خبرنامہ

جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم کو صفائی کا موقع دینا تھا مگر انہوں نے کچھ نہیں دیا، سپریم کورٹ

اسلام آباد(ملت آن لائن)سپریم کورٹ کے پاناما عملدرآمد بینچ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی جب کہ شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 3 رکنی پاناما عملدرآمد بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد آج کیس کی دوسری سماعت کی جس میں شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے۔

سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں عدالت کی طرف سے پوچھے گئے 13 سوالات پڑھ کر سنائے۔

خواجہ حارث نے دلائل میں کہا حکم نامہ اس لیے سنایا کہ بتایاجائے جےآئی ٹی کوکس نوعیت کی تحقیقات سونپی گئیں، عدالت اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کر چکی ہے، سپریم کورٹ کے سوالات میں نواز شریف سے متعلق تحائف کاذکر تھا لیکن عدالت نے نوازشریف کے خلاف کسی مقدمےکو دوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس، قطری خط اور بیئرر سرٹیفکیٹ سے متعلق سوالات پوچھے، سپریم کورٹ نے جو سوالات پوچھے ان کے جواب مانگے گئے تھے۔

شریف خاندان کے وکیل کے دلائل پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا، کیا آپ کہناچاہتے ہیں کہ کسی پراپرٹی پر تحقیقات جے آئی ٹی کا دائرہ کارنہیں تھا؟ جسٹس اعجاز نے کہا کہ فیصلےمیں لکھا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہو تو اس کاجائزہ لیا جاسکتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنالیا جس پر جسٹس عظمت نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مزیدجائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا؟

شریف خاندان کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے 13 کے بجائے 15سوالات کر لیے، جو مقدمات ختم ہو گئے تھے ان کی بھی جانچ پڑتال کی گئی، التوفیق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے، دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بہت سارے معاملات اس کیس میں 13سوالوں سے مطابقت رکھتے ہیں، معاملات جانچے بغیر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی، لندن پراپرٹی سے متعلق منی ٹریل ایک معمہ ہے، پیسا کہاں سے آیا اور فلیٹس کیسے خریدے گئے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت میں حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل دائر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے ہونے والی تحقیقات کا 13سوالات سے کوئی تعلق نہیں تھا، جے آئی ٹی کو مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کا اختیار نہیں تھا، 13 سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا سفارش کر دی، سفارشات پر عمل کرنا ہے یا نہیں، اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل بات تو منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، لندن فلیٹس کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہو گا، میری یادداشت کے مطابق لندن فلیٹس پہلے مقدمات کا بھی حصہ رہے ہیں، جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں پہلے عدالت کئی بار حکم جاری کرچکی ہے، ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے، جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہو گا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حدیبیہ کیس تحقیقات میں شامل کرنا درست ہے یا نہیں، حتمی فیصلہ ٹرائل کورٹ کو کرنا ہے، رپورٹ کے کسی ایک حصے کو درست یا غلط کیسے قرار دے دیں؟

خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کو ایسے اختیارات نہیں دیئے تھےکہ حدیبیہ کیس کھولنےکی سفارش کی جاتی جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے صرف سفارشات پیش کیں، آرڈر عدالت نے جاری کرنا ہے، سب سوالوں کا جواب انکوائری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

خواجہ حارث کے دلائل میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ کہنا غلط ہے کہ موقع نہیں دیا گیا، آپ اپنی صفائی میں جو کہنا چاہتے تھے کہہ سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا، کوئی کہتا ہے یاد نہیں، کوئی کہتا ہے اکاؤنٹنٹ کو پتا ہو گا، حقائق چھپائے گئے، جوابات نہیں دیئے گئے، وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دیا گیا، وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کی یہ اپروچ تھی کہ کچھ نہ بتایا جائے، گلف اسٹیل مل کے مالک کے سوال پر کہا شاید حسن مالک ہوگا، یہ اپروچ رہی جے آئی ٹی میں، کہا گیا جو معلوم ہو سکے وہ جے آئی ٹی خود ہی کرے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن بھی لی اور سمجھ کر نوٹ بھی کر لی۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اگر تحقیقات کرکے سفارش کر دی تو کیا برا کیا؟ جے آئی ٹی سفارشات سے زیادہ عدالتی حکم اہم ہو گا۔

خواجہ حارث نے کہا جے آئی ٹی کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا، عدالت چاہے تو معاملے پر از خود نوٹس لے سکتی تھی، عدالت ہر مقدمے کا رکارڈ منگوا کر الگ جائزہ لے، کسی بھی مقدمے کا 13سوالات سے کوئی تعلق نہیں، عدالت خود بھی اپنے حکم سے باہر نہیں جا سکتی۔

