خبرنامہ

زینب قتل کیس: 6 بچیوں کے قتل کا مجرم ایک ہی ہے، پنجاب پولیس

زینب قتل کیس: 6 بچیوں کے قتل کا مجرم ایک ہی ہے، پنجاب پولیس

اسلام آباد:(ملت آن لائن) پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش نے زینب قتل کیس میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے 6 بچیوں کے قتل میں ایک ہی مجرم کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا۔ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔ زینب کے قتل کے بعد ملک میں شدید احتجاج کیا گیا جب کہ چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا لیکن پولیس تاحال ملزم گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔
زینب کے والد کی بریفنگ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت ہوا جس میں مقتولہ زینب کے والد محمد امین اور پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش بھی شریک ہوئے۔ محمد امین نے بتایا کہ جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ہم نے ریسکیو 15پر کال کی تھی، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بچی کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، میری بیٹی کے پاس اس روز پیسے بھی تھے۔ محمد امین نے کہا کہ اس روز میرا بھتیجا عثمان بیٹی کے ساتھ سپارہ پڑھنے گیا تھا، ہم نے اپنی فیملی کے سب سے پہلے ڈی این اے کرائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب لاش ملی تھی اس وقت سونگھنے والے کتوں سے ملزم کی شناخت ہو سکتی تھی۔ زینب کے والد نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس کی طرف سے بعض لوگوں کو تنگ کرنے کی شکایت بھی آرہی ہے، ہم مجرم کو اپنی آنکھوں سے سزا پاتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈی آئی جی کی بریفنگ
ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش نے کمیٹی کو بتایا کہ بچی کی لاش ایک پولیس کانسٹیبل صابر حسین نے ہی تلاش کی، سال 2015 سے اب تک ایسے 11 واقعات ہوئے ہیں، اکتوبر2017 سے اب تک 696 ڈی این اے لیے گئے، 692 لوگوں سے تحقیقات کیں، ہمیں 125 ڈی این ایز کے رزلٹ کا انتظار ہے۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ 6 بچیوں کے قتل کا مجرم ایک ہی ہے۔

………………………………….

اس خبر کو بھی پھی پڑھیے…سراغ رساں کتوں کو بلانے کا کہا اور خرچہ بھی دیا: والد زینب

اسلام آباد:(ملت آن لائن) پنجاب کے شہر قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 7 سالہ زینب کے والد امین انصاری کا کہنا ہے کہ پولیس نے زینب کے اغوا کے بعد 5 دن تک کچھ نہیں کیا۔ ہم نے سراغ رساں کتوں کو بلانے کا کہا اور خرچہ بھی دیا لیکن کتے نہیں لائے گئے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا جس میں ننھی زینب کے والدین بھی شریک تھے۔
اجلاس میں زینب اور مردان میں عاصمہ کے قتل کی مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب پولیس کے حکام بھی شریک تھے۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ پوری قوم جاننا چاہتی ہے زینب کے قاتل کون ہیں۔ تجویز دیں گے ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو پھانسی دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ننھے بچوں کی آہوں کا جواب نہیں دے سکتے تو ہم ناکام ہیں۔ اجلاس میں منظور کی گئی قرراداد میں کہا گیا کہ بچوں سے اغوا اور زیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے جبکہ بچوں سے زیادتی اور دیگرجرائم کے بارے میں کمیشن قائم کیا جائے۔
زینب کو قریبی گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا
اجلاس میں زینب کے والد امین انصاری کا کہنا تھا کہ پولیس نے زینب کے اغوا کے بعد 5 دن تک کچھ نہیں کیا۔ 5 دن پولیس والے آتے تھے، کینو کھا کر چلے جاتے تھےانہوں نے بتایا کہ ہم نے سراغ رساں کتوں کو بلانے کا کہا اور اس کا خرچہ بھی دیا لیکن کتے نہیں لائے گئے۔ ان کے مطابق اب تک ان کے خاندان کے کم سے کم 100 لوگوں کا ڈی این اے کروایا جا چکا ہے۔ زینب کے والدین کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ہمارے ارد گرد رہنے والوں کو تنگ کر رہی ہے۔ ’ہمارے رشتے دار گھر آکر کہتے ہیں ہمارا کیا قصور ہے پولیس ہمیں تنگ کر رہی ہے‘۔ امین انصاری کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار لوگوں میں سے 3 مشکوک ہیں جن میں عمر، آصف اور رانجھا شامل ہیں۔ ’قصور کی ایک اور بچی اغوا ہوئی لیکن اس کا مقدمہ درج نہیں ہوا، پولیس نے اس متاثرہ خاندان کو ڈرایا ہوا ہے‘۔ اجلاس میں زینب کی والدہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بس درخواست ہے قاتل کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے۔ قاتل کو گرفتار کر کے ایک بار ماں کی عدالت میں لایا جائے۔
اپنے بچوں کو زینب کے ساتھ پیش آنے والی بربریت سے بچائیں
انہوں نے کہا کہ پولیس کہتی ہے زینب کا قاتل سیریل کلر ہے۔ پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے ہی ملزم سیریل کلر بنا ہے۔ یاد رہے کہ قصور کی ننھی زینب کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ 3 روز بعد زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔ زینب کو سفاک درندوں نے زیادتی کا نشانہ بنانے کا بعد قتل کردیا تھا۔ سپریم کورٹ اور آرمی چیف کے نوٹس کے باوجود پولیس تاحال ملزم کو پکڑنے میں ناکام ہے۔