کاش میاں نواز شریف نے اکبر اعظم اور شہزادہ سلیم کی کہانی پڑھی ہوتی تو شاید آج یہ حالات نہ ہوتے‘ ولی عہد شہزادہ محمد سلیم نے 1599ء میں اپنے والد کے خلاف بغاوت کر دی ‘ اکبر اعظم اس ایشو میں درست اور جہانگیر غلط تھا‘ دونوں میں مقابلہ ہوا‘ آخر میں بغاوت ہار گئی اور ریاست جیت گئی‘ شہزادہ سلیم جنگ کے بعد اکبر اعظم کے دربار میں پیش ہوا‘ بادشاہ نے تخت سے اتر کراستقبال کیا اور اسے معاف کر دیا۔
اکبر اعظم ضدی اور قانون کا انتہائی پابند تھا‘ شہزادے کو معافی کی توقع نہیں تھی‘ وہ حیران ہوا اور اس نے بادشاہ سے اس فراخ دلی کی وجہ پوچھ لی‘ بادشاہ نے جواب دیا ’’شہزادہ حضور آپ کی بغاوت آپ کا قصور نہیں تھا‘ یہ میری غلطی تھی‘‘ شہزادہ خاموشی سے سنتا رہا‘ بادشاہ بولا’’ میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں‘ مجھے اپنے اور آپ کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو بغاوت تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے تھا چنانچہ میں خود کو حالات کی خرابی کا ذمے دار سمجھتا ہوں۔
میں نے اس ذمے داری کی بھاری قیمت چکائی‘ میں نے ابوالفضل جیسا دوست کھو دیا‘ کاش کوئی مجھ سے ہندوستان کا تخت لے لے اور مجھے ابوالفضل لوٹا دے‘‘ میاں نواز شریف کی بھی یہی غلطی تھی‘ انھوں نے حالات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر کیوں جانے دیا‘ چوہدری نثار نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ وعدہ کیا تھا جنرل پرویز مشرف کو ہتھکڑی نہیں لگے گی۔
چوہدری نثار یہ پیغام لے کر میاں نواز شریف کے پاس پہنچے تو وزیراعظم نے جواب دیا ’’ہم نے ہتھکڑی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘‘ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار روکتے رہ گئے لیکن جنرل پرویز مشرف کو ہتھکڑی لگا دی گئی اور اس کے بعد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایسی ہتھکڑی لگی جو آج تک کھل نہیں سکی۔
آپ کو اس لیول تک جانے کی کیا ضرورت تھی؟ آئی بی نے جے آئی ٹی ارکان کے فون ٹیپ کیے‘ وزیراعظم نے ان ٹیپس کی بنیاد پر آرمی کی اعلیٰ قیادت سے کہا ’’میں آپ کا سپریم کمانڈر ہوں‘ آپ کے ہوتے ہوئے میرے خلاف سازش ہو رہی ہے‘ آپ ان لوگوں کو روکیں‘‘ آپ کو یہ کرنے اور کہنے کی کیا ضرورت تھی؟
وزیراعظم ہاؤس میں فوج کی ہر سمری اور ہر فائل روک لی جاتی تھی‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی فائلیں اپنی میز پر رکھ لیتے تھے‘ جنرلز فنانس سیکریٹری کو روز فون کرتے تھے اور سیکریٹری کی طرف سے روز ’’صاحب کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ کا جواب آتا تھا‘ آپ کو یہ کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ وزیراعظم کو فوج کے مخالفین کو اپنے گرد جمع کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی ہوں‘ جنرل راحیل شریف ہوں یا پھر جنرل قمر جاوید باجوہ ہوں یہ تینوں جمہوریت پسند تھے‘آپ کو ان سے ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ چپ چاپ کام کرتے‘ پرفارم کرتے‘آپ نے جو اختیار 2014ء میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ آپ کو 2019ء یا 2020ء میں خود بخود مل جاتا‘ آپ حقیقتاً طیب اردگان بن جاتے چنانچہ میں دل سے میاں نواز شریف کو موجودہ حالات کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ یہ اپنی حکومت‘ اپنی پارٹی‘ اپنے خاندان اور اپنے ملک تمام کو لے کر بیٹھ گئے۔
