خبرنامہ

سیکورٹی کو غیر معمولی خطرہ لاحق نہیں. جنرل غلام مصطفی کا تجزیہ…..کالم اسداللہ غالب

جنرل غلام مصطفی شوقیہ تجزیہ کار نہیں بن بیٹھے، ان کی سوچ کے پیچھے ایک بیش بہا تجربہ اور عمیق مشاہدہ ہے، وہ منگلا کور کے کمانڈر رہے جو اسٹرائیک کور ہے، پھر انہوںنے مسلح افواج کے لئے ایک دفاعی کمان کا آئیڈیا پروان چڑھایا، وہ اس کے بانی سربراہ بنے ا ور اس منصب پر دو مرتبہ فائز ہوئے ۔وہ لاہورکے کمانڈر بھی رہے اور دشمن کی جارحانہ چالوں کے دفاع کی حکمت عملی پر بھی انہیں عبور حاصل ہے۔ وہ ان دنوں ہر ٹی وی چینل پر سکیورٹی امور کے تجزیئے پیش کرتے ہیں اور ان کی منطق سے کسی کو اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی، ا س لےے کہ وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں،وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہتے ہیں مگر پاکستان کے لئے مکمل جانبدار۔ کوئی ا ن کی سوچ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا،کوئی ان کے ضمیر کو خرید نہیں سکتا، یہ ضمیر ان کے ملک اور ان کی قوم کی امانت ہے۔ اسی لئے انہوںنے میرے ساتھ ٹرمپ کی دھمکیوں اور بریکس کے بدلے بدلے رویئے پر تفصیل سے بات کی اورکئی بھید کھول دیئے۔ان سے بات اگلوانے کے لئے ان کو کریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ ایک موج رواں کی طرح تبصرے کا آغاز کرتے ہیں ، پھر وہ غوطہ لگاتے ہیں اور سوچ کے سمندر سے فکر وخیال کے نایاب گوہر تلاش کر لاتے ہیں۔ وہ سادہ مزاج کے مالک ہیں۔ ان میں جرنیلوں والا کرو فر نہیں۔ مگر ان کا لہجہ بہرحال محکم، منطق اور حکمت سے لبریز اور حب الوطنی سے معمور ہوتا ہے۔میں انہیں ایک سچاا ور کھرا پاکستانی سمجھتا ہوں اور ان سے دوستی پر فخر کرتا ہوں۔
جب کوئی مسئلہ ٹیڑھا نظر آ رہا ہو تو میری عادت ہے کہ میں ماہرین سے رجوع کرتا ہوں، ٹرمپ کی دھمکیوں اور بریکس کی قرارداد کے بعد پاکستان کن خطرات سے دوچار ہے اور ہم ان سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں، یہ سمجھنے کے لئے میں نے لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی کو چائے کی ٹیبل پر مدعو کیا، ساتھ ہی کئی دانش وروں اور سینئر صحافیوں کو بھی۔
اپنے تجزیئے کے شروع ہی میں جنرل صاحب نے پاکستان اور دنیا کو درپیش بحرانوں کی طرف اشارے کئے اور یہ کہا کہ اس طرح کی صورت حال نہ تو پہلی مرتبہ پیش آئی ہے اور نہ آخری مرتبہ، دنیا میں ایک کشمکش ہمیشہ سے جاری ہے اور امن اس مختصر سے وقفے کا نام ہے جو دو جنگوں کے درمیان آتا ہے۔ باقی سارا عرصہ تنازعات اور الجھاﺅ میں گزرتا ہے، البتہ جنگ کے میدان بدلتے رہے ہیں ، کبھی لاطینی امریکہ نشانہ بنتا ہے، کبھی مڈل ایسٹ، کبھی افریقہ اور کبھی ایشیا۔
جنرل مصطفی نے اپنی بصیرت اور گہرے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ امریکہ کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں، وہ ہمار ابازو مروڑنے کے لئے ہماری کمزور اور نحیف اور لاغر معیشت کو ٹارگٹ کرے گا جو فی الوقت آکسیجن پر چل رہی ہے ، امریکہ اس آکسیجن پائپ کا ڈھکن بند کر کے اپنا الو سیدھا کر سکتا ہے۔ امریکہ کو اصل بیر ہے تو ہمارے ایٹمی اسلحے کے ذخائر سے ہے، وہ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے ۔ مگرخاطر جمع رکھئے ہماری قوم اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتی ہے، پاکستانی قوم بڑی عظیم ہے،وہ ارادہ کر لے تو پہاڑوں سے ٹکرا سکتی ہے، اس نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی تو ساری دنیاکا بیر مول لے لیا۔ ہمارے دشمن ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کی جان کے در پے تھے مگر ہمارے سیکورٹی حصار نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ان سائنس دانوں کی مکمل حفاظت کی اور یوں پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن گیا۔ یہ ہر ایک کے دل میں کھٹک رہا ہے۔مگر یقین رکھیئے کہ پاکستان اپنی حفاظت کے قابل ہے۔اس کے لئے ہمیں کسی سے لڑنے بھڑنے کی ضرورت نہیں ، اپنی معیشت کو بحال کرنا ہے، اسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ہے۔ دنیا میں اس وقت ساری جنگ معیشت کے لئے ہے۔عالمی طاقتوں کی نظریں بحیرہ کیسپیئن پر ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں سعودی عرب سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں اور قطر سے زیادہ قدرتی گیس کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ کامنصوبہ خاموشی مگر تیزی سے مکمل کر لے، سی پیک بھی چین کامنصوبہ ہے ، ہمارا نہیں، اسی لئے ہمارے پاس اس کا کوئی بلیو پرنٹ نہیں ۔ اس کے مالی معاملات میں نواز شریف اور آصف زرداری کو ہی چین نے اعتماد میںلیا ہے مگر اس کی سیکورٹی کی ضمانت افواج پاکستان نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
