خبرنامہ

تحریک لبیک پر پابندی ختم، کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج

تحریک لبیک پر پابندی ختم، کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج

وفاقی کابینہ کے چند ارکان کے تحفظات کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے ہٹانے کی وزارت د اخلہ کی سمری منظور کر لی ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ سمری منظور کر لی ہے۔ یہ سمری وفاقی کابینہ کے 27؍ وزراء کو سرکولیشن کے ذریعے منظوری کیلئے بھیجی گئی تھی جن میں سے سمری کی منظوری کیلئے 14؍ وزراء کی حمایت درکار تھی۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ چند وزراء نے سیاسی اور قانونی وجوہات کی بناء پر اس سمری کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود سمری کو منظور کرانے کیلئے وزراء کی مطلوبہ تعداد پوری تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ وزراء (ماسوائے شاہ محمود قریشی اور علی محمد) کو بھی نہیں دکھایا گیا جس سے کابینہ ارکان کی فیصلہ سازی کے انداز پر سوال اٹھتے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سابق کابینہ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ معاہدے کی معلومات نہ ہونے سے کابینہ کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کابینہ رکن کا استحقاق ہے کہ وہ اس ایشو پر سوال اٹھائے یا نہیں۔ وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کی یقین دہانی کی نشاندہی کی تھی کہ وہ پرتشدد مظاہرے نہیں کرے گی اور اسی وجہ سے پارٹی کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج کیا جائے۔ تاہم، کچھ وزیروں نے اس سمری پر دستخط سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم کو بتایا کہ اس معاملے میں قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ تجویز دی گئی کہ فیصلے سے قبل دونوں پہلوئوں پر مفصل بحث کی جائے۔ ایک وزیر نے لکھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی سیکشن 11 بی میں کالعدم قرار دینے کی بات شامل ہے جس کے تحت کسی تنظیم کو اس وقت دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ دہشت گردی میں ملوث ہو، دہشت گردی کی تیاری کرے، دہشت گردی کی سرپرستی کرے،اس کی حمایت یا معاونت کرے یا مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلانے یا توہین کا باعث بنے یا پھر فرقہ ورانہ یا نسلی و لسانی بنیادوں پر امن عامہ میں خلل ڈالے یا ایسے لوگوں کو ہیرو سمجھے جو دہشت گردی میں ملوث ہوں۔ وزیر کے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ یہ تمام باتیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ایل پی ان تمام باتوں پر پورا اترتی ہے، ٹی ایل پی قیات کیخلاف دہشت گردی کے کئی مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے غلام حسین کیس کے فیصلے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 6؍ میں دہشت گردی کے حوالے سے منصوبے اور مقصد کے حوالے سے بات واضح کر دی تھی، اور اس تشریح پر ٹی ایل پی پورا اترتی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں بھی واضح کر دیا تھا کہ ٹی ایل پی کی سرگرمیاں ماورائے آئین ہیں۔ اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ٹی ایل پی کیخلاف اقدامات کرتے ہوئے 6؍ پولیس اہلکار شہید ہوئے اور کئی زخمی ہوئے، اگر ان کے قاتلوں کو سزا نہ دی گئی تو یہ شہداء کے ساتھ دھوکا ہوگا، پولیس کے ساتھ اگر کھڑے نہ ہوئے تو ریاست کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔ حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ٹی ایل پی کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے ہٹایا گیا تو ریاست کی اتھارٹی مجروح ہوگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پنجاب پولیس کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ٹی ایل پی نے پولیس والوں کا قتل کیا ہے۔ وفاقی حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ٹی ایل پی کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے ہٹایا گیا تو ایس ایس پی اور لشکر طیبہ کے علاوہ الطاف حسین اور ان کے ایم کیو ایم کے حصے پر پابندی کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔ یہ تنظیمیں بھی دعویٰ کریں گی کہ انہیں بھی کلیئر قرار دیا جائے، ان تنظیموں کے جرائم بھی وہی ہیں جو ٹی ایل پی کے ہیں اور اس واقعے کے بعد دیگر تنظیمیں بھی اس سہولت کیلئے درخواست دے سکتی ہیں۔ وفاقی حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ٹی ایل پی کو کلیئر قرار دینے کے عالمی منظر نامے پر بھی اثرات مرتبہ ہو سکتے ہیں، ایسے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو انٹرنیشنل کمیونٹی میں خراب نظروں سے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ٹی ایل پی کی دہشت گردی کو قانونی قرار دینا اُس وقت سمجھ سے بالاتر لگتا ہے جب پاکستان ایف اے ٹی ایف کی اسکروٹنی کا شکار ہے۔ مانیٹریگ ڈیسک کے مطابق وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی ذیلی شق ون کے تحت تحریک لبیک پاکستان کو مذکورہ ایکٹ کے فرسٹ شیڈول سے بطور کالعدم جماعت نکال دیا ہے۔اس سے قبل کابینہ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘کابینہ نے 6نومبر 2021کو داخلہ ڈویژن سے جمع کرائی گئی سمری کا جائزہ لیا جو رولز آف بزنس کے رول 17ون بی اور 19ون کے تحت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے پابندی ہٹانے کے لیے بھیجی گئی تھی’۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘کابینہ نے سمری کے پیراگراف نمبر 8پر دی گئی تجویز کی منظوری دے دی ہے’رولز آف بزنس 1973کے مطابق وزیراعظم سے منظوری کا مطلب ہوگا کہ سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دی جائے گی، پھر وزرا کی تجاویز واپس وزیراعظم کو بھیج دی جائیں گی تاکہ اس معاملے پر مزید فیصلے کیے جائیں، اگر کسی وزیر کا مؤقف مخصوص وقت تک نہیں آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے سمری میں دی گئی تجاویز کی منظوری دے دی ہے۔