دمشق: (ملت+آئی این پی) خانہ جنگی کا سامنا کرنے والے ملک شام میں مبینہ کیمیکل حملوں میں صدر بشار الاسد اور ان کے بھائی سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں کے براہ راست ملوث قرار دیدیا گیا ،عالمی تحقیقاتی رپورٹ میں بشارالاسد اور ان کے بڑے بھائی کو شام میں مبینہ طور پر 2014 اور 2015 میں ہونے والے کیمیکل حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔غیر ملکی خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عالمی ادارےآرگنائزیشن فار دی پراہبیشن آف کیمیکل ویپنز (او پی سی ڈبلیو)اور اقوام متحدہ کی جانب سے کی جانے والی مشترکہ تحقیقات کے دستاویزات سے پتہ چلاہے کہ کیمیکل حملوں کے ذمہ دار بشارالاسد اور ان کے بڑے بھائی ماہیر سمیت دیگر اعلی حکومتی عہدیداران ہیں۔خبر رساں ایجنسی نے دعوی کیا کہ کیمیکل حملوں سے متعلق ہونے والی عالمی مشترکہ تحقیقات کے دستاویزات رائٹرز نے دیکھے ہیں، جن میں حملوں کا ذمہ دار بشارالاسد کو بھی ٹھہرایا گیا ہے۔ادارے نے عالمی تحقیقات کا حصہ رہنے والے افراد کو اپنا ذرائع بتاتے ہوئے کہا ہے کہ کلورین گیس یا کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ بشارالاسد، ان کے بھائی اور حکومت کے اعلی عہدیداران نے کیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے بشارالاسد سے تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا، البتہ شامی حکومت کے عہدیداروں نے تسلیم کیا کہ حکومتی فوج کی جانب سے کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات سچے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شام میں کیمیکل حملوں سے متعلق مشترکہ تحقیقات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت حاصل تھی، تحقیقاتی ٹیم کی سرپرستی ورجینا گامبا نے کی جبکہ مشترکہ ٹیم میں غیر جانبدار ماہرین اور تکنیکی لوگ بھی شامل تھے۔واضح رہے کہ رائٹرز نے گزشتہ روز بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ شام میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال میں ملوث شام کے 18 اعلی فوجی افسران کے ناموں کو امریکا نے بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ادارے نے رپورٹ میں کہا تھا کہ مشترکہ تحقیقات میں شام کی فوج کو عام افراد پر کلورین گیس سے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ادارے کے مطابق شامی صدر ہمیشہ کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔خیال رہے کہ کلورین گیس کے استعمال پر کیمیکل ویپنز کنونشن کے تحت پابندی عائد ہے، کلورین گیس سانس کی نالیوں کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہونے کے بعد ہائڈرو کلورک ایسڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے، جس سے انسان کا جسم جھلس جاتا ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔شام کی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے باعث 1300 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے، جس میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی شامل تھی۔شام کے صدر بشارالاسد اور حکومت نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔واضح رہے کہ شام کے شہر حلب میں گزشتہ ماہ شامی فوج نے کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد ترکی اور روس کے تعاون سے باغیوں اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا تھا۔جنگ بندی کی پاسداری کے بعد ترکی اور روس قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن مذاکرات کے انعقاد کی کوششیں کررہے ہیں اور حالات معمول کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