یہ اگر حالات کو اس نہج تک نہ لے کر جاتے تو آج شیر گلی گلی اپنا پتہ نہ پوچھ رہا ہوتا اور پاکستان مسلم لیگ ن اپنے ایم پی اے چوہدری پرویز الٰہی سے نہ بچا رہی ہوتی‘ یہ ایک دوسرے سے یہ نہ پوچھ رہے ہوتے ’’پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک تو نہیں بن رہا‘‘ لیکن جو ہونا تھاوہ ہو گیا‘ وہ ماضی کا حصہ بن گیا اور ماضی کے بارے میں کہا جاتا ہے اسے قدرت بھی نہیں بدل سکتی۔
یہ میاں نواز شریف کی شخصیت کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ میاں نواز شریف 13 جولائی کو اپنی اہلیہ کو کومہ میں چھوڑ کر پاکستان آئے‘ یہ لاہور سے سیدھے اڈیالہ پہنچادیے گئے‘ انھیں جنرل پرویز مشرف کی طرح ہتھکڑی لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن آرمی چیف جنرل باجوہ نے روک دیا‘ جیل پہنچ کر مریم نواز اور میاں نواز شریف کو الگ الگ کر دیا گیا۔
مریم نواز کو جیل کے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں قید کر دیا گیا‘ انھیں چارپائی اور گدابھی دے دیا گیا جب کہ میاں نواز شریف کو سی کلاس کی بیرک میں لایا گیا‘ بیرک میں چار پائی نہیں تھی‘ انھیں فرش پر گدا ڈال دیا گیا‘ پنکھا پرانا اور دور تھا‘ باتھ روم بیرک سے باہر تھا‘ میاں نواز شریف نے جائے نماز‘ قبلے کا رخ اور قرآن مجید مانگا‘ نماز پڑھی اور فرش پر لیٹ گئے‘ یہ سختی میاں نواز شریف کے لیے انتہائی سختی تھی‘ یہ اس سلوک کے عادی نہیں تھے۔
13 جولائی کی رات انھیں شدید پسینہ آیا‘ 14 جولائی کو ڈاکٹروں نے معائنہ کیا‘ یہ بلڈ پریشر‘ شوگر اور کولیسٹرول کے مریض ہیں‘ ان کا بائی پاس بھی ہو چکا تھا اور ان کو دو اسٹنٹ بھی پڑ چکے ہیں‘ ان کا یورک ایسڈ زیادہ تھا‘ ڈاکٹروں نے انھیں بہتر جگہ شفٹ کرنے کی ایڈوائس دے دی‘ عملے نے انھیں بی کلاس بھجوا دیا‘ انھیں وہاں چارپائی اور گدا بھی دے دیا گیا اور پلاسٹک کی ایک کرسی اور ایک میز بھی‘ باتھ روم بھی ساتھ تھا لیکن باتھ روم گندہ اور گدا بدبودار تھا‘ کمرے میں صرف پنکھا تھا‘ کھانا بھی جیل کا ملتا تھا اور پانی بھی‘ میاں نواز شریف پانی نہیں پیتے تھے‘ فضا میں حبس تھا‘ یہ دل کے مریض بھی تھے چنانچہ یہ ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو گئے۔
جیل کے ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو یورک ایسڈ اور کریٹامین کی مقدار بہت زیادہ تھی‘ جنرل اظہر کیانی اور ڈاکٹر حامد شریف کو طلب کیاگیا‘ دونوں نے طبیعت کو تشویش ناک ڈکلیئر کر دیا‘ ان کا خیال تھا مریض کے گردے کسی بھی وقت فیل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے انھیں اسپتال شفٹ کرنے اور ڈرپس لگانے کی ایڈوائس دے دی لیکن جیل حکام نے 12 گھنٹے اس ایڈوائس پر عمل نہیں کیا‘ مجھے 22 جولائی کی شام پتہ چلا‘ میں نے تصدیق کے لیے جیل کے عملے اور ڈاکٹر جنرل اظہر کیانی سے رابطہ کیا‘ یہ دونوں صورتحال بتانے سے انکاری تھے‘ میرے پاس میاں نواز شریف کی بلڈ رپورٹ اور ڈاکٹروں کی ایڈوائس کی کاپی تھی چنانچہ یہ آدھ گھنٹے کے انکار کے بعد مان گئے۔
