تحسین فراقی اور امیر العظیم بنام آئی جی پنجاب…اسد اللہ غالب
میں نے چوہدری پرویز الٰہی پر کالموں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے آج کے کالم کے ذریعے ان کی ق لیگ کے وزیر قانون راجہ بشارت کے ضمیر کو جگانا مقصود ہے۔اس سے پہلے کہ آگے بڑھو ں میں ایک پرانے مقدمے کا حال سنانا چاہتا ہوں جس میں الطاف حسن قریشی کو بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا،ان کے وکیل صفائی عجاز حسین بٹالوی نے ہائی کوڑت میں ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ وہ الطاف حسن قریشی کی تحریر پڑھیں جس کے ذریعے عوام کو بغاوت پر اکسایا جا سکتا ہے،ایڈ ووکیٹ جنرل پہلے چند فقروں پر ہی اٹک کر رہ گئے الطاف حسن قریشی نے لکھا تھا الٹے بانس بھریلی کو اور اگلے فقرے میں کہا تھا کہ لنکا میں سو باون گز کا۔ایک تو ایڈووکیٹ جنرل ان الفاظ کی صحیح ادائیگی نہ کر سکے پھر اعجاز حسین بٹالوی نے ایڈووکیٹ جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان الفاظ کا مطلب بتائیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے اقرار کیا کہ یہ تحریر بہت مشکل ہے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی،اس پر اعجاز حسین بٹالوی نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مائی لورڈ! الطاف حسن قریشی کا جو آرٹیکل ایڈووکیٹ جنرل کی سمجھ میں نہیں آیا،اسے عام آدمی پڑھ کر بغاوت پر کیسے آمادہ ہوسکتا ہے۔
میں اس خوش گمانی کا شکار ہوں کہ آئی جی پنجاب کو پتہ ہوگا کہ مخطوطہ کا مطلب کیا ہے لیکن وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا گڑھ مہاراجہ کا محرر بتا سکتا ہے کہ مخطوطہ کیا چیز ہوتی ہے اور آئی جی پنجاب ا س سے یہ بھی پوچھ لیں کہ قدرت اللہ شہاب جھنگ کے ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں،اور کیااسے علم ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری،ڈاکٹر عبد السلام اور محمود شام جھنگ میں پیدا ہوئے تھے اور کیا تھانہ محرر نے جھنگ کے حوالے سے شیر افضل جعفری کا نام سنا ہے،تھانہ محررر یقینی طور پر ان لوگوں کا نام نہیں جانتا مگر وہ اتنا عالم فاضل ضرور ہے کہ اس نے ایک مخطوطہ چوری ہونے کی ایف آئی آر درج کی ہے۔اس ساری تمہید کا تعلق ڈاکٹر تحسین فراقی اور منصور آفاق کے جھگڑے سے ہے،ڈاکٹر تحسین فراقی مجلس ترقی ادب کے سربراہ تھے کہ انہیں اچانک ہٹا کر منصور آفاق کو کرسی پر بٹھا دیا گیا۔مجلس ترقی ادب کے ساتھ یہ لطفہ پہلا نہیں ہے،ایک زمانے میں جناب احمد ندیم قاسمی کو بھی ڈاکٹر تحسین فراقی کی طرح اچانک فارغ خطی کا آرڈر جاری ہوا تھا اور یہ پرویز الٰہی کے دور ہی کا سانحہ ہے، ہوا یہ کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے سیکرٹری اطلاعات نے بڑبڑا کر کہا کہ ایک بڈھے کھوسٹ کا مجلس ترقی ادب میں کیا کام، لیکن احمد ندیم قاسمی کے چاہنے والوں نے شور محشر برپا کر دیا۔اور قاسمی صاحب واپس اپنے منصب پر جلوہ افروز ہوگئے۔ معلوم نہیں اب منصور آفاق کی قسمت میں کیا لکھا ہے لیکن میرے سامنے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امر العظیم کا لکھا ہوا ایک مکتوب پڑا ہے جو اچانک مجھے ڈاکیا دے گیا ہے،اس خط میں امیر العظیم نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کیا ہے، شاید آئی جی کو ایسے کئی خطوط روزانہ موصول ہوتے ہوں جو ہمارے روایتی انتظامی رویے کے باعث محض فائلوں میں دفن ہوجاتے ہوں گے۔ خط کے مندرجات ملاحظہ ہوں۔ جناب امیرالعظیم نے جناب راؤ سردار علی خان
