خبرنامہ

جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں دستاویزات کا جواب دیں،جعلی دستاویزات کے معاملہ نے دل توڑ دیا ہے۔ سپریم کورٹ

اسلام آباد(ملت آن لائن)ماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں بلکہ ان کی دستاویزات کا جواب دیں اور جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی۔ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل دے رہے ہیں۔

سماعت کے آغازمیں عدالت کی جانب سے برہمی کا اظہارکیا گیا اورریمارکس میں کہا گیا کہ دستاویزات بعد میں عدالت میں جمع کرائی گئیں اورمیڈیا پرپہلے آئیں جس پرسلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنے طورپرجلد دستاویزات جمع کرانے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے دستاویزات وقت پرجمع کرانے کا کہا تھا، تمام دستاویزات میڈیا پرزیر بحث رہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک خط قطری شہزادے کا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا پردستاویز میری طرف سے جاری نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں، جسٹس اعجاز الاحسن ن ریمارکس دیئے کہ ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں، قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ اطمینان سے آپ کی بات سنیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی، مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی جس پر سلیمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے، یو اے ای کے خط پر حسین نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا جب کہ حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے انکار کیا تھا جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی حکام کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی، یو اے ای کے محکمہ انصاف کے خط کو دیکھ لیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو دستاویزات دیں، جے آئی ٹی نے ان کی محکمہ انصاف سے تصدیق کرائی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی کی دستاویزات بارے حسین نواز سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ متحدہ عرب امارات سے بھی حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔

سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کرسنایا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف سٹیل ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنزکی بھی تردید کی گئی، خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا یہ نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے پھرکس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کے لیے گیا تھا، جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا موقف ہمیں بتا دیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے، اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ ان کے کیس پراثرات ہوں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 12 مئی 1988 اور30 مئی 2016 کے دونوں نوٹری پبلک کودبئی حکام نے جعلی قرار دیا، دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سکریپ نہیں مشینری تھی، جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر دبئی میں اندراج نہیں ہوتا تو دبئی کے محکمہ کسٹم کی کیا ضرورت ہے جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان لے جانے کا اندراج نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا مشینری کی ترسیل کی دستاویز مصدقہ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت مہلت دے تو مصدقہ دستاویز بھی دے سکتا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دی گئی دستاویز میں میٹریل کی تفصیل شامل نہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس کب سے شروع ہوا ہے، آدھا حصہ بتاتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خلا کو وقت کے ساتھ پرکیا گیا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویز کو جے آئی ٹی رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ٹائی ٹینک کی دستاویز لے آئیں تاکہ ہم مان لیں، نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، آپ کو لکھ کر دے دیتا ہوں کہ نتائج کی کوئی حیثیت نہیں اور حیثیت ہے تو ان کے میٹیریل کی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں اوران کی دستاویزات کا جواب دیں، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے جس پرعدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ پر کوئی بقایا جات تھے جس پرسلمان اکرم نے کہا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کردیئے گئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق 21 ملین ریال عزیزیہ کی فروخت کے وقت بقایا جات تھے، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ دستاویزات ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں، جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ سٹیل مل 63 ملین ریال کی بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ کے اکاؤنٹ میں آئی جس کا بینک ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینک ریکارڈ لے آئے ہیں تو دوسرا بھی لے آئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ نقطہ یہ ہے کہ 63 ملین میرے اکاؤنٹ میں آئے اس سے آگے چلنا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ میری جان یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا عزیزیہ کے واجبات کسی دوسرے نے ادا کئے کس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کرکے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین ، عباس اور شہباز شریف کی بیٹی عزیزیہ کے حصہ دار تھے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی تاریخ یہ ہے کہ خفیہ جگہوں سے ادائیگیاں ہوتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی کوچاہئے تھا کہ ان پرسوالات کرتی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا اخبار میں اشتہار دے کر سوال پوچھتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تین حصہ دار تھے صرف حسین نوازنے عزیزیہ فروخت کی، کیا حسین نوازپہلے دونوں حصہ داروں کے شیئرز خرید چکے تھے، حسین نواز نے پاور آف اٹارنی آج تک جمع نہیں کرائی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا جس کا تحریری جواب موجود نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پہلے تو کہا گیا تھا پاور آف اٹارنی موجود ہے۔

