خبرنامہ

شاہی مسجد لاہور کے صحن سے شاہ فیصل کے آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے…اسد اللہ غالب

شاہی مسجد لاہور کے صحن سے شاہ فیصل کے آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے…اسد اللہ غالب

سعودی عرب کے اسلام آباد کے سفارت خانے کی طرف سے وضاحتی پریس ریلیز جاری کی گئی ہے کہ اس نے پاکستان کو کوالالم پور کانفرنس میں شرکت سے روکنے کیلئے کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔صورت حال جاننے کے لئے پریس ریلزکاپورا متن پڑھنا ضروری ہے۔
پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانہ نے میڈیا پر چلنے والی اس بے بنیاد خبر کی تردید کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور پاکستان کو دھمکی دی ہے۔
لہٰذا سفارتخانہ وضاحت کرتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو، اس لیے کہ یہ گہرے تز ویراتی تعلقات ہیں جو اعتماد، افہام وتفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
سفارت خانہ یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تاکہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔
سعودی عرب کو دفاعی پوزیشن پر لانے کا سہرا پاکستانی میڈیا کے سر سجتا ہے جو ہر اوٹ پٹانگ بات کو خبر اور ہر بے بنیاد بیانیئے پر اصرار کر کے فریق مخالف کوزچ کر کے رکھ دیتا ہے۔میں اپنی طرف سے پاکستانی میڈیا کے اس غیر ذمے دارانہ رویئے سخت شرمندہ ہوں اور پاکستانی میڈیا نے مجھے چیلنج کیا تو میں اس کے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کی تفصیلات پر مبنی انسائیکلو پیڈیا مرتب کر سکتا ہوں۔
اگر ہمارا میڈیا صرف ان تاریخوں پر نظر ڈالے جب وزیر اعظم سعودی عرب گئے اور جہاں سے انہیں ملائیشیا روانہ ہونا تھا اور ان تاریخوں کو بھی پیش نظر رکھے جب مشرف کے خلاف مختصر اور پھر تفصیلی فیصلہ آیاا ور دونوں مرتبہ افواج پاکستان کو سخت غم و غصے اوراضطراب کا اظہار کرنا پڑا۔ اس تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی میڈیا خود اندازہ لگا سکتاتھا کہ وزیر اعظم نے جہا زکا رخ واپس پاکستان کی طرف کیوں موڑا اور وہ یہ بھی سوچ لیتا کہ کیا ایسی صورت حال میں وزیر اعظم کو ملائیشیا کی طرف پرواز جاری رکھناچاہئے تھی۔ ملائیشیا میں ایک اہم سمٹ تھی مگر اس میں پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ امت مسلمہ کی آواز کوبااثر بنانے کے لئے عالمی سطح کا ایک ٹی وی چینل کیسے کھولا جائے۔ ایک احمق بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ ٹی وی چینل تو چند ماہ بعد بھی کھولنے پر غور ہو سکتا ہے مگر پاکستان کے سب سے بڑے ریاستی ادارے جو ملک کے دفاع کا ذمے دار اور مکلف ہے۔ اس کے اضطراب اور غم و غصے پر کیسے قابو پایا جائے۔ جب گھر میں آگ لگی ہو تو یہ کہاں لکھا ہے کہ اسے مزید بھڑکنے ا ور پھیلنے کا انتظار کیا جائے اور پہلے ایک ٹی وی چینل کھولنے کی تفصیلات طے کر لی جائیں۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے،۔ ان کے دورہ جاپان کے تمام انتظامات مکمل تھے۔ مگر اچانک لاہور کے علاقے اسلام پورہ میں ایک پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس لئے یہ سوچ کر کہ گھر کے اندر لاشوں کا ڈھیر لگا ہواور وزیر اعظم بیرونی سیر سپاٹے پر نکل جائیں، اس طرح یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا، بعد میں یہ دورہ دسمبر میں ہوا جس کے لئے جاپانی حکومت نے مجھے گیارہ روزہ مطالعاتی دورے کی دعوت دی تاکہ میں وزیر اعظم کے دورے سے قبل جاپانی حکومت اور معاشرے کی سوچ پر نظر ڈال سکوں۔ اس دورے پر روانگی سے قبل جاپانی سفیر نے مجھے اسلام آباد لنچ پر مدعو کیا۔ باقی باتوں کے علاوہ سب سے پہلے تو انہوں نے اس امر پر گہرے تاسف کا اظہار کیا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے دورے کے لئے بڑی محنت کی تھی مگر یہ دوڑہ منسوخ ہو گیا۔ اب اس بات کا تعین تاریخ کرے گی کہ کیا وزیر اعظم کے دورے کی منسوخی کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ مگر ملک کے وزیر اعظم نے گوارا نہ کیا کہ شہر لاہور کے قلب میں خونیں واردات ہو جائے اور وہ ورثا کو روتے پیٹتے چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جائیں۔ اب وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا کی منسوخی کو بھی ا سکے صحیح تناظر میں دیکھنا ضروری ہے اور پھر یہ فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیا جائے کہ عمران کا ملک واپسی کا فیصلہ درست تھا یا نہیں افواج پاکستان کے رد عمل کو نظر انداز کر دینا چایئے تھا،انہی دنوں بھارتی آرمی چیف پاکستان کو سخت نتائج کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے اوراس کے فوری بعد بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری سے خار دار باڑ ہٹانا شروع کر دی جس سے ان سطور کو لکھے ہوئے صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت یقینی طور پر اپنے اندرونی بحران کے پیش نظر اپنے عوام کو پاکستان کے خلاف الجھانا چاہتا ہے اور دفاعی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پندرہ روز کے اندر بھارت اپنے بکتر بند ڈویژن کے ساتھ چونڈہ کی طرف یلغار کر سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ اس سال فروری میں ایک میچ پڑا تھا جس میں نوبت میزائیل حملوں تک پہنچ گئی تھی مگر پاکستان نے اپنے بعض قریبی دوستوں کے مشورے پر تحمل کا مظاہرہ کیا مگر ضروری نہیں کہ اس بار بھی بھارت کوئی مذموم مہم جوئی کرے تو پاکستان پھر اپنے دوستوں کے مشورے پرکاں دھرے گا۔
چنانچہ جب وزیر اعظم کے جہاز کو ملائیشیا کی طرف اڑان بھرنا تھی تو ملک کے اندر اور باہر بحرانی کیفیت تھی۔ اس صورت میں وزیر اعظم جن کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن ہوتا ہے، وہ ملک سے غیر حاضر کیسے رہ سکتے تھے اور اس سے بھی قبل ملک میں ا داروں کے ٹکراؤ کو کیسے ہضم کر سکتے تھے۔ اگر میرا تجزیہ درست نہ ہو تو آپ ضرور سعودی عرب کو مطعون کریں مگر اس کے سفارت خانے نے بے بنیادپروپیگنڈے کی تردید جاری کر دی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے دوست اور قربت کے رشتوں میں استوار سعودی عرب کی زبان پر اعتبار نہ کریں۔ سعودی عرب ہماراا ٓزمودہ دوست ہے چین سے بھی زیادہ ہماری عقیدت سعودی عرب سے بنتی ہے کیونکہ یہ ایک تو حرمین شریفین کی سر زمین ہے اور دوسرے ا س ملک نے ہر آڑے وقت میں ہماری مد د کی ہے۔ میں سعودی نوازشات کوگنوانے لگوں تواسکے لئے کئی دفتر درکار ہیں۔ مگر تازہ تریں صورت حال میں سعودی عرب پہلا ملک ہے جس نے ہماری معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے لئے دو ارب ڈالر کی امدادد ی اور موخر ادائیگی کی شرط پر ہماری ضرورت کا پٹرول دینے کی حامی بھری۔ کیاہم اس قدر احسان فراموش ثابت ہوئے ہیں کہ ایک دم کسی تحقیق کے بغیر ملائیشیا سمٹ کو سبو تاژ کرنے کے لئے سعودیہ کو مطعون کرناشروع کر دیا۔ ہم احسان فراموش تو نہیں لیکن حقیقت ہے کہ ہماری صفوں میں کل بھوشن اور ریمنڈ ڈیوس کے چیلے چانٹوں کاایک لشکر گھس آیا ہے جو ہمیں اپنے حقیقی دوستوں سے محروم کر نے پر تلا ہوا ہے۔
دامن کو ذرا دیکھ۔ ذرا بند قبا دیکھ۔
ایک منظریاد دلانا چاہوں گا۔ لاہور میں اسلامی کانفرنس کی سمٹ ہوئی۔ اس کے شرکا میں اسلامی دنیا کے چوٹی کے حکمران شامل تھے۔ ان میں ایک شاہ فیصل شہید بھی تھے جو بادشاہی مسجد میں نمازجمعہ کی ادائیگی کے بعد امام صاحب کی کشمیریوں کے لئے رقت آمیز دعا برداشت نہ کر سکے اور ان کی ڈاڑھی آنسووں سے تر ہو گئی۔ یہ منظر پی ٹی وی نے لائیو دکھا یاتھا۔
شاہی مسجد کے صحن میں شاہ فیصل کی ہچکیاں آج بھی سنی جا سکتی ہیں۔