کلر سیداں: (ملت+اے پی پی) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں لیکن دہشت گرد اور فرقہ ورانہ تنظیموں میں فرق ہے۔ کلر سیداں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت کچھ بھی کرلے پیپلزپارٹی کے چند لوگوں کا رونا دھونا جاری رہتا ہے، انہیں مجھ سے کیا تکلیف ہے وہ سب جانتے ہیں۔ میں نے فقہی اختلاف پربات کی تو ہنگامہ ہوگیا، میری تقریر پڑھے بغیر اس کے اپنے مطلب نکال لیے گئے جو کہ زیادتی اور ناانصافی ہے، بہتر تھا میری سینیٹ کی تقریر کا جواب دیا جاتا۔ ہمارے ملک کا میڈیا آزاد ہے لیکن کچھ لوگ پیشہ ورانہ بددیانتی کرتے ہیں، کوئی اگر اندھا یا گونگا بن کر بیٹھ جائے تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں، دہشت گرد تنظیموں اور فرقہ ورانہ تنظیموں میں فرق ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے، فرقہ ورانہ بنیادوں پر کالعدم قراردی گئی جماعتوں کے لوگ اب بھی پاکستان میں ہیں لیکن ہرچیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا کہاں کا انصاف ہے۔ کیا علامہ ساجد نقوی کو دہشت گرد تنظیموں سے جوڑا جاسکتا ہے، یہ دونوں شخصیات محب وطن ہیں، مگران کی تنظیمیں کالعدم ہیں۔ پیپلزپارٹی کا کون سا لیڈر اپنے دور میں کالعدم جماعتوں کے لوگوں سے نہیں ملا۔
سماجی کارکنوں کی حالیہ گمشدگی پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے پروفیسر سلمان حیدر کے لاپتا ہونے کی رپورٹ ہے، اس کے علاوہ لاہور میں بھی کچھ لوگوں کے لاپتا ہونے کی رپورٹ ہے۔ لاپتا افراد کے معاملے کو خود مانیٹرنگ کررہا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں یہ لوگ واپس آجائیں اور اس حوالے سے کچھ معاملات آگے بھی بڑھ رہے ہیں، لاپتا افراد کو بازیاب کرایا جائے گا۔ سانحہ کوئٹہ جوڈیشل کمیشن سے متعلق بات کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 18 جنوری کو اپنا جواب داخل کرادیں گے، ان کے وکیل نے انہیں وزارت داخلہ کی ساڑھے3سال کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم سیکیورٹی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں گے اور اگر عدالت نے اجازت دی تو رپورٹ سے میڈیا کو بھی آگاہ کریں گے۔ سینیٹر بابر اعوان سے ملاقات کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ ان کی بابراعوان سے چھپی چھپائی یا پہلی ملاقات نہیں تھی، ان کا بابر اعوان سے ذاتی تعلق ہے وہ کسی بھی جماعت میں ہوں ان سے بات ہوتی رہتی ہے۔