دستاویزات سے ثابت کریں کہ باقی لوگوں کو حصہ دیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ سوال نہیں پوچھا۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کو اخبار میں اشتہار دیکر سوال پوچھا جاتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی میں حسین نواز نے پاور آف اٹارنی دینے کی بات کی تھی، کیا پاور آف اٹارنی ہے بھی یا نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی تک سامنے نہیں آیا اس کا مطلب ہے یا نہیں ہے، عزیزیہ کی فروخت کے معاملے پر گواہوں کو بلایا جا سکتا ہے، دوسرے دو شراکت داروں نے عزیزیہ کی فروخت کو چیلنج نہیں کیا، الزام یہ ہے کہ 1993 ء میں حسن ،حسین لندن فلیٹ نہیں خرید سکتے تھے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 1993 سے آج تک لندن فلیٹس میں وزیر اعظم کے بچے رہائش پذیر ہیں، اس وقت تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کے ہیں اس پر کوئی جھگڑا نہیں، نیلسن، نیسکول پہلے بئیریر سرٹیفکیٹ پھر ملکیت میں تبدیل ہوئے، موزیک فونسکا کے ریکارڈ پر ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ہے، موزیک فونسکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام مریم نواز کے مالک ہونے کا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ الزام نہیں دستاویز کے مطابق حقیقت ہے، موزیک فونسکا کے مطابق مریم فلیٹس کی مالک ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ان کا کہنا ہے مریم مالک ہیں، ہمارا کہنا ہے حسین مالک ہے،فرق تو نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت فرق ہے اگر مریم مالک ہے تو پھر ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ تو حسین کے معاملہ میں بھی فنڈ ز دیکھے جائیں گے جس پرجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ 93 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلیٹ خرید نہیں سکتے، الزام ہے کہ فلیٹ وزیر اعظم نے خریدے، درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیر اعظم فنڈز بتائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پوچھتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ (نائین اے فائیو) کا الزام ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام یہ ہے کہ بچے بے نامی دارہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم، حسن اورحسین نے کوئی غلط کام نہیں کیا صرف اپنے شیئرز وصول کیے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے نوٹ کرلیا کہ فلیٹ حسین نواز نے حاصل کیے، الزام ہے کہ مریم وزیر اعظم کی کفالت میں ہیں، نعیم بخاری کا کہنا ہے کہ مریم عدالت سے سچ نہیں بولیں گی تو اس کے نتائج ہوں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم پرجعلی دستاویز عدالت میں دینے کا بھی الزام ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ مسٹرسلمان اکرم راجہ چکری سے آگے چلو۔

سلمان اکرم نے کہا کہ عدالت سوالیہ نشان لگا رہی ہے تو مجھے جواب کا موقع دیا جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک گھنٹے سے دلائل دے رہے ہیں لیکن کوئی نئی بات نہیں کی۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عزیزیہ اسٹیل ملز بنی اور کام شروع کردیا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اور نقصان بھی اٹھانا شروع کردیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگرآپ کے خلاف الزام نہیں تو اپنی توانائی کیوں خرچ کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام غلط اور جعلی دستاویزات دینے کے ہیں، ٹھیک ہے مان لیا رقم گلف اسٹیل ملز سے گئی لیکن کیسے، ہم ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں کہ رقم کیسے گئی ، بتائیں کیسے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فلیٹس کے ثابت ہونے کا بوجھ پبلک آفس ہولڈر پرہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز کے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نہ ادھر ھے نہ ادھر ہے کیا کریں، حسن،حسین اور مریم کے اکاوٴنٹ میں رقم آئی تو ان کو معلوم ہو گا کدھر سے آئی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں فلیگ شپ اور عزیزیہ سٹیل مل کا ذکر نہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے حمد بن جاسم اوربی وی آئی کی دستاویزکھولیں جن میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے دو لیٹرز شامل ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی اپناکام مکمل کرچکی اس لئے دستاویزات رجسٹرار کو بھیج دی گئیں، ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا اور دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حمد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کہہ چکی ہے فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے، آپ دلائل دے رہے ہیں کہ کیس مزید تحقیقات کا بن چکا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہاہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے، دادا محمد شریف نے اپنی زندگی میں حسن اور حسین کے لیے رقم کا انتظام کیا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کردی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نے موکل سے پوچھا ہے، انکا کہنا ہے کہ 63 ملین ریال ٹوٹل ہے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مسٹرسلمان یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، آپ کے موکل نے جے آئی ٹی کو کہا 21 ملین ریال کی ادائیگی میری ذمہ داری تھی۔

