہا کہ “ان (مسلم لیگ نون) کی جانب سے امریکہ اور بھارت کی خوشنودی کے لیے مسلح افواج کو آج بھی بدستور ہدف بنایا جا رہا ہے۔ انہیں پاکستانیوں کی قربانیوں پر کوئی تشویش نہیں اور نواز شریف اور ان کے حامی امریکی انڈین لابی کو خوش کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے اثاثے ان ممالک میں ہیں۔”

عمران خان کی ایسی ٹویٹس کے بعد جماعت اسلامی کی اہمیت میں کمی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ پھر ایسی ٹیوٹ کرنے سے پہلے عمران خان بھول گئے کہ انہی شدت پسندوں کو پاکستان میں دفاتر کھول کر دینے کی حمایت ایک زمانے میں وہ خود کیا کرتے تھے۔

امریکہ اور انڈیا کی اگر خواجہ آصف نے ایشیا سوسائٹی میں تعریفیں کی تو پھر وہ جلی جلائی باتیں کیا تھیں کہ ماضی میں امریکہ بھی تو حقانیوں کا یار تھا۔ انڈیا سے تعلقات میں بہتری کے لیے نواز شریف نے اپنا سیاسی کیریر داؤ پر لگا دیا لیکن انہیں ملا کچھ نہیں۔ ایشیا سوسائٹی کے ایگزیکٹو نائب صدر ٹام نگورسکی نے خواجہ آصف کی تقریر کے بعد اپنی ایک ٹیویٹ میں اعتراف کیا کہ انہوں نے لگی لپٹی باتیں نہیں کیں۔

بعض لوگوں کے خیال میں اس تازہ بیان کے مقابلے میں خواجہ آصف کے اس سے پہلے والے بیانات زیادہ “ڈیرنگ” تھے جیسے کہ پاکستان کو اپنا گھر پہلے درست کرنا ہوگا۔ اس بیان کے بعد تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی پردہ ڈالتے دکھائی دیئے اور کہا کہ اس بیان کو غلط رپورٹ کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ نہیں تھا۔ اب شاید حکومت کے لیے ان کی باتوں کو غلط رنگ دئیے جانے کا جواز نہیں ہوگا۔

لگتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھٹو کے بعد شاید پہلی مرتبہ خواجہ آصف فرنٹ فٹ پر کھیلنا چاہ رہے ہیں۔ ماضی کی خاموش ڈپلومیسی سے پاکستان کو یقینا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف کوئی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ اس کا ذمہ دار کسی حد تک مسلم لیگ کی پچھلے چار سال کی حکومت بھی ہے: نہ وزیر خارجہ اور نہ خارجہ پالیسی۔ ایسے میں خاقان عباسی کی کابینہ، اور کہا جاتا ہے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے بھی، خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ہے۔ امریکہ کو آئینہ دکھایا گیا اور تلخ اعتراف کیا گیا کہ حمام میں سب ننگے ہیں۔ اگر تبدیلی لانی ہے تو سب نے لانی ہے۔

دریں اثنا خواجہ آصف کی ملک واپسی کا کچھ لوگوں کو بیتابی سے انتظار ہے۔