پاناما کیس : سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر نعیم بخاری کے دلائل جاری
تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، رپورٹ پر اپنی معروضات پیش کروں گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا:پی ٹی آئی وکیل
اسلام آباد:(دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت، وزیراعظم نے اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرا دئیے، تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دینا شروع کر دئیے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت ہوئی تو وکلا کے شور پر عدالت نے اظہار برہمی کا اظہار کیا اور خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، رپورٹ پر اپنی معروضات پیش کروں گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا، جے آئی ٹی رپورٹ آنے پر اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے،انہوں نے کہا رپورٹ میں طارق شفیع کے بیان حلفی کو جعلی قرار دیا گیا، گلف سٹیل کے شیئرز فروخت کرنے کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا گیا، حسین نواز اور طارق شفیع کے گلف سٹیل سے متعلق بیانات میں تضاد ہے، رپورٹ میں قطری خاندان کو 12 ملین درہم دینے کو افسانہ قرار دیا۔ نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا مریم نواز نے تسلیم کیا کہ انھوں نے بیئرر سرٹیفکیٹ نہیں دیکھے، جےآئی ٹی کے مطابق مخصوص فونٹ مارکیٹ میں موجود نہیں تھا، ٹرسٹی کیلئے لازم تھا کہ مریم نواز کے پاس آف شور کمپنی کے سرٹیفکیٹ ہوتے، نواز شریف نے بیان میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، شریف خاندان 1993 سے 96 کے درمیان لندن فلیٹ میں رہ رہا تھا، شریف فیملی کے اثاثوں کی تقسیم میں لندن فلیٹس کا ذکر نہیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا شہباز شریف بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کا بیان ایسا ہے جیسے پولیس افسروں کے سامنے ریکارڈ کیا گیا ہو، شہبا زشریف کے بیان کا دائرہ کار کیا ہوگا، اس کا جائزہ ضابطہ فوجداری کے تحت لیا جاسکتا ہے۔ نعیم بخاری دلائل دہتے ہوئے مزید کہا التوفیق کمپنی کے فیصلے میں الثانی خاندان کا ذکر نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا عدالتی فیصلے میں قطری خاندان کا ذکر کیوں ہوتا، نعیم بخاری نے کہا عدالت فیصلہ کرے نا اہل کرنیوالے ججز کے ساتھ اتفاق کرنا ہے یا نہیں ؟، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نا اہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھا، جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا جے آئی ٹی کو سعودی عرب سے قانونی معاونت نہیں ملی، رپورٹ میں ذرائع کی معلومات کا بھی ذکر کیا، جسٹس اعجٓز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ذرائع کی دستاویزات مصدقہ ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا وہ دستاویزات تصدیق شدہ نہیں لیکن جے آئی ٹی نے درست قرار دیں۔ نعیم بخاری نے مزید کہا کہ وزیراعظم جدہ سٹیل ملز کی فروخت کی دستاویزات دینے میں نا کام رہے، جدہ فیکٹری 63 ملین کے بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، جے آئی ٹی نے قرار دیا حسین نواز جدہ مل کے اکلوتے مالک نہیں تھے، عباس شریف اور رابعہ شہباز بھی جدہ فیکٹری کے حصہ دار تھے۔ انہوں نے کہا دوستوں سے قرض لینا بھی ثابت نہیں ہوا، نواز شریف نے حسین نواز کو 7.5 لاکھ ریال سعودی اکاؤنٹ سے بھیجے، جے آئی ٹی کو ہل میٹل آڈٹ رپورٹ بھی نہیں دی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا جے آئی ٹی نے ہل میٹل کے حوالے سے دستاویزات استعمال کیں، جن دستاویزات پر انحصار کیا گیا وہ تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا ایف زیڈ ای کمپنی کے دستاویزات قانونی معاونت سے ملے، کمپنی سے نوازشریف کا اقامہ بھی جاری کرایا گیا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نوازشریف کے اقامے کی مدت 2015 تک تھی، نعیم بخاری نے کہا حسن نواز کے مطابق کمپنی 2014 میں ختم کر دی گئی تھی، جےآئی ٹی نے نوازشریف کا کمپنی کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ بھی لگایا ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا نوازشریف کا اقامہ کہاں ہے؟، نعیم بخاری نے کہا نوازشریف کا اقامہ جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔ نعیم بخاری نے مزید کہا کہ نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین بورڈ تھے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ریکارڈ کے مطابق نوازشریف کو تنخواہ ملتی رہی، ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ تنخواہ ہر ماہ نہیں ملتی تھی، نعیم بخاری نے کہا نوازشریف کی تنخواہ 10 ہزار درہم تھی، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیا جےآئی ٹی قانون کے مطابق دستاویزات پاکستان لے کر آئی؟، نعیم بخاری نے کہا کہ اس کا جواب جےآئی ٹی ہی دے سکتی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ضرورت پڑی تو والیوم 10 کو بھی پبلک کر دیں گے، ہر چیز صاف اور شفاف ہونی چاہیے۔