جسٹس عظمت سعید کا خواجہ حارث کے دلائل پر کہنا تھا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں، ہم نظر ثانی درخواست نہیں سن رہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے آمدن سے زائد ہوں تو بھی صفائی کا موقع ملتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں تو منی ٹریل اور ذرائع آمدن کا پہلے دن سے انتظار ہے اور یہی بات تو ہم ایک سال سے کر رہے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کے لیے دروازے بند نہیں کر رہے، آپ نے اپنے جواب میں کسی دستاویز کی تردید نہیں کی، آپ اپنا جواب ہمارے پاس دے دیں، آپ جب چاہیں متفرق درخواست میں دستاویزات کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہل میٹل کی آمدن سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی تردید کی جب کہ جسٹس عظمت سعید کہنا تھا کہ ہل میٹل سے پیسے پاکستان کیسے آئے یہ بات آپ نے خود عدالت میں کہی تھی۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعظم کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ کوئی تنخواہ وصول کی جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کیا آپ کہتے ہیں کہ ان کے اوپر یہ الزام غلط ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ جی ہاں یہ الزام غلط ہے، کاغذات بھی یہی کہتے ہیں، وزیراعظم ایف زیڈ ای کے مالک ہیں اور نہ ہی کبھی تنخواہ لی، ایف زیڈ ای کمپنی حسن نواز کی ملکیت ہے۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ حسن نواز کا وزیراعظم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وزیراعظم حسن کے والد اور ایف زیڈ ای کے چیئرمین نہیں ہیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا وزیراعظم نے اقامہ نہیں لیا تھا؟ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جو باتیں جے آئی ٹی نے نہیں پوچھی تھیں وہ ہم نے پوچھ لیں، بات ختم۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف نہیں، وزیراعظم سے دستاویزات پر مؤقف نہیں لیا گیا، عدالت ایسی رپورٹ پر حکم جاری نہیں کرسکتی۔ خواجہ حارث کے مطابق جے آئی ٹی نے کہا کہ 45 ملین وزیراعظم کو (ن) لیگ سے واپس ملے، وزیراعظم سے یہ سوال پوچھا ہی نہیں گیا تھا، وزیراعظم سے ایف زیڈ ای کمپنی سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا، وزیراعظم نے کہا میرے تمام ذرائع آمدن گوشواروں میں موجود ہیں، وزیراعظم کی تنخواہ والے معاملے پر ابھی بات نہیں کروں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایک طرف کہا جاتا ہے کہ گھر میں ہر بات ہوتی ہے، دوسری جانب کہا گیا کہ لندن فلیٹ کس کی ملکیت ہیں علم نہیں، وزیراعظم فلیٹس میں جاتے رہتے ہیں اور ملکیت کا علم نہیں۔

شریف خاندان کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے تمام اثاثے عدالت کے سامنے رکھ دیئے ہیں، وزیراعظم کا الراجی بینک میں اکاؤنٹ موجود ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا، کیا وزیراعظم کا سعودی بنک میں اکاؤنٹ ہے؟

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ تفتیش ہونی چاہیے کہ مجھے دستاویزات کنفرنٹ کرانے کا موقع نہیں دیا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جلد نمبر 10 میں شواہد نہیں ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا آپ اصرار کریں گے تو جلد نمبر 10 کھول بھی دیں گے، شاید آپ کی ہی وجہ سے جلد نمبر 10 کو سربمہر رکھا گیا ہو۔

اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات جاری نہیں ہیں، ممکن ہے 60 دنوں میں جواب نہ آئے ہوں۔

پاناما عملدرآمد بینچ نے دوسری سماعت کے دوران بھی وقفہ لیا جس کے بعد شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانوناًباہمی معاونت کی درخواست پہلے ملکی سطح پر کرنی چاہیے، پرائیویٹ پارٹی سے بھی معاونت نہیں لے سکتے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ انگلینڈ میں کوئین کو تو چٹھی نہیں لکھیں گے، ایک حکومت دوسری حکومت کوخط میں بتائےکہ اکاؤنٹ ہے ہی نہیں تو یہ بھی باہمی تعاون ہوگا؟

