خبرنامہ

حکومت فوج تنائو…اسحاق ڈار کا فائر بریگیڈ کہاں‌ہے؟. کالم ..اسداللہ غالب

حکومت فوج تنائو…اسحاق ڈار کا فائر بریگیڈ کہاں‌ہے؟. کالم ..اسداللہ غالب

اس فوج کے گھر میںمیتیں پڑی ہیں، ان میں ڈیڑھ سو معصوم پھولوں سے خون کے فوارے ابھی تک پھوٹ رہے ہیں، سہاگ اجڑ گئے ہیں، بیواﺅں کی مانگ لہو رنگ ہے،ان کے بچے یتیم ہیں اور ان کی مائیں اپنے جوان رعنا بیٹوں کی راہ تکتے تکتے آنکھیں پتھریلی کر چکی ہیں۔

یہ فوج پچھلے دس برس سے اقتدار سے دور ہے، اقتدار کی طرف دیکھنا بھی چاہے تو دہشت گردی کی جنگ میں بری طرح الجھی ہوئی ہے، کنٹرول لائن پر موذی مودی کی فوج دن رات گولہ باری کر رہی ہے۔ اس فوج کو حکومت کاری سے کوئی دلچسپی نہیں تو پھر اس کے خلاف اس قدر نعرے بازی کیوں، کیوں کہا جا رہا ہے کہ ٹویٹ جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے، کیوں کہا جارہا ہے کہ ٹویٹ متکبرانہ ہے، کیوں کہا جارہا ہے کہ عوام کی طاقت کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی، کیوں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کسی بھی ہیجانی اور بحرانی کیفیت کو عوامی طاقت سے شکست دیں گے، کیوں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ اس ملک پر حق حکومت کس کا ہے، منتخب حکومت کا یااسٹیبلشمنٹ کا۔
کیا ہم مشرقی پاکستان میں رہتے ہیں جہاں کی آبادی کو بھارتی را نے اکساکر مکتی باہنی میں تبدیل کر دیا تھا، اس مکتی باہنی نے ہماری فوج کو بھارتی ٹینکوں کی مدد سے سرنڈر پر مجبور کر دیا تھا، آج بھی ہمارے عوام بپھر جائیں تو اس فوج کو پھر سرنڈر پر مجبور کر سکتے ہیں، مگر یہ سوچ آ کیسے گئی، کیوں آئی، فوج نے کس کو چیلنج کیا، کب چیلنج کیا، ٹویٹ کرنا جرم ہے تو محترمہ مریم نواز بھی ٹویٹ کرتی ہیں اور انہیں کرتے رہنا چاہئے، ان کا حق ہے، ٹویٹ دور حاضر کا جدید ترین ابلاغ کا ذریعہ ہے، چودھری نثار ویسے ہی برہم ہو گئے ، وہ تو خود فوجی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر کالم نویسوں، تجزیہ کاروں اور اینکروں کا لشکر کیوں فوج کے خلاف دانت پیس رہا ہے۔
میں حکومت اور فوج کے درمیان حائل نہیںہونا چاہتا ، وہ ٹکرانا چاہیں تو شوق سے ٹکر اجائیں،مگر اتنا تو بتانے کی اجازت چاہتا ہوں کہ یہ مشرقی پاکستان نہیں کہ اسے گنو اکر ہم مغربی پاکستان کا نام بدل کر مزے کرنے لگ جائیں، یہ دو ہزار سترہ کا پاکستان ہے جس کی فوج ایٹمی اسلحہ سے لیس ہے، جس کے میزائل دندان شکن ہیں اور جس کو تہس نہس کرنا مغرب کا ایجنڈہ ہے ، بھارت کا ہے ، اسرائیل کا ہے مگر ہمار ا نہیںہونا چاہئے، اس لئے کہ یہ ہماری فوج ہے، یہ ہماری قوت ہے، یہ ہمارا فخر ہے، یہ ہمارے لئے قربانیاں دیتی ہے، لہو بہاتی ہے، جانیں ہتھیلی پر رکھے ٹھٹھری یا حبس آلود راتوں کے اندھیرے میں پہرہ دیتی ہے جب ہم ٹھنڈے کمروںمیں سکون کی نیند سوتے ہیں۔ اس فوج کو عوام کے سامنے سرنڈر پر مجبور کرنے کا خیال بھی دل میںلانا گناہ ہے، گناہ کبیرہ ہے، اس وقت یہ فوج کسی کے حق حکومت کو چیلنج نہیں کر رہی ہے، ڈان لیکس کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ فوج یہ کہتی ہے کہ کم از کم اس کی تذلیل تو نہ کی جائے، تحقیر نہ کی جائے، ہماری سول سوسائٹی تو نابینا افراد کی مال روڈ پر پولیس کے ہاتھوں بے رحمانہ پٹائی پر سراپا احتجاج بن جاتی ہے، ہم تو اپنے ینگ ڈاکٹرز تک کو حق احتجاج دیتے ہیں،ہم نے عمران خان کے دھرنوں کو بھی برداشت کیا ہے، فوج کا ذرا سا نخرہ سہہ لیں گے تو کیا ہو جائے گا، اس فوج میں ہمارے ہی بیٹے، بھائی اور باپ ہیں، کہیں بھارت، اسرائیل یاٹمبک ٹوسے کسی کو بھرتی نہیں کیا، اس فوج میں پنجاب رجمنٹ ہے، سندھ رجمنٹ ہے، فرنٹیئر رجمنٹ ہے، آزاد کشمیر رجمنٹ ہے، بلوچ رجمنٹ ہے جس نے لٹے پٹے مہاجرین کو پاکستان پہنچایا تھا ، اسی فوج سے راجہ عزیزبھٹی نے نشان حیدر لیا،سیسل چودھری نے داد شجاعت دی، نور خان ا ورا صغر خان کا نام روشن ہوا۔کرنل شیر خان نے بھارتی فوج پر دھاک بٹھائی۔
