حافظ سعید کو عالمی کورٹ کیوں لے جائیں…….اسدا للہ غالب
سراج الحق مجھے ملے تو مسلسل چار کالم ہو گئے، اب حافظ سعید سے ملنا ہوا تو دوسرا مسلسل کالم انہی پر ہے، میں اسے پہلے کالم کا حصہ نہیں بنا سکا کیونکہ جب حافظ صاحب سے ملاقات ختم ہوئی تو پھر یہ سٹوری ڈویلپ ہوئی کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوم برگ نیوزایجنسی کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہماری عدالتوںمیں تو حافظ سعید کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیںہوا، اب بھارت چاہے تو یہ کیس عالمی عدالت انصاف میں لے جائے۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے یہ فقرہ دہرایا کہ بھارت کے پاس کوئی ثبوت وغیرہ ہے نہیں مگر سوال یہ ہے ایک خود مختار ملک کا وزیرا عظم یہ پیش کش کیسے کر سکتا ہے کہ کوئی دوسرا ملک اور وہ بھی بھارت جیسا دشمن نمبر ایک پاکستان کے ایک شہری کو عالمی عدالت میں گھسیٹے۔ اس پیش کش کا مطلب یہی ہے کہ آپ بھارت سے کہہ رہے ہیں کہ جاﺅ عالمی عدالت میں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔کوئی ملک جیتے جی تو اپنے شہری کا مقدمہ دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتا مگر ہمارے وزیراعظم نے ایساکر دیا۔ اس معاملے میں چونکہ قانونی نکات کا مسئلہ ہے اس لئے میںنے بہتر سمجھا کہ اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے عالمی قوانین کے ماہرین سے بات کر لوں، میںنے اپنے بھائی اوردوست ڈاکٹر بابرا عوان کو فون کیا، پہلی ہی گھنٹی پر انہوںنے فون بھی اٹھا لیا۔ انہوںنے سوال سنتے ہی پہلے تو لاحول پڑھا ، پھر کہنے لگے کہ وزیراعظم کو روا روی میںکوئی بات نہیں کہنی چاہئے، وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور دنیا کے سامنے پاکستان کے با اختیار نمائندے ہیں ، اگر وہ کوئی بات کہہ دیں تو اسے حرف آخر سمجھا جائے گا اور ہر کوئی اسے ریفرنس کے طور پرا ستعما ل کرے گا۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعظم کے ریمارکس ان گنت مضمرات کے حامل ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نے دستور پاکستان کے شیڈول آٹھ کے تحت ایک حلف اٹھا یا ہو اہے کہ وہ مملکت کے ہر شہری کا تحفظ کریں گے مگر یہاں تو وہ ایک شہری کا معاملہ بھارت کے حوالے کر رہے ہیں، یہ ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے، دوسرا حلف یہ ہے کہ وہ کسی حرص و ہوس یا خوف و خطر سے بے پروا ہو کر اپنے فرائض انجام دیں گے مگر اس کیس میں یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوںنے بلا خو ف و خطر ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھارتی یا امریکی پروپیگنڈے کے دباﺅ کا شکار ہو گئے، یوں وزیر اعظم دو اعتبار سے اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ ایک سنگین امر ہے، جنرل پرویز مشرف پر مارشل لاءکے نفاذ کا مقدمہ نہیں چلا بلکہ انہیں اپنے حلف کی خلاف ورزی پرغداری کے الزامات کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے وہ بھگوڑے بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کا رخ کرنے کے قابل نہیں ہیںکیونکہ انہیں سامنے پھانسی گھاٹ نظر آ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم نے ان مضمرات کا خیال کئے بغیر ایک بات کہہ دی اور جس قدر جلدی ہو سکے انہیں اپنے ریمارکس کی تشریح کر دینی چاہئے بلکہ یہ ریمارکس واپس لے لینے چاہئیں تاکہ معاملہ مزید نہ بگڑے ا ور بھارت سچ مچ حافظ محمد سعید کو عالمی عدالت میں نہ گھسیٹ لے جائے۔ یہاںمعاملہ اکیلے حافظ سعید کا ہوتا تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو، مگر یاد کیجئے کہ بھارت کا الزام اکیلے حافظ محمد سعید پر نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا کی مانی ہوئی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر بھی ہے، سانحہ ممبئی کے پہلے چند منٹوں کے اندر بھارت نے پاکستان سے مطالبہ کر دیا تھا کہ وہ اپنے آئی ایس آئی چیف کو بھارت بھیجے تاکہ ان سے ممبئی سانحے کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا سکے ، یہ بھی آپ سب کو یاد ہو گا کہ ہمارے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جو ایک کتاب لکھ کر اپنے آپ کو یوسف ثانی سمجھ بیٹھے تھے، انہوںنے انٹیلی جنس چیف کو حکم دے دیا تھا کہ وہ فوری بھارت جائیں اور ان کی تسلی کروائیں یہ تو ملک بھر کے لوگوںنے واویلا کیا اور میڈیا نے شور مچایا کہ آپ اپنا انٹیلی جنس چیف اپنے دشمن کے حوالے کیوں کر رہے ہیں، اس پر وزیراعظم نے اپنے احکامات واپس لئے، ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئی ایس آئی چیف نے اپنے طور پر ہی بھارت جانے سے انکار کر دیا ہو کیونکہ اس کی کوئی تک تھی، نہ منطق ،نہ ضرورت بھارت کا پہلا وار خالی گیا تو اس نے حافظ سعید اور لشکر طیبہ یا جماعت الدعوہ پر چڑھائی کر دی اور یہ دعویٰ کر دیاکہ اجمل قصاب کا تعلق پاک پتن کے گاﺅں فرید کوٹ سے ہے ، بھارت کا اتنا کہنا تھا کہ ہما را ”محب وطن“ میڈیا فرید کوٹ پہنچ گیا اور اجمل قصاب اور جماعت الدعوہ کے بارے میں لگا ثبوت اکٹھے کرنے، بھارت نے مزید وایلا مچایا تو جنرل مشرف جیسا کمانڈو جو کبھی یہ کہتے نہیں تھکتا تھا کہ کسی سے ڈرتا ورتا نہیں، اس نے حافظ سعید اور ان کے کئی ساتھیوں کو نظر بند کر دیا اور ان پر مقدمے چلنے لگے، ہماری ٹیمیں شواہد اکٹھے کرنے کئی بار بھارت گئیں مگر برسوں کی ریاضت اور سر کھپائی کے باوجود حافظ سعید کے خلاف کچھ ہاتھ نہ آیا حافظ سعید رہا ہو گئے۔ اس ساری کاروائی سے یوں لگتا تھا کہ پاکستان تو بھارت کی ایک طفیلی اور باجگزار ریاست ہے جو بھارت کے اشاروں پر ہر وقت ناچنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ پھرپٹھان کوٹ پر ایک حملہ ہوا ، بھارت نے اس سانحے کی ذمہ داری پاکستان کی ا یک اور تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر عائد کی ۔ اب بھی بھارت نے بڑا واویلا کیا مگر پتہ نہیں کیسے پاکستان ڈٹ گیا اورا س نے جیش محمد کے سربراہ کو نہ تو بھارت کے حوالے کیا نہ اپنے ہاں نظربند کیا نہ ان پر کوئی مقدمہ چلایا ، بھارت نے تھک ہار کر اپنی ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ، ابھی ا سکی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی تھی کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کو نصف شب کے ہنگام موت کے گھاٹ اتار دیا، اس کے ساتھ ہی بھارت کا وایلا بھی ٹھنڈا پڑ گیا مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر بھارت ہمیشہ حافظ سعید کے درپے آزار رہتا ہے اور انہیں بہانے بہانے سے نظر بند کروا دیتا ہے، اب وہ تازہ نظر بندی سے رہا ہوئے ہیں تو بھارت پھر چیخ و پکار کر رہا ہے اور ا سکے کہنے پر امریکہ بھی پاکستان پر دباﺅ ڈال رہا ہے کہ حافظ سعید کو کیوں رہا کیا۔ یہاں مجھے ڈاکٹر بابر اعوان کا یہ نکتہ یا د آتا ہے کہ وزیراعظم اس حلف کے پابند ہیں کہ وہ کسی دباﺅ میں نہ آئیں اور وہ خوف و خطر سے آزاد ہو کر فیصلے کریں مگر افسوس کہ وزیراعظم کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے ایک ایسی بات کہہ دی جو ان کے شایان شان نہیں تھی۔ویسے ہم اس کیس کو کیا کوسیں ، پاکستان کے شہریوں کو غیروں کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہمارا پرانا وطیرہ ہے۔ صدر فاروق لغاری کے دور میں ڈی جی خان کے ہوٹل سے ایمل کانسی کو اغوا کر کے امریکیوں کے حوالے کیا گیا اور بھاری دام اینٹھے گئے۔ سی آئی اے کے ایک سربراہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈالروں کے لالچ میں اپنی ماں بیٹی اور بہن ، بیوی کو بھی بیچنے کے لئے تیار رہتے ہیں، صدر مشرف کے دور میں سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں اور افغانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا گیا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی انہی میں سے ایک بد قسمت خاتون ہیں، صدر مشرف کے غیر ملکی اکاﺅنٹس اگر بھرے ہوئے ہیں تو یہ آرمی چیف کی معمولی تنخواہ سے نہیں بلکہ امریکہ سے بٹورے جانے والے ڈالروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایوب خان نے روس کے خلاف جاسوسی کے لئے امریکہ کو پشاور کے نزدیک بڈھ بیر کاا ڈہ دیا، مشرف نے پاکستان پر ڈرون حملے کر نے کے لئے بلوچستان میں شمسی ایئر بیس عطا کر دی تھی۔ ہم نے کل بھوشن کے سلسلے میں عالمی عدالت کا مزہ چکھ لیا ہے، یہ کیس بھی روا روی میں وہاں گیا ورنہ پاکستان میں ایک قیدی پر مقدمہ چلانا عالمی عدالت کی جیورس ڈکشن ہی نہ تھی، اگر افراد پر مقدمے عالمی عدالت میں چلنے ہوتے تو اس وقت وکی لیکس کے ذمے دار سنوڈن کو اس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہئے تھا۔مگر وہ روس میں عیش کر رہا ہے۔ روس نے کبھی نہیں کہا کہ امریکہ اسے عالمی عدالت میں لے جائے۔کس قدر بد قسمتی کی بات ہے کہ کل بھوشن کے سلسلے میں ہم نے جیورس ڈکشن پر اعتراض ہی نہیں اٹھایا ، نہ ہی ہم نے اپنا یہ حق استعمال کیا کہ اپنی مرضی کا جج مقرر کرتے، اب کیا کہا جا سکتا ہے کہ حافظ سعیدکے سلسلے میں کونسی غلطیاں نہیں کریں گے اور کونسی کوتاہیاں سرزد نہیں ہو جائیں گی۔ اللہ ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی تو فیق دے۔