خبرنامہ

زینب قتل کیس تفتیش پر پندرہ کروڑ خرچ ہوئے، بی بی سی کا دعویٰ

زینب قتل کیس تفتیش پر پندرہ کروڑ خرچ ہوئے، بی بی سی کا دعویٰ

ملت آن لائن…. بی بی سی کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ زینب قتل کیس پر تفتیش کے دوران مبینہ طور پر پندرہ کروڑ خرچ ہوئے.

پولیس والوں کا کہنا ہے کہ اگر زینب قتل کیس کا ایک فیصد بجٹ بھی پولیس کو فی کیس حل کرنے کے لیے دیا جائے تو پولیس کی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ مبینہ طور پر زینب قتل کیس پر پندرہ کروڑ کے اخراجات ہوئے جن میں بڑی رقم ڈی این اے ٹیسٹ کروانے پر خرچ کی گئی۔

صوبائی حکومت چونکہ دباؤ میں تھی اس لیے اس نے خزانے کے منہ کھول دیے تاکہ یہ ایک کیس حتمی انجام تک پہنچ سکے مگر کیا ہر ایسے کیس کے لیے حکومت ایسے وسائل فراہم کرے گی؟

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس وی آئی پی ڈیوٹیوں اور مختلف غیر ضروری سرکاری کاموں پر کروڑوں روپے کے وسائل خرچ کرتی ہے اس لیے اہم کیسز کی تفتیش اور تحقیق کے درکار وسائل فراہم نہیں کر پاتی۔ بعض تھانوں کے تو ضروری اخراجات کے پیسے بھی مخیر حضرات ادا کرتے ہیں تو تفتیش اور تحقیق کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔

پیسے کی کمی کے علاوہ وی آئی پی شخصیات جیسے غیر ملکی افراد، پولیس اہلکار، سیاسی شخصیات، اہم تنصیبات کے لیے پولیس کی نفری تعینات کی جاتی ہے تو تفتیش کے لیے پولیس کے پاس اتنے اہلکار ہی نہیں بچتے۔

بی بی سی ڈاٹ کر پر رپورٹ‌کے مطابق تفتیشی پولیس افسران اور زینب کے والد کے بیانات میں تضاد ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم بچیوں کو اپنے گھر کی طرف نہیں لاتا تھا۔ اس نے اپنے اعترافی بیان میں یہ تسلیم کیا کہ گذشتہ سال نومبر میں اس نے ایک چھ سالہ بچی کو اسی کوڑے کے ڈھیر پر ریپ کیا اور نیم مردہ حالت میں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔

زینب قتل کیس کی تفتیش کی دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ ابتدائی طور پر اس کا ارادہ ایک زیرِ تعمیر مکان کی طرف جانے کا تھا تاہم اسے مکان کے قریب ایک شخص فون پر بات کرتا ہوا نظر آیا۔ اس وجہ سے اس نے عین موقعے پر ارادہ بدل کر وہیں سے کوڑے کے ڈھیر کا رخ کیا۔

جے آئی ٹی کے رُکن، ڈی پی او وہاڑی عمر سعید نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ دو واقعاتی شواہد کی بنیاد پر انہیں ملزم کی بات پر یقین ہوا کہ بچی کو اُسی مقام یعنی کچرے کے ڈھیر پر ہی اس نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر وہیں قتل کیا۔

عمر سعید کا کہنا تھا کہ بچی کے جسم پر موجود لباس اسی حالت میں تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ملزم قتل کرنے کے بعد عجلت میں وہاں سے فرار ہوا۔