چلئے، آپ میری کوئی دلیل نہ مانیئے، میں جھولی اٹھاکر فریاد کرتا ہوں کہ اس فوج کے خلاف جیتنے کا خیال دل سے نکال دیجئے، اس فوج کا دل جیتنے کی کوشش کیجئے۔ میں آپ سے بھیک مانگتا ہوں کہ اس فوج کو لائق عزت سمجھئے۔وہ کام نہ کیجئے جو بھارت کرنا چاہتا ہے، جو اسرائیل کرنا چاہتا ہے، جو مغرب کرنا چاہتا ہے، میں نے یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ دی ، جو رد عمل ہم نے ٹویٹ پر دیا اورا سے زہر قاتل کہا ، وہی رد عمل، دی ہندو، ٹائمز آف انڈیا اور نیویارک ٹائمز نے دیا،کیاآ ٓپ ان کی کشتی میں سواری کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ ان کی ہاں میں ہاں ملانا چاہتے ہیں۔
ہم نے تویہ بھی واویلا مچایا کہ راحیل شریف یہ کر دے گا، وہ کر دے گا، مگر دنیا نے دیکھا کہ راحیل شریف وقت پر گھر چلا گیا، اور دنیا نے دیکھا کہ ریاست پاکستان نے اسے ا س اعزاز کے قابل سمجھا کہ کہ وہ عرب اتحاد کی مشترکہ کمان کا سربراہ بنے تو کیا ہمیں اپنے توہمات پر ہنسنا نہیں چاہئے، ہم کچھ خوف خواہ مخواہ دل میں پال لیتے ہیں، کچھ افسانے تراش لیتے ہیںاوربات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔اچھا جی، مجھے بتایئے کہ کیانی نے دو ٹر میںگزاریں ، مگر زرداری نے بھی تو پوری ٹرم گزاری، کیا زرداری کوفوج نے کچھ کہا، جس نے کہا وہ فوج نہ تھی، عدلیہ تھی، چیف جسٹس نے ناحق گیلانی کوگھر بھیجا ، آئین کے تحت وہ اپنے صدر کو پراسیکیوٹ نہیں کر سکتا تھا۔کیا یہ کوئی گناہ تھا۔آج بھی وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں کی گئی تقریروں پر استثنیٰ حاصل ہے، یہ الگ بات ہے کہ پانامہ کیس میں وزیر اعظم نے یہ استثنیٰ نہیںمانگا ، اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا دامن صاف ہے اور ان کی تلاشی لی جائے مگر نکلا کچھ نہیں۔
لڑائی بنتی ہے تو حکومت اور اپوزیشن کی بنتی ہے کہ یہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں، ساری دنیا میں یہ لڑائی جاری ہے، امریکی صدر ٹرمپ کو اس لڑائی کا سامنا ہے مگر کسی ملک میں حکومت اور فوج کی لڑائی نہیں ہے ۔
میں بات کو لمبا نہیں کرنا چاہتا، میں چاہتا ہوں کہ حکومت کی طرف سے معتدل شخصیات اینیشی ایٹو لیں ، ان میں برادرم اسحق ڈار نے ہمیشہ ایسی کوشش کی ہے کہ جب بھی فوج ہی نہیں ، اپوزیشن کے ساتھ بھی کوئی معاملہ پھنس جائے تو وہی آگے بڑھتے ہیں، میں انہیں حکومتی فائر بریگیڈ کہا کرتا ہوں،اس فائر بریگیڈ کوایک بار پھر حرکت میں آنا چاہئے، وہ آئی ایم ایف کے اجلاس کے لئے امریکہ گئے تھے، واپس آ گئے ہوں تو پہلی فرصت میں فوج کا دل جیتنے کی کوشش کریں، یہ کام چودھری نثار بھی کیا کرتے تھے مگرا س بار انہوںنے باو¿نسر پھینکا، یا کریز سے ہٹ کر شاٹ لگانے کی کوشش کر بیٹھے، بہر حال پنجابی میںکہتے ہیں کہ…. ڈلہے بیراں دا کجھ نہیں وگڑیا۔۔اسحق ڈار چند گھنٹے بجٹ سازی سے توجہ ہٹائیں، بلکہ نہ ہٹائیں اور جی ایچ کیو میں ایک بجٹ ا جلاس کریں ،فوج سے پوچھیں کہ وہ اگلے مالی سال میں کیا کچھ چاہتی ہے، بس کوئی اور بات نہ کریں۔، اس کام کے لئے وہ پہلے بھی کئی بارجا چکے ہیں، اس بار چلے جائیں تو کوئی سبکی نہیں ہو گی، یہ ایک پیشہ ورانہ بجٹ میٹنگ ہو گی، میں یقین سے کہتا ہوں کی سب کو ٹھنڈ پڑ جائے گی ، سیاسی ٹمپریچر نیچے آ جائے گا، ان کی ہر کوشش کامیاب ہوتی ہے، اب کے بھی وہ سرخرو ہوں گے اور قوم ان کی ممنون اور مشکور ہو گی۔