ہم نے ایکسپریس نیوز پر خبر بریک کر دی‘ شروع میں اس اطلاع کو غلط قرار دیا گیا لیکن پھر حکومت‘ جیل حکام اور جنرل اظہر کیانی تمام نے تصدیق کر دی تاہم حکومت نواز شریف کو 25 جولائی سے قبل اسپتال شفٹ نہیں کرنا چاہتی تھی‘ پمز کے 5 ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ بنا ‘ یہ بورڈ 23 جولائی کو جیل گیا‘ میاں نواز شریف نے جیل سے شفٹ ہونے اور اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان کی اجازت کے بغیر دوا کھانے سے انکار کر دیا‘ ڈاکٹر عدنان خان شریف میڈیکل کمپلیکس سے وابستہ ہیں ‘ یہ 20 سال سے ان کے معالج ہیں‘ میاں صاحب ان کے مشورے کے بغیر کوئی دوا نہیں کھاتے‘ ڈاکٹر عدنان کو بلایا گیا۔
وہ آئے اور تصدیق کی ان کے دونوں گردوں میں پتھری ہے‘ پسینہ اور ٹینشن دونوں ان کے لیے خطرناک ہیں‘ ڈاکٹر عدنان کے مشورے سے ادویات تبدیل کر دی گئیں‘ 25 جولائی کو الیکشن ہو گئے‘ جیل میں میاں صاحب کی طبیعت خراب ہوتی رہی یہاں تک کہ انھیں 29 جولائی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا‘ ڈاکٹروں کو ایمرجنسی میں طلب کیا گیا‘ نواز شریف ہوش میں تھے‘ یہ کھا پی بھی رہے تھے لیکن ان کی ای سی جی بھی ابنارمل تھی اور ٹرپونن آئی ٹیسٹ بھی 54 اعشاریہ تین تھا‘ یہ نارمل حالات میں 32 ہوتا ہے‘ ڈاکٹروں کو لیفٹ بنڈل برانچ بلاک (ایل بی بی بی) بھی ملا چنانچہ انھیں فوراً سی سی یو میں شفٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا‘ میاں نواز شریف نے اسپتال جانے سے انکار کر دیا۔
پمز کے ڈاکٹر نعیم ملک سارا دن انھیں اسپتال جانے کے لیے راضی کرتے رہے لیکن یہ نہ مانے‘ آخر میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ان کے سیل میں لایا گیا‘ یہ نہیں مانے‘ ڈاکٹر عدنان کو بھی لاہور سے بلا لیا گیا‘ ڈاکٹر عدنان نے انھیں بڑی مشکل سے راضی کیا یوں انھیں 29 جولائی کی رات ساڑھے آٹھ بجے پمز شفٹ کر دیا گیا‘ انتظامیہ نے ڈاکٹر عدنان کو بھی وزٹ کی اجازت دے دی ہے‘ میاں نواز شریف کا علاج اب ان کے ذاتی معالج کی نگرانی میں ہو رہا ہے‘ ان کی ادویات تبدیل کر دی گئی ہیں‘ انھیں خون پتلا کرنے کے انجیکشن بھی لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کی حالت نہیں سنبھل رہی‘ ڈاکٹروں کا خیال ہے اگر خون پتلا نہ ہوا یا ان حالات میں مزید ہارٹ اٹیک ہو گیا تو یہ جان لیوا ثابت ہو گا۔
جیل میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی حالت بھی ٹھیک نہیں‘ کیپٹن صفدر نے پچھلے سال وزن کم کرنے کے لیے معدے کا آپریشن کرایا تھا‘ ان کا معدہ آدھا ہے اور کھانے کی نلی میں ٹانکے لگے ہیں چنانچہ یہ کھانا نہیں کھا پا رہے‘ ان کا وزن تیزی سے گر رہا ہے جب کہ مریم نواز کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک لیڈر نے مجھے بتایا’’میں نے زندگی میں ان سے زیادہ ہائی فائی خاتون نہیں دیکھی‘ میں 12 جولائی کو لندن میں ان سے ملا تھا اور پھر 19 جولائی کو جیل میں ان سے ملاقات ہوئی۔
یہ ایک ہفتے میں سکڑ کر رہ گئی ہیں‘ میں نے 19 جولائی کو اپنی آنکھوں سے میاں نواز شریف کی پوری قمیض بھی پسینے سے شرابور دیکھی‘ مریم نواز کی 13 سال کی بیٹی ہمارے ساتھ تھی‘ وہ ماں سے لپٹ کر رونے لگی‘ ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘‘۔میں نے یہ داستان سنی تو میں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگی‘ میں دل سے سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن یہ اس سلوک کو ڈیزرو نہیں کرتے‘ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے‘ عمران خان الیکشن جیت چکے ہیں‘ ہدف پورا ہو چکا ہے لہٰذا اب نواز شریف کو گھر جانے کی اجازت مل جانی چاہیے۔