بسم اللہ…. بات چند دن پرانی ہے لیکن اتنی بھی پرانی نہیں کہ اسے تاریخ کے دھندلکوں کی نذر کر دیا جائے اور خاطر میں نہ لا یا جائے۔
نواز شریف کا قافلہ شاہدرہ میں تھا ، رات کے نو بج چکے تھے اور عوام کا سمندر دھیرے دھیرے لوئر مال کی طرف سرک رہا تھا، رفتار سے اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ کہیں رات ایک بجے اختتامی خطاب ہو گا، اس خطاب کا ہرکسی کو انتظار تھا، توقع تھی کہ نواز شریف اس میں انقلاب کے لئے بڑاا ور انقلابی اعلان کریں گے۔مگر ٹی وی ا سکرینوں پر ایک خفیف سی سطر نمودار ہوئی کہ کوئٹہ میں دھماکے کی آواز سنی گئی۔ یہ خبر اگلے آدھے گھنٹے تک یونہی چلتی رہی اور نواز شریف کا کارواں راوی پل کی رنگنائے کوعبور کر نے کی کوشش کر رہاتھا ۔
میں اخبار نوایس تو ہوں مگر سیاسی ورکر نہیں ، نہ نواز شریف کا دوست، نہ دشمن ۔میں نے سوچا کہ صبح اٹھ کر انقلابی اعلان کی جھلکیاں دیکھ لوں گا اور ٹی وی بند کر دیا، کمرے کی بتیوں کا سوئچ آف کر دیا۔
آنکھ کھلی، ٹی وی آن نہیں کر سکتا تھا کہ کمرے م میں بچے ارو دیگر اہل خانہ سوئے ہوئے تھے، اپنے فون پر انٹرنیٹ پر نگاہ دوڑائی، کہیں انقلاب کی جھلک تو دکھائی نہ دی مگر سیاہ رنک کے حاشیوں میں کوئٹہ دھماکے کی تفصیل ضرور درج تھی،دل تھام کر انہیں پڑھا، نو فوجی جان شہادت نوش کر چکے تھے ا ور درجنوں زخمی، کسی دہشت گرد نے تاک کر فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔
ایک روز پہلے آرمی چیف نے کہا تھا کہ ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں امن ہو گا اور قانون کی حکمرانی ہو گی، لازمی طور پر یہ ایک بڑا علان تھا مگر دہشت گردوں نے اسے اپنے لئے چیلنج تصور کیا۔
مجھے خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ نواز شریف کے قافلے میں شامل وزیر داخلہ احسن اقبال ا ور بلوچستان کے وزیر اعلی نواب ثناا للہ زہری رات ہی کو کوئٹہ پہنچ گئے تھے۔ اپنے لیڈر کی فائنل تقریر سننا ان کے لئے فرض عین تھا مگر فرض منصبی ان پر غالب آیا، پتہ نہیں دونوں کس طرح رات کی تاریکی میں ایک پر خطر سفر کر کے کوئٹہ کے ہوئی ا ڈے پر اترے، انہوں نے جائے حادثہ کا معانہ بھی کیا اور ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ اگلے رواز ا یک اعلی سطحی اجلاس بھی منعقد کیا گیا جس میں سیکورٹی صورت حال کاجائزہ لیا گیا۔
وزیر اعلی بلوچستان کی کوئٹہ روانگی کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے مگر اس ملک کے وزرائے داخلہ کم ہی دور دراز کے حادثات کی خبر لینے جاتے ہیں، اسی کوءئٹہ میں دوسولاشیں لے کر لوگ ہفتوں تک شدید ٹھٹھری راتوں کے باوجود دھرنا دیئے بیٹھے رہے مگر حکومت کے کسی ذمہ دار نے انہیں در خور اعتنا نہ سمجھا، بالآخر وزیر اعظم ان کے درمیان دھرنے میں جا کر بیٹھے تو لواحقین میتوں کو دفنانے پر راضی ہوئے تھے۔
میں نواز شریف کی فراستا ور فہم کی بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے داتا صاحب کے خطاب میں اپنا انقلابی اعلان نہیں کی اورا سے چودہ اگست پر ملتوی کر دیا اور یہ تاحال ملتوی چلا�آرہا ہے، اس کی ایک وجہ تو کوئٹہ کا سانحہ ہے، دوسرے ملک کو درپیش سیکورٹی خطرات بھی ہیں جن کی طرف چودھری نثار اشارہ کر چکے ہیں۔
حالیہ دھماکے میں فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا، اس لئے عام حالات میں فوجی حادثے کو فوج کی نگرانی پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ایک بار لاہور کینٹ کے آر اے بازار میں فوجی گاڑی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ۔ رانا ثنا اللہ جو صوبے کے وزیر قانون اور وزیر داخلہ بھی تھے، آر اے بازار پہنچے مگر ایک خاص حد سے آگے نے انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا گیا ، انہوں نے بہتیرا کہا کہ وزیر قانون اور وزیر داخہ ہوں مگر ان کی کسی نے ایک نہ سنی، اس لحاظ سے کوئٹہ کے حالیہ دھماکے میں وزیر داخلہ احسن اقبال نے فرض شناسی کا ثبوت دیاا ور وہ کوئٹہ جا پہنچے۔ احسن اقبال کا کوئٹہ کے فوجی حادثے کی سنگینی کو محسوس کرنا اس پس منظر میں اور بھی قابل ستائش تھا کہ ا نہیں مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا تھا اور قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جب مشرف نے یوسف رضا گیلانی کی کابینہ سے حلف لیا تو اس میں احسن اقبال نے بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر تقریب میں حصہ لیا تھا مگر یہ بات تو تب کی تھی، اب یہی احسن اقبال ملک کے وزیر داخلہ تھے اور یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ پاک فوج کے جوانوں کے جسموں سے گرم تازہ خون کے فوارے ابل رہے ہوں اور وہ احتجاجی جلسے کے اسٹیج کی زینت بنے بیٹھے رہیں ، انہوں نے اپنی ذمے داری کو محسوس کیاا ور کسی کے انتظار کے بغیر کوئٹہ کا رخ کر لیا، وہ کوئٹہ میں آرمی چیف سے بھی پہلے پہنچے۔
