شاہد مسعود کو دعوؤں کا ثبوت پیش کرنے کیلئے 8 بجے تک کی مہلت
لاہور: سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو اپنے دعوؤں کا ثبوت پیش کرنے کیلئے رات 8 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے ان کے الزامات پر نئی جے آئی ٹی بھی بنادی ہے، جب کہ زینب کے والد اور وکیل کے میڈیا سے گفتگو کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔
سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں 8 سالہ کمسن زینب قتل کیس پرلیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور ملک پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ نجی ٹی وی کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود، زینب کے والد محمد امین، جے آئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس، آئی جی پنجاب، ڈی جی فرانزک اور 12 سینیئر صحافی عدالت میں پیش ہوگئے۔
عدالتی حکم پر ازخودنوٹس سے پہلے اور بعد میں کیے گئے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام کی فوٹیج چلا دی گئی۔ چیف جسٹس نے اینکر کو کہا کہ جو کچھ آپ نے کہا اسے ثابت بھی کرنا ہے۔ رات کو آپ کا پروگرام دیکھا تو فوری نوٹس لیا تاکہ اتنے الزامات کے بعد ملزم کو قتل نہ کر دیا جائے، اپنے دعوؤں کے ثبوت پیش کریں۔ تاہم ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب کیس کی تفتیش پر بات کرنی شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی سے پوچھیں کہ ملزم نے بچی کو کہاں رکھا، قصور سے پورنو گرافی کی تین سو ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں، بچی پر تشدد کیا گیا اور اجتماعی زیادتی کی گئی مگر ایک ہی ملزم کو شامل کیا گیا، یہ اس گینگ کو بچانا چاہتے ہیں جس کو انہوں نے پالا ہے، اگر میری بات پہ یقین نہیں تو میں چلا جاتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے غیر متعلقہ باتیں کرنے پر اینکر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں، یہ تفتیش اور پراسیکیوشن کا معاملہ ہے، آپ نے جن اکاؤنٹس کی بات کی ان کا کوئی وجود نہیں، آپ شہادت پر اعتراض کر رہے ہیں، اپنے الزامات پر رہیں اور اپنے موقف کی حد تک بات کریں اور ایسی بات مت نہ کریں جس سے تفتیش پر اثر پڑے، آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کے اتنے الزامات تفتیش کا رخ تبدیل کر سکتے ہیں، ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے، اب ہم اپنی جے آئی ٹی بنا رہے ہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی بنی لیکن آپ اس کے سامنے پیش نہ ہوئے، جو آپ نے بتایا آپ اسے ثابت نہ کرسکے، اب آپ نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں۔
شاہد مسعود نے کہا کہ مجھے بات کرنے نہیں دیں گے تو میں چلا جاتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں چلے گا ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے، ثبوت پیش کرنے تک آپ یہاں سے جا نہیں سکتے۔ شاہد مسعود نے کہا کہ میں راؤ انوار کی طرح نجی طیارے پر فرار ہو جاؤں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بھاگنے کی کوشش کی تو آپ کا نام ای سی ایل ڈالنے کا حکم دے دیں گے، اگر الزام ثابت ہوا تو آپ کو بہترین صحافی کا اعزاز ملے گا، الزام ثابت نہ کیا تو آپ کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی، کیس کی تحقیقات کرنا آپ کا کام نہیں ، تفتیشی ٹیم کا کام ہے۔
شاہد مسعود نے کہا کہ مجھے کچھ وقت چاہیے، تو چیف جسٹس نے کہا کہ رات 8بجے تک کیس کی سماعت جاری ہے آپ تب تک ثبوت پیش کردیں، آپ کی بات غلط ثابت ہوئی تو توہین عدالت کی سزا بھگتنا ہوگی، آپ کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہوں گی اور آرٹیکل 79 کے تحت بھی کارروائی ہوگی۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کیلئے نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی جبکہ زینب کے والد اور وکیل کی میڈیا سے گفتگو پر پابندی عائد کردی۔ عدالت نے زینب کے والد کو ہدایت کی کہ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
کیس کی جے آئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس اپنی تفتیشی ٹیم سمیت عدالت میں پیش ہوئے تو فل بنچ نے استفسار کیا کہ چالان کتنے دنوں میں پیش کر دیا جائے گا۔ تفتیشی ٹیم نے 3 ماہ کی درخواست کی تاہم عدالت نے کیس کا چالان جلد از جلد جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 90 دن کا وقت نہیں دے سکتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عمران ہی اصل ملزم ہے تو جے آئی ٹی نے یقین دہانی کرائی کہ عمران ہی اصل ملزم ہے۔
واضح رہے کہ اینکرشاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کے37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے جب کہ ملزم کے پیچھے کسی بڑی شخصیت یا رکن اسمبلی کا ہاتھ ہے تاہم اسٹیٹ بینک نے اینکرکے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم عمران کا کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ملا۔