دوبارہ انتخابات کرائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا مطالبہ
ذرائع کے مطابق حلف نہ اٹھانے کی تجویز مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی نے دی۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی، یہ عوام کا مینڈیٹ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ہے، الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہا، جمہوریت کو یرغمال نہیں بننے دیں گے، ہم دوبارہ انتخابات کیلئے تحریک چلائیں گے، چوروں اور لٹیروں کو ایوان میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
اے این پی سربراہ اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ کا کامیاب طریقہ یہی ہے تمام جماعتیں حلف نہ اٹھائیں۔ اس تجویز کی حامی پی ایس پی سربراہ مصطفیٰ کمال نے بھی کی۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ الیکشن سے پہلے ہی نتائج کا اندازہ ہو گیا تھا، ہمیں الیکشن سے پہلے ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے تھا۔
اجلاس میں ایم کیو ایم کا موقف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم سے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین نے بھی رابطہ کیا ہے، تجویز کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم ڈسے ہوئے بھی ہیں، تمام جماعتیں متفقہ فیصلہ کرینگی تو ساتھ دیں گے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس جاری ہے جس میں حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج میں تاخیر کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اجلاس کے بعد آئندہ کا مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر مشاورت کی جائے گی۔
اجلاس میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی جانب سے لیاقت بلوچ، نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ، انیسہ زیب طاھر خیلی اور وزیرِاعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان شریک ہیں۔
اے پی سی میں مسلم لیگ ن سے شہباز شریف، راجہ ظفر الحق، شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، مشاہد حسین، طارق فضل چودھری، گورنر سندھ محمد زبیر، چودھری تنویر، مصدق ملک شریک ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے فاروق ستار، اے این پی کی جانب سے اسفند یار ولی، حاجی غلام احمد بلور اور میاں افتخار حسین بھی اے پی سی میں شریک ہیں۔
ایم کیو ایم رہنما فیصل سبزواری نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ انتخابی نتائج کے حوالے سے ہمارے تحفظات سب کے سامنے ہیں، ہم اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور لڑیں گے، تاہم فی الوقت کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ فاروق ستار بھائی سے بروقت رابطہ نہ ہونے کے باعث وہ کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں، وہاں بھی وہی موقف اختیار کرینگے جو ایم کیو ایم کا ہے۔