خبرنامہ

سعودی عرب سے خوشخبری، حکومت کے لئے بڑاریلیف….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آخر وہ خبر آ ہی گئی جس کاایک عرصے سے انتطار تھا، سانس بند کر کے انتظار کیا جا رہا تھا، حوکموت بھی انتظارمیں تھی اور عوام بھی منتظر تھے۔
وزیر خزانہ اسد عمر کے مطابق پاکستان ا ور سعودی عرب نے مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کئے ہیں جس کی رو سے سعودیہ تین بلین ڈالر پاکستان کے خزانے میں ایک سال کے لئے جمع رکھے گااور اگلے تین برسوں میں ہر سال تین ارب ڈالر کا تیل بغیر ادائیگی کے فراہم کرے گا۔ اس طڑح پاکستان کو بارہ ارب ڈالر کاایک بہت بڑا ریلیف پیکیج مل گیا ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم عمران خاں نے سعودی عرب میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کیااور مختلف سوالوں کے جواب دیئے۔ وزیر اعظم کا خطاب حقائق پر مبنی تھا۔ وہ عام طور پر بے لاگ گفتگو کرتے ہیں اور کھرا انداز استعمال کرتے ہیں جس سے خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی معاشی حالت زار کے پیش نظر شاید ہی حوصلہ افزا رد عمل کاا ظہار کریں۔یہ رد عمل تو سامنے آئے گا تو اس پر ات ہو گی مگرا س اثناء میں وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے سعودی حکمرانوں سے جوبات چہت کی ہے۔ اس کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ خود سعودی عرب عالمی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دے رہا تھا، وہ ہمیں کیا دے پائے گا۔ا س وقت سعودی عرب ایک صحافی کے قتل کی وجہ سے بھی پریشانیوں کا شکار ہے مگر تما م منفی سگنلز کے برعکس پاکستان کی جھولی بھر دی گئی ہے۔ شاید ہم نے اتنا سوچا بھی نہ تھا۔ یہ تو سعودی عرب کی مہربانی ہے جو وہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ روا رکھتا ہے ۔ خادم حرمین شریفین پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں کبھی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں نہیں آیا ، پاکستان نے یمن کی صورت حال میں بھی متوازن کردار ادا کیا۔ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد میں بھی شرکت کی حامی بھری بلکہ ا سکی سربراہی کے لءئے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی خدمات بھی فراہم کیں۔ اس ضمن میں پاکستان نے کوشش کی ہے کہ ایران کی خفگی بھی مول نہ لے۔
پاکستان کو عالم ا سلام میں ایک مخصوص حیثیت حاصل ہے۔ یہ واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہے اور اس اعتبار سے پاکستان کو عالم اسلام کا قلعہ بھی تصور کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف پاکستان کو معاشی مشکلات ضرور درپیش ہیں جن پر قابو پانے میں سعودی عرب، کویت،،قطر اور امارات نے فراخدلانہ کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے معاشی مسائل کا شکار رہا۔ ملک بنا تو بھارت کہتا تھا کہ پاکستان معاشی طورپر چل ہی نہیں سکتا، اس لئے بہت جلد گھٹنے ٹیک دے گا اور بھارت کی جھولی میں آن گرے گا۔ یہ دور تو گزر گیا مگر پاکستان پر اچھا وقت وقفوں وقفوں ہی سے �آیا۔ ایوب کا ابتدائی دور۔ جنرل ضیا کا�آخری دور اور جنرل مشرف کا دور۔ضیااور مشرف کو افغان جنگ اور وار آن ٹیرر کا فائدہ پہنچا لیکن یہ مال ملک کی معیشت کو مضبوط اور مستحکم نہ بنا سکا ۔سیاسی حکومتیں بمشکل ہی گزرا کرتی رہیں مگر یہ بھی ہوا کہ جو کچھ ملک کے وسائل تھے،ان کی لوٹ مار بھی خوب کی گئی۔ دونوں ہاتھوں سے کی گئی اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ برسوں کے مقدمات کے باوجود کسی پرکوئی الزام ثابت نہ کیا جاسکا۔ یہ ہمارے احتسابی نظام کی خامی ہے۔ اب عمران خان کااولیں ایجنڈہ یہ ہے کہ چوروں، ڈاکووں کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ کرپشن کا مکمل خامتمہ چاہتے ہیں ، اس ضمن میں وہ چین کو ماڈل تصور کرتے ہیں۔ساتھ ساتھ وہ دس کروڑ نوجوانوں کو بر سر روزگار کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں سیاحت کو فروغ دیناچاہتے ہیں۔۔ ملک کے قدرتی وسائل کی تلاش میں بیرونی سرمایہ کاروں کو مدعو کر رہے ہیں۔ گھروں کی تعمیر میں بھی انہوں نے بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی ہے۔ اوور سیز پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں۔انہوں نے یقین دلایا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ون ونڈو سسٹم کے تحت بآسانی اورفوری کام شروع کرنے کی سہولت دی جائے گی۔ انہیں مختلف محکموں میں خجل خوار نہیں ہونا پڑے گا۔ سرخ فیتہ کہیں رکاوٹ نہیں بنے گا۔
معیشت کی بحالی کے لئے حکومت کے سامنے کئی فارمولے ہیں ۔ ایک تو سیدھے سیدھے آئی ایم ایف سے ادھار پکڑ لیا جائے ، دوسرے دوست ممالک سے کہا جائے کہ وہ عبوری مدت کے لئے پاکستان میں ڈالر کی شکل میں ریزرو جمع کرائیں تاکہ ہمارا دائیگیوں کا توازن بہتر ہو سکے۔ سعودی عرب نے تو اپنامثبت رد عمل دکھا دیا۔ابھی وزیر اعظم کوچین جانا ہے جو پہلے ہی باسٹھ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ قطر اور متحدہ عرب امارات سے بھی رابطے ہو رہے ہیں ۔یہ سارے انتظامات عارضی ہیں،۔ اس دوران حکومت کی کوشش یہ ہو گی کہ وہ معاشی ا ور مالیاتی اصلاحات کے ذریعے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکے۔
حکومت کے راستے میں کئی مشکلات ہیں۔ ایک تو ماضی کی حکومتوں کی پروردہ افسر شاہی ہے جو تعاون کے لئے تیار نہیں، دوسرے عوام ٹیکسوں کا مزید بوجھ سہارنے کے قابل نہیں ہیں۔ڈالر کی مہنگائی نے پہلے ہی مہنگائی کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔حکومت کئی مزید اقدامات بھی کر رہی ہے جس میں قبضہ مافیا سے قیمتی زمینوں کو واپس لینے کا عمل مشکل ہو رہا ہے۔ لوگ مزاحمت پر اتر آتے ہیں۔یہ ایک معاشرتی مسئلہ تو ہے مگر غیر قانونی قبضے تو چھڑوانے ہی ہوں گے ا ور پھر واگزار زمینوں کو مارکیٹ نرخوں پر فروخت کر کے خزانے میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔حکومت در�آمدات کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ اشیائے تعیش کو مہنگا کر دیا گیا ہے اور درآمدات میں اضافے کے لئے سہولتیں دی جائیں گی۔آج پاکستان میں در�آمدات کا انبار لگا ہوا ہے اور برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف چین سے در�آمدات پندرہ ارب کی ہیں جبکہ اس کو برآمدات صرف ایک ارب ڈالر کی ہیں۔
ملک میں سرمایہ کاری کے لئے سازگار فضا پید اکرنے کی کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کر دی گئی مگر ہماری بہادرافواجا اور دیگر سیکورٹی اداروں نے اس پر قابو پا لیا ہے۔ اب سرمایہ کار بے دھڑک ہو کر آسکتے ہیں۔
سی پیک کا منصوبہ بھی حکومت کی اولیں ترجیح میں شامل ہے۔ اسے آگے بڑھانے کی تدابیر پر عمل ہو رہا ہے اور گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ چالو ہونے سے پاکستان ایک معاشی مرکز بن جائے گا۔ پاکستان نے ان منصبوں میں سعودی عرب کو شمولیت کی دعوت دی ہے اور ایک آئل ریفائنری کا منصوبہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری کا مرکز بنے گا۔ حکومت کی یہ کوششیں ملک کو معاشی پٹری پر واپس لانے میں معاون ثابت ہو ں گی۔