خبرنامہ

زینب قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، مجرم عمران کوچا بار سزائے موت دینے کاحکم جاری کردیا

زینب قتل کیس کا

زینب قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، مجرم عمران کوچا بار سزائے موت دینے کاحکم جاری کردیا


لاہور:(ملت آن لائن) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کی 7 سالہ زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت سنادی۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب زیادتی و قتل کیس کا فیصلہ سنایا، جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا جارہا ہے۔ سماعت کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا کہ عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ 7 اے ٹی اے کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا بھی سنائی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ سزائے موت کی توثیق کے لیے ریکارڈ ہائیکورٹ کو منتقل کرےگی، جہاں 2 رکنی بنچ مجرم عمران کی اپیل سنے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ آرڈر بھی مثبت آیا تو عمران سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق مجرم کے پاس اپیل کرنےکے لیے 15 دن ہیں جبکہ اس کے پاس صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا حق بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام مراحل کے بعد عمران کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ پراسیکیوٹر جنرل نے مزید بتایا کہ عمران کے خلاف دس پندرہ دن میں دیگر واقعات کے ٹرائل مکمل ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران سے عدالت نے آخری وقت تک پوچھا تو اس نے خدا کو حاضر ناظر جان کر اعتراف جرم کیا۔ پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سائنٹیفک تحقیق کی بنیاد پر مجرم کو سزا دی جارہی ہے اور ہم اُن ممالک میں شامل ہوگئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر ثبوتوں پر سزا دی جاسکتی ہے۔
زینب قتل کیس—کب کیا ہوا؟
واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش گذشتہ ماہ 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔
’میری ذات‘: زینب کا آخری ہوم ورک
زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔ بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔
زینب قتل کیس کے ملزم عمران پر فرد جرم عائد
جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔ ملزم عمران کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہوا، جس پر 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی۔ زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں روزانہ 9 سے 11 گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔ سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور 4 ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں۔ 15 فروری کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