یہ سب اتفاقیہ بات بھی ہو سکتی ہے مگر اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ سول حکومت نے اپنی ذمے داری کو پس پشت نہیں ڈالا۔ وزیر داخلہ نے بھی انشی ا یٹو لیاا ور وزیر اعلی نے بھی قائدانہ رول ادا کیا۔ یہ لوگ ذرا سی سستی دکھاتے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارے ٹی وی چینل کے تجزیہ کار انہیں نوچ نوچ ڈالتے۔
پاکستان میں سویلین بالادستی قائم کرنے کی خواہش تو ہر ایک کے دل میں ہے مگر بہت کم ایسے ہیں جو اس بالا دستی کے عملی قیام کے لئے کوئی قدم بھی اٹھائیں۔میں داد دیتا ہوں نواز شریف کو کہ جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو بچوں کو شہید کیا گیا تو وہ سب مصروفیات ترک کر کے پشاور جا پہنچے، عمران خان کا بھی شکریہ کہ انہوں نے دھرنا سمیٹ دیا اور پاکستان کی ساری سیاسی اور جمہوری قوتوں کا شکریہ کہ وہ سب پشاور کے گورنر ہاؤس میں پہنچے اور وہاں سے تب اٹھے جب نیشنل ایکشن پلان پر دستخط ہوئے اور ساری قوم اپنی مسلح افواج کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو گئی۔اس کے بعددنیا کے سارے دہشت گرد مل کر بھی اس قومی قوت کو چت نہیں کر سکتے تھے۔
احسن اقبال نے ایک ایسے وقت میں انشی ایٹو لیا جب سول اور ملٹری تناؤ حد سے بڑھا ہوا تھا۔ ڈان لیکس کے بعد سے اس کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ پانامہ کے جھگڑے، جے آئی ٹی کی کاروائی اور عدالتی فیصلے نے شکو ک و شبھات کے بادل گہرے کر دیئے، اگرچہ نواز شریف کسی کا نام نہیں لے رہے تھے مگر وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ منتخب وزرائے ا عظم کو آج تک ٹرم پوری نہیں کرنے دی گئی جب کہ گیارہ گیارہ سال تک مطلق العنان بننے والے فوجی آمروں کا کسی عدالت نے احتساب نہیں کیا۔ اس فضا میں احسن اقبال نے جو قدم اٹھایا، یہ ایک بہت بڑا قدم تھا اور اس نے واضح کر دیا کہ قومی معاملات میں ہم سب ایک ہیں، متفق ہیں ،متحد ہیں، شانہ بشانہ ہیں۔
میں تو کہوں گا کہ ہر وقت با لادستی کا شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں، آپ کو بالادستی بھییک میں نہیں مل سکتی، اس کے لئے آپ کو انشی ایٹو لینا پڑے گا، کنٹرول لائن یا ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ ہو جائے تو اس کے لئے یہ انتظار کیوں کہ وہاں صرف آرمی چیف ہی دورہ کریں، بلکہ وہاں حلقے کے ایم پی اے ، ایم این اے، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو بھی دورے میں پہل کرنی چاہئے۔پھر آپ یہ شور کیوں مچاتے ہیں کہ ملک کی دفاعی اورخارجہ پالیسی سویلین کے ہاتھ میں نہیں ہے، اس لئے کہ جب ملک میں ایک پارلیمنٹ موجود ہے تو اسے بحث مباحثہ کر کے یہ پالیسیاں خود بنانا چاہیءں اور جہاں دقت پیش آ رہی ہو تواس صورت میں عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے رائے لے لیں، سعودی عرب ، کویت ، قطر ، یمن ،شا م کے بحران آئے تو اس میں ہماری پارلمنٹ نے اپنی رائے منوائی اوراس پالیسی کو عوام نے بھی سراہا کہ ہم کسی کے جھگڑے میں الجھے نہیں ہیں، رہا مسئلہ حرمین شریفین کی حفاظت کاتو اس پر کسی سے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے، یہ تو ہر مسلمان کا فرض ہے اور اگر خدا نخواستہ ایسی نوبت آئے تو حکومت کو حکم جاری کرناچاہئے کہ ہماری أفواج فوری حرکت میں آئیں اور ان مقدس مقامات کا تحفظ کریں۔
بہر حال وزیر داخلہ احسن اقبال نے تما م تر بحثوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے اور ان کی ستائش ہر ادارے نی کی ہے، میرا خیال ہے کہ کوئٹہ میں انہیں کسی ملٹری پولیس نے نہیں روکا ہو گا کہ فوجی زخمیوں کی عیادت نہیں کر سکتے۔
میراا یک خیال یہ بھی ہے کہ اگر ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال ل اور سرکشی سے سویلن بالادستی پر کوئی زک نہیں پڑتی اور کلرکوں کی ملک گیر ہڑتال سے بھی سویلین بالادستی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا تو کبھی کبھار جی ایچ کیو سے کشمکش پر بھی خوف کھانے کی کیا ضرورت!