جنسی جرائم میں اضافہ لمحہ فکریہ، شہباز سے ہاتھ ملانا کرپشن تسلیم کرنا ہوگا، عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر قائدحزب اختلاف شہبا زشریف سے ہاتھ ملالیا تو مطلب ہے کہ کرپشن تسلیم کرلی، میری دو خاندانوں سے ذاتی دشمنی نہیں، دوستی ہوا کرتی تھی، برطانیہ کا اخلاقی معیار ہم سے بہت اوپر ہے،وہاں تو تصور بھی نہیں ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہو اور اسمبلی میں جاکر کوئی دو، دو گھنٹوں کی تقریریں کرے، ہم نےکرپشن کو قبول کرلیا ہے، پاکستان میں جنسی جرائم میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے اور یہ سب سے زیادہ بڑھ رہے ہیں، یہ ہمارے لئے بہت شرمناک ہے، نوجوان نسل کی درست سمت رہنما کی ضرورت ہے،بدعنوانی سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، آج کے پاکستان میںاسکالرز کی بہت ضرورت ہے، آج نوجوان نسل پر سوشل میڈیاکی یلغار ہے ‘ اسکالرز معاشرے میں فکری انقلاب کے لئے رہنمائی کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو اکادمی ادبیات پاکستان میں ’’ایوان اعزاز‘‘ کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کو اسلامی تاریخ کا زیادہ علم نہیں ہے‘ تلوار سے نہیں بلند کردار اور اخلاق کی وجہ سے اسلام پھیلا۔عمران خان کا کہناتھاکہ میڈیا کو بند نہیں کیا جا سکتا اور سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے لیکن ہم اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود مواد کو کس طرح استعمال کرنا ہے ۔اس وقت ہمارا سب سے بڑا بحران اخلاقی گراوٹ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ کرپشن کے معاملہ پر آپ کیوں ان دو خاندانوں پر تنقید کرتے ہیں‘جن قوموں میں اخلاقیات اور اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہیں اور برائی کو قبول کر لیتی ہیں تو وہ قومیں مٹ جاتی ہیں‘اگر برے کو برا نہیں کہتے تو اس کا مطلب ہے کہ اس سے قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے، برطانیہ اور ہماری اخلاقیات میں زمین آسمان کا فرق ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اس طرح پیسے کیوں نہیں چلتے جس طرح ہمارے سینٹ میں لوگ بکتے ہیں‘ برطانیہ میں تو ہارس ٹریڈنگ کا تصور ہی نہیں ہے کیونکہ ان کا اخلاقی معیار ہم سے بہت اوپر ہے۔ برطانیہ میں اگر کسی پر یہ الزام لگ جائے کہ اس نے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے تو کوئی اینکر اس کو اپنے پروگرام میں نہیں بلاتا اور جب تک وہ اپنے آپ کو اس الزام سے بری نہیں کرا لیتا پارلیمنٹ میں بھی داخل نہیں ہو سکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ موبائل فون کی اچھائیاں ایک طرف لیکن دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں‘بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہمارے معاشرے کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں، فلموں کا مواد ہالی وڈ سے بالی وڈ اور پھر بالی وڈ سے پاکستان میں منتقل ہو جاتا ہے، اس سے جو کلچر ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے اس کے منفی اثرات کا ہم اندازہ ہی نہیں کر پا رہے