خبرنامہ

روک لو نواز شریف کو، وہ پھر آگیا اور چھا گیا۔۔اسداللہ غالب

روک لو

روک لو نواز شریف کو، وہ پھر آگیا اور چھا گیا۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ.÷….میں یہ نعرہ سن کر حیران ہوا کرتا تھا کہ تم کتنے بھٹو مارو گے، ہرگھر سے بھٹو نکلے گا
مگر اس نعرے کا جادو سر چڑھ کے بولتا رہا اور کیا پتہ کتنی صدیوں تک یہ جادو جگاتا رہے گا۔
اب جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد محترمہ مریم نواز شریف نے کیا تقریر دل پذیر کی،ایسی تقریریں بھٹو صاحب یا محترمہ بے نظیر کیا کرتی تھیں کیا جادو تھا ، ان کی تقریروں میں ، اب وہی سحر مریم نواز کی تقریر نے دل و دماغ پر طاری کر دیا۔انہوں نے بار بار کہا کہ رو ک لو، نواز شریف کو، روک لو نواز شریف کو، روک لو نواز شریف کو۔
مگر عدلیہ کا فیصلہ بھی نواز شریف کو نہ روک سکا، اسے تاحیات نااہل کر دیا گیا،ا س سے وزارت عظمی کا منصب چھین لیا گیا، پی ایم ہاؤس خالی کروا لیا گیا، یہ اسی نے تعمیر کروایا تھا، کس قدر عالی شان تھی یہ بلڈنگ اور کس قدر سجتے تھے اس میں نواز شریف، یہاں جمالی صاحب بھی آئے، شجاعت بھی آئے،شوکت عزیز بھی آئے، گیلانی بھی آئے اور راجہ صاحب بھی آئے ، مگر کوئی اس پر شکوہ عمارت سے لگا نہ کھاتا تھا، سبھی آئے اور چلے گئے، اور تاریخ انہیں بھول گئی، بند و بست تو اب بھی یہی کیا گیا تھا کہ نواز شریف کو بھی قصہ پارینہ بنا دیا جائے مگر کچھ تدبیریں انسان کرتا ہے اور کچھ تدبیریں خدا کرتا ہے ا ور خدا بہتر تدبیر کرتا ہے۔
ایک ہمارے مہربان دوست اور کالم نگارا ول اول بنی گالہ گئے تو پکارا ٹھے کہ یہ تو کسی وزیر اعظم کی رہائش گاہ لگتا ہے ، اب کیا پتہ کہ اس گھر کا مکیں اپنے خوابوں میں ہی بادشاہت کے مزے لوٹے، کچھ مزے جو وہ لوٹ رہا ہے، ان سے عائشہ گلالئی نے پردہ اٹھایا ہے، وہ کہتی ہیں کہ عمران کے بلیک بیری کا ریکارڈ حاصل کرو مگر ہم تو حسین حقانی کے بلیک بیری کا ریکارڈ نہ لے سکے، عمران کے بلیک بیری کا ریکارڈ کیسے لے پائیں گے۔ عائشہ گلا لئی کے اس تہلکہ خیز انکشاف کے بعد مجھ بڈھے کھوسٹ کا دل بھی آئی فون سیون پلس اور سام سنگ ایٹ پلس سے اکتا گیا ہے، یہ بلیک بیری مانگتا ہے تاکہ انسان جو چاہے کرتا پھرے۔اور اپنی اسی دنیا کو جنت میں بدل لے۔
قوم کی بیٹی مریم نواز کی دلوں میں اتر جانے والی اور کچھ دلوں مں کھب جانے والی تقریر کا ذکر کر ہو رہا تھا کہ رو ک لو نواز شریف کو، روک لو نواز شریف کو۔