سلمان اکرم نے کہا کہ دونوں فیملیز نے 63 ملین ریال استعمال کرنے کی اجازت حسین نوازکودی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب باتیں زبانی ہی ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تو خاندان کے اندر کی بات ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو دستاویز نہیں دیں، ہمیں نہیں دکھائی پھر کس کو دکھائیں گے، منی ٹریل کا ایک سال سے پوچھ رہے ہیں، سوال ایک ہی ہے رقم کہاں سے آئی، پوچھ رہے ہیں منی ٹریل ہے لیکن کہاں ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کسی متعلقہ فورم پر دستاویز دینا چاہتے ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بات عدالت پرچھوڑتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہل میٹل سے کس نے فائدہ اٹھایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بار ثبوت آپ پر ہے جو کہ ابھی تک ہے۔

سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی صحیح کام کا بھی ثبوت نہیں ہے، سلمان اکرم نے کہا کہ کسی کا بے نامی دار ہونا بھی ثابت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جن کی جائیداد ہوتی ہے انکو وضاحت دینا پڑتی ہے، یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کہ نہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہزاروں پاکستانی ملک سے باہر کام کررہے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ ہزاروں پاکستانی وزیراعظم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہاہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق وضاحت نہ آئے تو سمجھا جائے گا وضاحت نہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ 40 سال گزر گئے اب کوئی ثابت کرے کہ کچھ غلط ہوا، حسین نواز نے منروا کمپنی سے رابطہ ارینہ کمپنی کے ذریعہ کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس موقع پر 2006 سے بینیفشل آؤنر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، مریم کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز موجود ہے، نیب کا سیکشن 14 اے بھی پڑھ لیں، کیا قطری خاندان سے تعلق قابل قبول ہے، آفیشل کمپنی کہہ رہی تھی کہ مریم نواز مالک ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری دستاویزات چھوڑ کر نجی کمپنی کی دستاویز تسلیم کرلیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت اجازت دیں کہ میں اس کا جواب دوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ نجی کمپنی جو آپ سے پیسے لیتی ہے اس کا موقف تسلیم کرلیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایم ایل اے کی دستاویز کو مسترد کردیں، نجی کمپنی حسین نواز کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے پی سی اے نے تسلیم کیا کہ حسین نواز مالک ہیں اور مریم ٹرسٹی اور جے پی سی اے نے تحریر کیا کہ مریم سے انکی ملاقات نہیں ہوئی۔

سلمان اکرم نے کہا کہ دبئی میں نوٹری کی تصدیق کروانے والے مسٹر وقار یہاں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقار بیان دینا چاہتے ہیں اور حسین انکا نام بتانا نہیں چاہتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکام سے غلطی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات سے لگتا ہے کہ دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بی وی آئی نے 2012 میں کمپنیوں کی تفصیلات چند گھنٹے میں طلب کیں، ایک خبر کے مطابق ان معلومات میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 10 دنوں میں 12 ای میلز کا تبادلہ ہوا اور جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچے نہ کر سکے تو فلیٹس کے ذرائع ثابت کرنے کا بوجھ پبلک آفس ہولڈرپرہوگا۔

سماعت کے باعث سپریم کورٹ کے اطراف میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ ریڈزون میں عام شہریوں کا داخلہ بند ہے۔