جنرل غلام مصطفی نے یہ کہہ کر حاضرین کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ چین کی پاکستان سے دوستی تو ہے لیکن عشق نہیں ، اسے اپنا مفاد عزیز ہے ، وہ پاکستان کی خاطر کسی سے تصادم مول نہیں لے گا، ایران کے ساتھ اس کی ڈیڑھ سو بلین کی تجارت ہے اور توازن چین کے حق میں ہے، بھارت کے ساتھ ایک سو دس ارب کی تجارت ہے اور یہاںبھی توازن چین کے حق میں ہے، امریکہ کے ساتھ تو ارب ہا ڈالر کی تجارت ہے، اس لئے وہ پاکستان کی خاطر امریکہ، روس حتیٰ کہ ایران اور بھارت سے بھی تعلقات خراب نہیں کرے گا، چین نے تو برما کو کثیر امداد دی ہے اور آپ نے دیکھا کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے سلسلے میں چین نے برما کی مذمت کے لئے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ ہر ملک کے مفادات ہیں ، کوئی ملک پاکستان کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح نہیں دے گا اور یہی بات ہمارے محل نظر رہنی چاہئے۔ یہ تشویش کی بات ہے مگر ہم اپنے مفاد کی حفاظت کر سکتے ہیں بشرطیکہ کرنا چاہیں۔ اس وقت ہماری حکومت جمہوری انداز اختیار کئے ہوئے ہے، نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کابینہ کے اجلاس طلب کئے ہیں ، قومی سلا متی کونسل کا اجلاس بلایا ہے، سفیروں سے مشاورت کی گئی ہے اور پارلیمنٹ میں بھی نئے خدشات،خطرات اور مضمرات پر غورو خوض کیا جائے گا۔یہ صحیح پارلیمانی، جمہوری رویہ ہے، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی اپنی جگہ پر متحرک ہیں اور یہ عمل جاری رہا تو ہمیں کسی سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
پانامہ لیکس کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے جنرل غلام مصطفی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا شورو غوغا ہمارے ہاں سب سے زیادہ ہے جبکہ حقیقت میں پانامہ لیکس نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میں بھونچال برپا کر دیا ہے، عالمی سطح پر سی آئی اے، کے جی بی، موساد، را جیسی ایجنسیاں آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپناا لو سیدھا کرتی ہیں ، جعلی فرموں کے نام سے پیسے اپنے کارندوں تک منتقل کرتی ہیں، اب ان کا سارا کاروبار عیاں ہو گیا ہے اور ان ایجنسیوں کو سارا غصہ پانامہ لیکس کے پس پردہ ذمے دارعناصر پر ہے، ان سے پرخاش ہے، کھلی دشمنی ہے۔ ان کا سارا کاروبار چوپٹ اور عیاں ہو گیا ہے اس لئے پانامہ لیکس والوں کو اپنی جانیں بچانامشکل ہو رہا ہے۔ اب ایک نئی بات سنیئے ، آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے، جنرل غلام مصطفی نے کہا کہ وہ ایک بار چین کے دورے پر گئے توان سے پوچھا گیا کہ کشمیر کی آزاد خود مختار ریاست کے بارے میں کیا خیال ہے، اسی پس منظر میں جنرل صاحب نے کہا کہ مودی نے پچھلے دنوں پہلی بار گلگت بلتستان کی بات چھیڑی ہے اور ان کو بھی حقوق دلوانے کا وعدہ کیا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ کشمیر کے مختلف حل پیش کئے جاتے ہیںمگر اس سے پہلے کہ عالمی شاطر طاقتیں اپنا فیصلہ نافذ کریں ، پاکستان اور بھارت کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا باہمی رضامندی سے کوئی آبرو مندانہ اور دونوں کے لئے قابل قبول فیصلہ کر لینا چاہئے یہی پاکستان اور اس خطے کے لئے بہتر ہو گا۔
باتیں اور بھی ہوئیں ، پوری تفصیل کے بجائے خلاصہ پر اکتفا کر رہا ہوں، تقریب کااختتام حسب معمول پروفیسر سید محفوظ قطب کی کیلی گرافی کے تحفے پر ہوا جو انہوںنے جنرل صاحب کو ہدیہ کیا، اس میں اسم محمد تحریر کیا گیا تھا اور رنگ و نور میں نہائی ہوئی یہ خطاطی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل و جا ں کو راحت پہنچا رہی تھی۔