مگر نواز شریف کو روکا نہیں جا سکا، قومی ا سمبلی میں اس کے پاس آج بھی دو سو اکیس ووٹ ہیں۔آج نواز شریف نے کوئی گلہ نہیں کیا کہ لوگ نعرے تو بہت لگاتے ہیں کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر جب میں قدم بڑھاتا ہوں ا ور پیچھے مڑ کر دیکھتا یوں تو کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا، سارے ق لیگ کے دستر خوان پر مزے اڑاتے نظر آتے ہیں مگر آج نہ کہیں ق لیگ ہے، نہ اس کا کوئی دستر خوان یہ کہانی تو تمام ہو چکی، یہ تو حرف غلط کی طرح مٹ گئی، ردی کی ٹوکوری کی نذر ہو گئی، اب وہی ن لیگ ہے، وہی نواز شریف ہے، اور اسی نواز شریف کا طوطی بولتا ہے اور ببانگ دہل بولتا ہے۔
نواز شریف نے ثابت کر دیا کہ لیڈر شپ کسے کہتے ہیں ، بھگوڑے پن کو لیڈر شپ نہیں کہتے، تحریک انصاف نے شیخ رشید کو اپنا امیدوار نامزد کیا مگر اس پارٹی کے چیئر مین نے بھی اپنا ووٹ اپنے امید وار کو دینا پسند نہیں کیا، عمران خان کو ہمت ہی نہیں پڑی کہ قومی اسمبلی میں جا سکے، اسے تو کل وہاں دندناتے ہوئے گھسنا چاہئے تھا مگر وہ بنی گالہ کو بھی چھوڑ کر کہیں اور چلا آیا، کتنابڑا پارلیمنٹرین ہے عمران خان جو ایک جمہوری سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ اس کے امید وار کو تیسرے نبر کے وووٹ ملے کل تینتیس، اتنے ووٹوں کے ساتھ وہ وزارت عظمی کے خواب دیکھتا ہے، یہ خواب نہیں بد خوابی کامرض ہے۔اور ا سکا کوئی علاج بھی نہیں۔تینتیس سیٹوں والا اس ملک کا وزیر اعظم کبھی نہیں بن سکتا، وہ خیر مانگے کہ خیبر پختون خواہ بھی ا س کے پاس رہتا ہے یا سب گلالئی کی طرح کے پنچھی پرواز کر جاتے ہیں۔عمران خان سیاسی پرندہ نہیں، اس نے یوم تمسخر پر زرداری کی باری کا نعرہ لگا کے اپنی قسمت خراب کر لی ہے۔ پیپلز پارٹی نے پہلے بھی اس پر کبھی اعتماد نہیں کیا، دھرنے کے دنوں میں وہ ڈٹ کر پارلیمان کے ساتھ کھڑی رہی ا ور نواز شریف کی طاقت بن گئی تھی، عمران اس وقت بھی تنہا تھا، ایک کینیڈین علامہ صاحب تھے وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے، اور آج اس کی تنہائی دیدنی ہے، وہ حواس کھو بیٹھا ہے اور الزام تراشی کی عادت کے تحت اس نے ایک سینیئر جج کو بھی نشانہ ببناے کی کوشش کی ہے، عمران کو اتنا بھی خیال نہیں کہ کسی کو تو بخش دے، اب جج صاحب نے وضاحت تو دے دی ہے مگر اصول کی بات یہ ہے کہ عمران کو عدالت میں طلب کیا جائے ا ور اسے توہین عدالت کے لئے چارج شیٹ کیا جائے ، معافی مانگ لے تو جان بخشی کر دی جائے ورنہ اڈیالہ جیل اسے بہت یاد آتی ہے، جہاں وہ ونوازشریف کو بند دیکھنا چاہتا تھا، کہیں ایسانہ ہو کہ نوا شریف تو جھینگا گلی میں مزے کرے اور عمران اڈیالہ میں بند ہو کر رہ جائے۔عمران ایک کھلاڑی ہے اور وہ بھی باؤلر مگر سیاست کرکٹ کی طرح نہیں کھیلی جا سکتی ، نہ اس میں اسپنرز پھینکے جاسکتے ہیں ، نہ باؤنسر مارے جا سکتے ہیں، اور نہ گگلی کو آزمایا جا سکتا ہے۔
