خبرنامہ

حدیبیہ پیپرملز ریفرنس: سپریم کورٹ نے نیب کی التواء کی درخواست مسترد کر دی

حدیبیہ پیپرملز ریفرنس: سپریم کورٹ نے نیب کی التواء کی درخواست مسترد کردی
اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز مل ریفرنس اپیل پرسماعت ملتوی کرنے کی نیب کی درخواست مسترد کر دی۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےحدیبیہ پیپرز مل ریفرنس اپیل کی سماعت ملتوی کرنے سے متعلق نیب کی درخواست پر سماعت کی۔ نیب کے وکیل نے موقف اپنایا کہ پراسیکیوٹر نیب کا عہدہ خالی ہے، مناسب ہے اس اہم مقدمے میں پراسیکیوٹر خود پیش ہوں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ التواء کی یہ کوئی بنیاد نہیں ہے، پراسیکیوٹر کی تقرری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے لئے ہر کیس ہائی پروفائل ہے عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، اگر نیب سے کوئی لاء افسر اس کیس میں پیش نہیں ہو سکتا تو استعفیٰ دیدیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ التواء کی درخواست کی ہدایت کس نے دی؟۔ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ یہ فیصلہ چیئرمین نیب کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا، پراسیکیوٹر نیب کی سمری بھیجی جا چکی ہے جلد منظور ہو جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیوں نہ ہم چیئرمین نیب کو بلا لیں؟۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کیس ملتوی نہیں ہوگا، کچھ دیر بعد سماعت کریں گے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حدیببہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر بینچ تشکیل دیا تھا۔ جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس خارج کر دیا تھا۔ نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ریفرنس دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کر رکھی ہے۔ نیب نے پاناما کیس میں پانچ رکنی بینچ کی آبزرویشن پر اپیل دائر کی تھی۔لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرینس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔ حدیبیہ ریفرنس مشرف دور میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباؤ میں آ کر دیا تھا۔