خبرنامہ

زندگی میں پیش آتے ہیں ہزاروں امتحاں…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

زندگی میں پیش آتے ہیں ہزاروں امتحاں…اسد اللہ غالب

مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے میری گردن کے مہرے پر رائفل کی ٹھنڈی نالی رکھ دی ہے۔ میری چھٹی حس نے کہا اگر ذرا بھی جنبش کی تو پیچھے کھڑا شخص ٹریگر دبا دے گا اور درجنوں گولیاں میری گردن کے آرپار ہوجائیں گی۔ میںساکت و سامت بت بنا کھڑا رہا۔کچھ دیر کے بعد پیچھے والا شخص سامنے آیا ،اس نے رائفل میرے اوپر اسی طرح تان رکھی تھی غصے سے اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی اور وہ کسی اجنبی زبان میں سوالوں پر سوال داغ رہاتھا۔

یہ جنوری1974 کی بات ہے،میں بشام اور پتن کے زلزلے کی کوریج کیلئے اس علاقے میں گیا تھااورایک کرنل صاحب سے ملاقات کے بعد ڈھلوان سے نیچے اتر کر ہموار میدانی علاقے سے گزر رہا تھا۔دراصل مجھے ایک امدادی کیمپ میں پہنچنا تھا جہاں آنے کیلئے ایک طرف بل کھاتی شاہراہ ریشم تھی۔میں نے سوچا یہ راستہ لمباپڑے گا اس لیے شارٹ مارنے کی کوشش کی۔ چلتے چلتے میں نے محسوس کیا کہ میں کسی مکان کی چھت پر پہنچ گیا ہوں جو آگے نشیب میں واقع تھا، اس مکان کے صحن میں بچے کھیل رہے تھے۔جب مجھے غلطی کا احساس ہوا تو الٹے پائوں واپس مڑا لیکن مالک مکان نے چیتے کی طرح مجھ پر رائفل تان لی۔میں اس کی زبان نہیں سمجھ پا رہا تھا اور وہ میری زبان سمجھنے سے قاصر تھا لیکن مجھے اس کے غصے کی وجہ معلوم تھی۔میں نے اسے اپنا کیمرہ دکھایا،جیب سے پن نکالا اور اپنی نوٹ بک بھی دکھائی اور اشاروں میں اسے یہ بھی بتایا کہ اوپر میں ایک فوجی کرنل سے مل کر آرہا ہوں۔میری زبان سے اخبار کالفظ نکلا جسے وہ سمجھ گیا اور اس کا لہجہ کچھ نرم ہوا۔اس نے اشارے سے کہا کہ ادھر سے دفع ہوجائو اور سڑک کے راستے اپنی منزل پر پہنچو۔
اخبار نویس کو اپنی زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور یہ مشکل نہ آخری تھی نہ پہلی۔گزشتہ روز جب میں سوات کے راستے بشام پہنچا تھا تو شانگلا ٹاپ کو عبور کرتے ہوئے بس کئی بار پھسلتے پھسلتے بچی۔ہمارے چاروں طرف سفید برفانی جہنم تھا اور سڑک بھی برف سے اٹی ہوئی تھی۔ہر پانچ منٹ کے بعد بس دس پندرہ فٹ پیچھے پھسل جاتی اور کنڈیکٹر بڑی پھرتی سے نیچے اتر کربس کے ٹائروں کے نیچے لوہے کا جال پھینکتا۔ آخری موڑمڑتے ہوئے بس بے قابو ہوگئی ۔میںدائیں طرف کی سیٹ پر بیٹھا تھا اور مجھے سیکڑوں فٹ نیچے گہری کھائی نظر آرہی تھی۔بس کے مسافر کلمہ طیبہ کا ورد کررہے تھے کیونکہ بس مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہی تھی۔ میرے منہ سے ایک چیخ نکلی کیونکہ بس کے دونوں پہیے سڑک کے کناروں سے صرف چھ انچ دور رہ گئے تھے۔ایک یقینی موت کو سامنے دیکھ کر میرا رنگ زرد ہوگیا لیکن پھر ایک معجزہ ہوا اور پچھلے پہیوں کے نیچے پھیلا ہوا لوہے کا جال کام آگیا۔ڈرائیور نے گیئر بدلا اور بس کو گہری کھائی میں گرنے سے بچا لیا۔بظاہر چاروں طرف ایک رومانوی منظر تھا،تا حد نظر برف ہی برف،درختوں کی چوٹیاں برف کے گالوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اور شانگلا ٹاپ کے بچے بلا خوف خطر اچھل کودکرتے نظر آئے۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ پتن کے ایک کوہستائی کے نشانے سے بچنے کے بعد کون کون سی بلائیں میرا انتظار کر رہی ہیں۔