لیجیئے صاحب! دو سو اکیس ووٹوں کے ساتھ نواز شریف پھر آ گیا، قومی اسمبلی کاہال وزیر اعظم نواز شریف کے نعروں سے گوبجتا رہا ور اسکی تصویروں سے منور رہا۔ اس کا راستہ نہیں روکا جا سکا، مریم نواز نے جو چیلنج دیا تھا، سوچ سمجھ ہی کر دیا ہو گا، کو ئی ا س چیلنج کو غلط ثابت نہیں کر سکا، وہ نواز شریف ہے جس کا راج قائم و دائم ہے، اگلے الیکشن تک یا اس وقت تک جب تک ساری شریف فیملی کو کسی بودے سے بودے الزا م میں ہی سہی، سیاست سے باہر نہیں کیا جاتا۔ مگر بھٹو کو سیاست سے باہر نہیں کیا جا سکا تو نواز شریف کوکیسے باہر کیا جا سکے گا،نواز شریف سے ٹکرانے والے بھٹو کی مثال سے سبق سیکھیں،بھٹو پھانسی چڑھ گیا مگر وہ ایک حقیت ہے ا ور ابدالآباد تک کی ایک حقیقت، وہ زندہ تھا توکھمبے کو ٹکٹ دیتا تھا ، وہ بھی جیت جاتا تھا، نوا شریف نے بھی شاہد خاقان عباسی کو نامزد کیا، وہ بھاری اکثریت سے جیت گیا اور گلے الیکشن میں بھی نواز فیکٹر فیصلہ کن ہو گا۔ اور ن لیگ کی ٹکٹوں کا فیصلہ نواز شریف ہی کی زیر صدارت اس کی پارٹی کرے گی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کامطلب پاکستان اور جمہوریت نہیں ۔وہ اپنے موقف میں ضرو رسچے ہوں گے مگر ستر کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت کی حامل عوامی لیگ ا ورا س کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے رستے میں خلل ڈالا گیا تو پاکستان دو لخت ہو گیا، اس وقت صرف بھارتی فوج ہی پاکستان کے خون کی پیاسی تھی، آج ایران کی سرحد بھی گرم ہے اور درجنوں ملکوں کی افواج کسی موقع کے انتظار میں ہیں،آج ایک بھٹو ارور ایک یحی خان کی کمی ہے ورنہ خدا نخواستہ ہمیں کب کا چیر پھاڑ کر رکھ دیا جاتا۔میں پر امید ہوں کہ جنرل قمر باجوہ اور نواز شریف کے ہوتے ہوئے کسی بیرونی دشمن کو پاکستان کی طرف بری نظر ڈالنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔
بس اتنی احتیاط لازم ہے کہ کوئی نواز شریف کا راستہ روکنے کی غلطی نہ کر بیٹھے۔
شاہد خاقان عباسی ایک اچھا چوائس ہیں، سنجیدہ، کم گو اور برد بار، وہ خاقان عباسی کے بیٹے ہیں جو اوجڑی کیمپ پھٹنے سے شہید ہوئے، وہ محمود ہارون، ظفراللہ جمالی کے ساتھ لاہور میں طارق رحیم کے گھر ڈیرہ جمایا کرتے تھے ، ان سے کئی بار انٹرویوکرنے کا موقع ملا۔اب ان کے بیٹے وزارت عظمی کی کرسی پر ہیں ، وہ اپنے لیڈر نواز شریف کی میراث کو آگت بڑھائیں گے، سی پیک مکمل کریں گے، بجلی کے منصوبوں کاا فتتاح کریں گے اور پارٹی منشور کا ایجنڈہ مکمل کر کے اگلے الیکشن میں ن لیگ کی بے مثال کامیابی کو یقینی بنائیں گے۔
یوں نواز شریف کو کوئی نہیں روک سکے گا، وہ ہماری قومی سیاست پر ابر کرم کی طرح چھائے رہیں گے۔