ساری خدائی ایک طرف ہو جائے اور میں اکیلا رہ جاﺅں ، تب بھی یہی گواہی دوں گا کہ حافظ محمد سعیدامریکی پیداوار نہیں ہیں۔پتہ نہیں وزیر خارجہ کو کس نے پٹی پڑھائی کہ انہوںنے امریکہ میں جا کر یہ ایک سانس میں کہہ دیا کہ حقانی گروپ، حافظ سعید اور لشکر طیبہ امریکی پیداور ہیں۔ یہ پاکستان پر بوجھ ہیں اور ان سے جان چھڑانے میں پاکستان کو وقت درکار ہے۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور وہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ڈو مور کرنے کی ضرورت ہے، اب چونکہ آرمی چیف نے ٹرمپ کے جواب میں یہ کہا تھا کہ پاکستان کو ڈو مور کہنے والے اب خود ڈو مور کے پابند ہیں۔ اس مسئلے پر وزیر خارجہ ا ورآرمی چیف کے موقف میں تضاد ہے مگر اس تضاد پر قابو پانے کے لئے یہ دونوں شخصیات باہم صلاح مشورہ بھی کر سکتی ہیں مگر حافظ محمد سعید اسوقت نظر بند ہیں اور ان کی زبان بھی بند ہے، اس لئے میں کتمان شہادت کا مجرم نہیں بننا چاہتا اور جو معلومات میرے پاس ہیں، ان کی روشنی میں وضاحت پیش کروں گا۔
اس وقت حکومت میں بیشتر افراد وہ ہیں جو راوین ہیں اور میرے ہی زمانے کے ہیں، ہمارے استاد ایک ہی تھے۔ اسحق ڈار، سعید چمن۔ نواز شریف۔شہباز شریف۔ خواجہ آصف۔ان راوین ساتھیوں سے دلی لگاﺅ ہے، کسی سے کم کسی سے زیادہ۔
میرا اندازہ ہے کہ وزیر خارجہ کے پاس غلط معلومات ہیں۔ یہ بات برادرم مجیب شامی بھی لکھ چکے ہیں اور شاید کہہ بھی چکے ہوں، وہ اس حکومت کے حد سے زیادہ طرفدار ہیں اس لئے وزیر خارجہ کو ان کی بات پر دھیان دینا چاہئے تھا مگر پرسوں حامد میر کے پروگرام میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ امریکہ میں کہے گئے الفاظ پر قائم ہیں توخواجہ آصف نے روایتی دلیری سے کہا کہ وہ اپنی بات سے کبھی منحرف نہیں ہوئے، جو چار دن پہلے امریکہ میں کہا ہے، اس پرا ٓئندہ چالیس برس بھی قائم رہوں گا۔دعا ہے خدا ان کواتنی لمبی عمر عطا کرے۔
وزیر خارجہ کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ حقانی گروپ نے افغان جہاد تو کیا مگر یہ ہر گز ہرگز امریکہ کی پیداوار نہیں ۔ رہا لشکر طیبہ کا قصہ تو افغان جہاد کے دنوں میں یہ لوگ ابھی منہ میں چوسنی لئے ہوئے تھے، ان کا افغان جہاد سے کیا جوڑ، کیا تعلق ، کیا لینا دینا۔حافظ سعید کا کبھی امریکہ سے کوئی تعلق نہیں رہا، وہ کبھی امریکہ کے دورے پر بھی نہیں گئے، انہوںنے امریکن ایڈ کی کھاد، گندم یا ڈالر بھی استعمال نہیں کئے۔جن سے ہر پاکستانی بہرہ مندیا فیض یاب ہو چکا ہے، امریکہ نے وار آن ٹیرر کے لئے کھربوں پاکستان پر لٹائے، ان میں سے حافظ سعید کو کوئی حصہ نہیں ملا، نہ انہوںنے مانگا۔
اب آیئے ان کی تنظیم لشکر طیبہ کی طرف۔ یہ بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر کی ایک تنظیم ہے جو بھارتی تسلط سے ا ٓزادی چاہتی ہے اور اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کی طلب گار ہے،۔ پاکستان کی ہر حکومت اس مطالبے کی حامی رہی ہے اور ہمارا ہر وزیر اعظم خواہ رسمی طور پر سہی، سال میں ایک مرتبہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتا ہے اور پچھلے وزیر اعظم سے بڑھ چڑھ کر کشمیریوں کی آزادی کامطالبہ کرتا ہے، وزیر خارجہ کے سابق وزیر اعظم نے پچھلے سال جو تقریر کی ، اس نے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل جیت لئے۔ وزیر خارجہ اس وقت جس وزیر اعظم کی کابینہ کا حصہ ہیں، انہوں نے بھی کشمیریوں کے حق خو ارادیت کے حق میں آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس لحاظ سے حافظ محمدسعید بھی کشمیریوں کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کوئی انوکھا جرم نہیں کرتے،یہ سبق انہوںنے بانی پاکستان قائد اعظم کے اس قول سے سیکھا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔اگر مجھے کہیں وزیر خارجہ ملیں گے تو ان سے ضرور پوچھوں گا کہ وہ قائد اعظم کے اس فرمان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور مزید یہ پوچھوں گا کہ قائد اعظم نے افواج پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے نجات دلائے۔ گو انگریزا ٓرمی چیف نے یہ حکم نہیں مانا مگر آزاد کشمیر کا علاقہ قبائلی اور پکی فوج کے جہاد کے بل بوتے پر ہمیں ملا۔اس کے بعد وزیر خارجہ بھٹو کے کہنے پر پینسٹھ میں ایک بار پھر کشمیر کا جہاد شروع ہوا جو ہمارے گلے پڑگیا اور بھارت نے پاکستان کی عالمی سرحدیں روند ڈالیں۔ اسی کشمیر کے لئے نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں کارگل کا جہاد ہوا، یہ بھی ہمارے گلے پڑ گیا، محصور جہادی عناصر کو بمشکل واپس نکالا جا سکا اور نواز شریف اور آرمی چیف میں اختلافات کی وجہ سے جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی۔ واضح رہے کہ کارگل جہاد بھی ملک کی پکی فوج ہی نے کیا تھا، اس میں لشکر طیبہ اور حافظ سعید کا دور پار سے واسطہ نہیں تھا۔
البتہ یہ بات صحیح ہے کہ حافظ محمد سعید نے کشمیریوں کی مدد کے لئے اپنے نوجوان وادی میں بھیجے مگر یہ کام ان سے بہت پہلے جماعت اسلامی کی جہادی تنظیم حزب المجاہدین ایک عرصے سے انجام دے رہی تھی۔ اس جہاد میں جماعت کے سرکردہ لیڈروں کے لخت جگر شہید ہوئے۔قاضی حسین احمد گاﺅں گاﺅں کشمیر میں شہید ہونے والوں کے غائبانہ جنازے پڑھا رہے تھے، جماعت کے اس جہاد کشمیر پر کسی کو نہ اسوقت اعتراض تھا، نہ آج کسی کو ہے، حتی کہ وزیر خارجہ نے بھی کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔
ایک دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت جو جہاد ہو رہا ہے، جس کے سرخیل کے طور پر شہید مقبول وانی کا نام عالمی تاریخ حریت میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا، ان کا تعلق بھی حزب المجاہدین سے ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یوں تو حریت کانفرنس میں درجن بھر تنظیمیں کشمیر کی آزادی کی آواز بلند کر رہی ہیں مگر کشمیری نوجوان مجاہدین کا صرف اور صرف حزب المجاہدین سے تعلق ہے۔
لشکر طیبہ پاکستان اور حزب المجاہدین پاکستا ن کا آزادی تحریک سے تعلق سے کوئی انکار نہیں کرتا، امریکی صدر کلنٹن چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئے ا ور انہوںنے نشری خطاب میں کہا کہ آج کے دور میں طاقت کے بل پر سرحدیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔کلنٹن نے یہ بھی انتباہ کیا کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی ایکسپورٹ کے لئے بند ہونی چاہئے تو اس تقریر کے فوری بعدجنرل پرویز مشرف نے صاف کہا کہ کشمیری عوام پر بھارت ظلم روا رکھے ہوئے ہے، ان کے رشتے دار آزاد کشمیرا ور پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے حکومت پاکستان کے بس میں نہیں کہ وہ انہیں اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد سے روک سکے۔ مگرنائن الیون کے ڈرامے کے بعد اسی جنرل پرویز مشرف نے باقاعدہ اعلان کیا کشمیر جہاد دہشت گردی ہے اور پاکستان کی سرزمین کو اس کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ بات انہوں نے ملک بھر کے ڈیڑھ سو ایڈیٹروں کے سامنے کہی تو میرے مرشد نظامی واحد ایڈیٹر تھے جنہوںنے مکہ ہوا میں لہرایا۔ وہ جنرل مشرف کے عین قریب بیٹھے تھے ، انہوںنے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کہ آپ کشمیر سے غداری کریں گے تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکتے۔ بہر حال حکومت ایک فیصلہ کر چکی تھی، اس نے اپنا فیصلہ ہر حال میںنافذ کرنا تھا۔ اس لئے حزب المجاہدین پاکستان اور لشکر طیبہ پاکستان کو اپنا جہادی بوریا بستر گول کرنا پڑا اس لئے کہ کنٹرول لائن پر ایک طرف پاک فوج کی نفری بڑھا دی گئی تھی، دوسری طرف بھارتی فوج کے دمدمے تھے ا ور درمیان میں خار دار باڑ جس میں ہر وقت بجلی دوڑتی ہے، کیا اس حال میں کوئی شخص کنٹرول لائن پار کر سکتا ہے، اگر کوشش بھی کرے گا تواس کی وہی حالت ہو گی جو دیوار برلن پھلانگنے والوں کی ہوا کرتی تھی کہ انکی سوختہ لاشیں ہفتوں تک خار دار تاروں میں ا لجھی رہتی تھیں۔ اب تو جہاد کشمیر صرف بھارتی فوج کر رہی ہے جس کی اندھا دھند فائرنگ سے معصوم بچے ا ور بچیاں، کھیتوں میں کام کرنے والے مردو زن نشانہ بنتے رہتے ہیں، کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ کسی مجاہد نے کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کا جسم بھی گولیوں سے چھیدا ہو، وہ ایسا کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اسلئے لشکر طیبہ، جماعت الدعوة اور حافظ محمد سعید کے خلاف جو الزام لگانا ہو بڑے شوق سے لگایا جا سکتا ہے، بھارت ان کے خلاف اس قدرو اویلا نہیں کرتا جتنا واویلا پاکستان میں ہوتا ہے ا ور جتنا واویلا ہمار املکی میڈیا مچاتا ہے۔ ممبئی حملوں میںہمار امیڈیا فرید کوٹ پاک پتن گاﺅںمیں کیمرے لے کر پہنچ گیا تھا کہ یہ ہے اجمل قصاب کا گھر۔ حالانکہ وہ شخص میراٹھی زبان بولتا تھا،ا سکا حلیہ پاکستانیوں سے نہیں ملتا تھا، وہ کسی کلبھوشن کا شاگرد عزیز تھا،
اسی ممبئی حملے میں پہلا الزام بھارت نے آئی ایس آئی پر لگایاا ور مطالبہ کیا کہ اس ادارے کے سربراہ کو وضاحت پیش کرنے کے لئے دلی روانہ کیا جائے، ہمارے سائیں صفت وزیر اعظم گیلانی نے بھارت کے حکم پر عمل درا ٓمد کا حکم دے دیا مگر پاکستانی قوم آڑے آ گئی۔ ہم نے بھارتی الزامات کے باوجود آئی ایس آئی کے دفتر پر تالہ نہیں لگایا مگر اسی بھارت کے پروپیگنڈے پر ہم نے لشکر طیبہ، جماعت الدعوة اورفلاح انسانیت تک کو خلاف قانون قرار دے دیا، حافظ سعید بار بار نظر بند کئے جا رہے ہیں۔انہیں فلاحی کاموں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت بھی نہیں مگر نواز شریف نے عمرا ن خان کو ہسپتال کی تعمیر کے لئے اربوں کی مالیت کی زمین ہدیہ کی، اب جنرل راحیل بھی جاتے جاتے متنازعہ سیاستدان عمران خان پر اس قدر مہربان ہوئے کہ ڈیفنس کراچی میں ایسے ہی ایک ہسپتا ل کے لئے قیمتی زمین دان کر گئے۔ ایک ہی ملک۔ ایک ہی طرح کی فلاحی تنظیمیں مگر ا یک کے ساتھ نیکی کی کوئی حد نہیں اور دوسرا مغضوب۔
وزیر خارجہ کی معلومات میں اضافہ ہوا ہو تو وہ اپنے الفاط پر نظر ثانی کریں اور حافظ محمدسعیدکو ضرور سزا دیں کہ یہ بھارت کا حکم ہے جس پر عمل در آمد ہمارے لئے فرض عین ہے۔
جہاد بُرا ضرو لگتا ہے مگر پاکستان اس پر فخر کرتا ہے کہ اس جہاد کے ذریعے سوویت روس کو تہہ و بالا کیا۔جب یہ جہاد شروع ہوا تھا تو امریکی صدر نے اس کے لئے جس امداد کا اعلان کیا تھا وہ مونگ پھلی کے چھلکے کے برابر تھی، حقیقت یہ ہے کہ بارہ پندرہ افغان جہادی تنظیموں نے اپنے بل بوتے پر سوویت روس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ حقانی گروپ ان میں سے ایک ہے اور یہ افغانستان کے چالیس فیصد حصے پر قابض ہے، اسے پناہ ڈھونڈنے کے لئے پاکستان کی سرزمین کی حاجت نہیں، نہ وہ ایسی حماقت کرے گا کیونکہ اسے ضرب عضب، آپریشن ردالفساد اور ایف سولہ سے گرائے جانے والے دو ہزار ٹن بموں سے ضرور ڈر لگتا ہے۔یہ بم بموں کی ماں ہیں اور پہاڑ کو سرمہ بنا کر پانی نکال دیتے ہیں۔ اس عالم میں کون ہے جو پاکستان میں اپنی کمین گاہیں بنانے کی حماقت کرے گا۔ باقی رہا پروپیگنڈہ تو بھارت، امریکہ اور پاکستانی مہربانوں تک اس کی کوئی حد نہیں۔ اس پراپیگنڈے کے شر سے بچنے لئے تو ہماری فوج تک کنٹرول لائن پار نہیں کرتی جس کے سربراہ ہاٹ اسٹارٹ اور کولڈ اسٹارتک کی بات کرتے ہیںمگر وہ ایک ذمے دار اور مہذب ملک کی فوج ہیں۔ حافظ سعید نے بھی کبھی کسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا، جہاد کیا اس وقت تک جب تک اجازت ملی، اب کھیل ختم، قسمت میں صرف نظربندی اور طعنے رہ گئے ہیں، سو اس پر قناعت کرتے ہیں