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس خط کے ذریعے ایک اہم قومی معاملہ پر آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ مورخہ 17اکتوبر 2021ء کو ایک ایف آئی آر 449/21تھانہ گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں پاکستان کی معروف علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف درج کی گئی جس نے معروف سیاستدان چوہدری ظہورالٰہی مرحوم کے خلاف بھینس چوری کامقدمہ درج ہونے کی یاد تازہ کردی۔ جناب امیرالعظیم صاحب کے بقول ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کو کچھ عرصہ قبل مجلس ترقی ادب کی سربراہی سے کسی وجہ کے بغیر ہٹادیاگیاتھا۔ جس کے خلاف انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے۔ لیکن کچھ نادان لوگ ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں اپنا کیس واپس لینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں اور ہماری پولیس ان ناجائز ہتھکنڈوں میں شریک ہوکر پاکستان کی بدنامی کاباعث بن رہی ہے۔ جناب امیرالعظیم نے اس معاملہ کا نوٹس لینے اور اس مکروہ کھیل میں شریک پولیس اہلکاروں کے خلاف انضباطی کاروائی کی استدعا کی ہے اور اس کیس کی پیشرفت سے انہیں آگاہ رکھنے کی خواہش کابھی اظہار کیاہے۔
جناب امیرالعظیم کی یہ خواہش تو پوری ہوتی نظر نہیں آ تی کہ ہمارے افسران اور ادارے اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے اور کسی سائل یا درخواست گزار کو اس کے کیس کی پیشرفت سے آگاہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ تو قع کی جاسکتی ہے کہ آئی جی پنجاب معاملہ کی تحقیقات کرکے ضروری کاروائی فرمادیں۔
جناب امیرالعظیم نے جس ایف آئی آر کا ذکر کیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ یہ ایف آئی آر فضل عباس ولد محمداسماعیل ساکن موضع عنایت شاہ ،تحصیل احمد پور سیال،ضلع جھنگ کی درخواست پر درج ہوئی ہے جس میں مدعی کا کہنا ہے کہ اُن کے خاندان کے پاس یہ پیر مونس کی شاعری اور نوحوں کاایک مخطوطہ محفوظ تھا۔ جسے دو سال قبل لاہور کا کوئی شخص (جس کانام درج نہیں ہے) بیس لاکھ روپے میں خریدنا چاہتاتھا مگر مدعی کے والد نے انکار کردیا۔ 17اکتوبر کو تحسین فراقی نام کے ایک صاحب ان کے گھر آئے اور بتایاکہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور متذکرہ قلمی نسخہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ فضل عباس نے انہیں نسخہ دکھایا جسے وہ کافی دیر تک دیکھتے رہے۔ اس دوران وہ چائے کا بندوبست کرنے گھر کے اندر گیا تو اس کے بقول تحسین فراقی یہ مخطوطہ لے کر غائب ہوچکاتھا جبکہ اس وقت جائے وقوعہ پر غلام عباس اورخضرحیات موجود تھے۔ (گویا وہ ایف آئی آر کے گواہ ہیں) یہ درخواست مقامی تھانہ کے بجائے ڈی پی او جھنگ کو دی گئی ہے۔ نیز مدعی کا پتہ تو احمد پور سیال کا ہے لیکن اس نے ایف آئی آر گڑھ مہاراجہ میں درج کراائی ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ خود ایک سوال ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی ایک باعزت اور باوقار استاد اور انتہائی اعلیٰ شہرت کے حامل ادیب، سکالر اور نقاد ہیں۔ ان کی پوری زندگی کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے۔ ان کے بدترین مخالف بھی ان پر کسی بددیانتی یاکا الزام نہیں لگائے۔ان کے منصب پر متمکن منصور آفاق جو ایک پبلک تقریب میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ڈاکٹر فراقی انتہائی دیانت دار شخص ہے۔ انہوں نے مجلس ترقی اردو میں نہ صرف پانچ کروڑ کا فنڈ چھوڑا بلکہ سرکاری گاڑی استعمال کرتے ہوئے فوری طور پر لاگ بک پرمیٹرکی ریڈنگ خود اندراج کرتے تھے۔ ایسے شخص پر اس طرح کا لغوالزام اور اس کے خلاف ایف آئی آر کا درج ہونا ہماری اجتماعی بے حسی اور معاشرے کے مردہ ہوجانے کی دلیل ہے۔انہیں دباؤ کے لیے جھوٹے مقدمات کا سہارا لیاجارہاہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔اس خط کا نوٹس پنجاب کے شریف النفس وزیر قانون راجہ بشارت کو بھی لینا چاہئے کہ پنجاب پولیس ان کی ماتحت ہے اور ان کی ناک کے نیچے گڑھ مہاراجہ کے تھانے میں مخطوطہ چوری ہونے کا پرچہ درج ہو ا ہے۔ویسے راجہ بشارت بتائیں گے کہ مخطوطہ کیا ہوتا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ چودھری پرویز الہی آج پھر پنجاب حکومت کا حصہ ہیں۔اور پھر معاملہ درپیش ہے مجلس ترقی ادب کا۔