آج کی رات مجھے خیمے میں ٹھہرنے کی اجازت نہ ملی کیونکہ وہاں امدادی کارکن کثیر تعداد میں آچکے تھے۔ میںنے اپنا تھیلا سنبھالا،پتن بازا رسے گزرتے ہوئے بشام جانے والی سڑک پر چڑھ گیا ۔شام کی تاریکی تیزی سے پھیل رہی تھی، بہت کوشش کی کہ کوئی بس مل جائے مگر آخری بس بھی سر شام واپس روانہ ہوگئی تھی۔میں کچھ دور تک پیدل چلا تو پیچھے سے ایک فوجی ٹرک آتا دکھائی دیا۔ میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور بتایا کہ بشام جاناچاہتا ہوں۔ ڈرائیور نے کہا کہ چھلانگ لگائو اور پیچھے بیٹھ جائو۔ ابھی ذرا سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ ٹرک نے شاہراہ ریشم چھوڑی اور ایک پہاڑی کی چڑھائی کی طرف مڑ گیا ۔میں نے شور مچایا تو مجھے وہا ں اتار دیا گیا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا،میرے دائیں طرف بلند بالا پہاڑوں کی چوٹیاں اور بائیں طرف اباسین کی شوریدہ سر لہریں۔مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ بشام کتنی دور ہے۔ میں چلتا رہا اور چلتا رہا۔ ہر لمحہ خوف محسوس ہواکہ ذرا پائوں پھسلا تو اباسین کے تلاطم خیز اور یخ پانی کی بھینٹ چڑھ جائوں گا۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ کوہستانی پہاڑی جنگلوں سے کوئی درندہ مجھے دبوچ کر چیر پھاڑ کر نہ رکھ دےاخبا ر نویس مہم جو نہ ہوتو وہ اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر سکتا۔میں نے اکہتر کی جنگ کی کوریج کیلئے آئی ایس پی آر سے اجازت نامہ حاصل کیا اورفیروز پور سیکٹر میں قصر ہند فتح کرنے والی اکتالیس بلوچ رجمنٹ کے ہیڈ کوارٹر زپہنچ گیا جو دریائے ستلج کے کنارے واقع تھا۔بٹالین کمانڈر کرنل حبیب بڑے نفیس طبع انسان تھے۔دلی کے ملا واحدی کے خاندان کے چشم و چراغ،اردو بولنا کوئی ان سے سیکھے۔انھوں نے کہا نوجوان اس جنگ کی کوریج کے دو طریقے ہیں۔آسان طریقہ تو یہ ہے کہ میں نے جنگ کی ساری روداد ٹائپ کر رکھی ہے، یہ لے جائو اور ترجمہ کرکے چھاپ لو۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم نے تین دسمبر کی رات ہلہ بولنے کیلئے جو راستہ اختیار کیا تھا اس پر میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں ماحول کی مشکلات کا علم ہو سکے۔میں نے کہا کہ میں جنگ کے تجربے کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ ہم ایک جیپ میں بیٹھے اور زیرو لائن پر پہنچ کر اس سے اتر گئے،کرنل صاحب نے مجھے خبردار کیا کہ ہم دیپالپور نہر کے کنارے ایک پگڈنڈی سے گزریں گے جس کے دونوں طرف بارودی سرنگیں ہیں،آپ نے مکمل احتیاط سے قدم رکھنے ہیں اور پگڈنڈی سے پائوں نیچے نہیں ہونے دینا۔وہ جوشیلے لہجے میں جنگ کی روداد بیان کر رہے تھے ۔انھوں نے کہا کہ اس وقت یہاں د ن کی روشنی ہے اور ہم یہاں سے رات کے اندھیرے میں گزرے تھے۔وہ اچانک رک گئے،انھوں نے کہا کہ یہاں کہیں میرے وائر لیس آپریٹر کا پائوں پگڈنڈی سے پھسل گیا تھا، ایک دم دھماکہ ہوا اور اس کاپائوں کٹ کر گر گیا۔اس نے انگلی کے اشارے سے کہا وہ دیکھو اس کا بچا کچھا بوٹ ابھی تک پڑا ہے۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں خوف اور سراسیمگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔پگڈنڈی کے دونوں طرف مجھے بارودی سرنگیں نظر آرہی تھیں،میں نے سانس روکے پگڈنڈی کا باقی حصہ عبور کیا، ہر لمحہ ڈریہی تھا کہ کوئی بم پھٹے گا اور میں بھک سے اڑ جائوں گا