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا صرف اس بنیاد پر دستاویزات تسلیم نہ کریں کہ حکومت نے نہیں دیں، دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں اور نیب قوانین کے مطابق حکومت کے زیراثر ادارے، افراد ہی حکومت کے زمرے میں آتے ہیں، نون میں لفظ غیر ملکی حکومت کی تعریف نہیں کی گئی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ غیر ملکی حکومت کو ہی دستاویزات کے لیے درخواست کی جاسکتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ قانونی معاونت افراد نہیں ریاستی اداروں کے درمیان ہوتی ہے، وفاقی حکومت یا حکومت کا نامزد ادارہ قانونی معاونت کا معاہدہ کر سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی معاونت کے معاہدے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، دیکھنا ہو گا کہ دستاویزات قانون شہادت کے مطابق ہیں یا نہیں جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سفارت خانے کی تصدیق کے بغیر دستاویزات کو درست نہیں مانا جاتا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ دستاویزات اصل ہوں تو سفارتخانے کی تصدیق ضروری نہیں۔

اس موقع پر دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سری لنکا کے ایک ریسٹورنٹ کا نام ’’منسٹری آف کریب‘‘ ہے، کیکڑوں کی وزارت کی چٹھی کا جواب پاکستان میں کونسی وزارت دے سکتی ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات کو متعلقہ حکومت کے ذریعے ہی ارسال کیا جانا ضروری ہے جس پر جسٹس اعجاز نے استفسار کیا، کہ کیا کوئی نجی فرم اپنے قوانین کے مطابق دستاویزات بھجوائے تب بھی اسے مسترد کیا جاسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ متعلقہ حکومت خود کسی نجی فرم کی خدمات حاصل کرے تو دستاویزات تسلیم ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی غیر ملکی حکومت سے براہ راست قانونی مدد نہیں لی، جے آئی ٹی نے دستاویزات کا حصول نجی فرم کے ذریعے کیا جس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ انگلینڈ اور سعودی حکومت میں لیگل فرمز نے دستاویزات فراہم کیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تصدیق کے بغیر کوئی دستاویز قابل قبول نہیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ اثاثوں کو تسلیم کیا گیا، اب دو ہی معاملات ہیں، ہم دیکھیں یا احتساب عدالت۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جے آئی ٹی اس لیے بنائی کہ وزیراعظم اور دیگر فریقین آزادی سے مؤقف اور ثبوت دے سکیں، جے آئی ٹی بنانے کا مقصد یہ بھی تھا کہ رکاوٹیں اور قانونی مشکلات نہ ہوں۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی ریفرنس داخل نہیں کیا جاسکتا، دستاویزات فراہم کرنے والے کسی گواہ کا بیان رکارڈ نہیں کیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم، فریقین کو صفائی کا موقع دیا جانا تھا، اسپیکر کو دستاویزات دی گئیں تو ہمیں یعنی جے آئی ٹی کو کیوں نہیں دی گئیں؟ کہا گیا کہ منی ٹریل موجود ہے پھر وہ دی کیوں نہیں گئی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 16 مئی 2016 کو وزیراعظم نےخطاب میں دعویٰ کیا تمام جائیداد، آمدن کارکارڈ ہے، بارِ ثبوت خود شریف خاندان نے اپنے سرلیا تھا، وزیر اعظم، مریم اور حسن نواز نے کہا تھا کہ دستاویزات پیش کریں گے، شریف خاندان نے منی ٹریل اور ذرائع آمدن بتانے کا ذمہ لیا، جے آئی ٹی کا مقصد شریف خاندان کو موقع دینا تھا، تمام دستاویزات دینے کا موقع فراہم کیا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تحقیقاتی رپورٹ نہیں کہا جاسکتا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کا مقصد اضافی چیزیں سامنے لانا نہیں تھا، اب نئی نئی چیزیں سامنے آگئی ہیں تو الگ بات ہے۔

شریف خاندان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کا حکم وزیراعظم کی تقاریر کی بنیاد پر نہیں تھا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر رکارڈ کا حصہ ہیں، ملک کے وزیراعظم نے اسمبلی میں واضح بیان دیا تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت تقریر میں تضاد پر کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی، عدالت اپنے ہی حکم پر نظر ثانی نہیں کر سکتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم عدالت نہیں تو جے آئی ٹی کو ہی رکارڈ دے دیتے لیکن وزیراعظم نے تمام دستاویزات دینے سے انکار کیا، مزید اطمینان کے لیے آپ کو موقع دیا تھا، ہم نے آپ کے لیے دروازے بند نہیں کیے، اگر آپ دستاویزات نہیں دیں گے تو کوئی نکال لائے گا۔

خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی سے پہلے عدالت میں بھی موقع دیا گیا، تمام دستاویزات شریف خاندان نے دینی تھیں، رپورٹ میں مزید بہت کچھ سامنے آ گیا یہ الگ بات ہے لیکن دیکھنا یہ تھا کہ منروا کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا؟ یہ دستاویزات آج تک کسی نے پیش نہیں کیں، اصل مسائل شروع ہی یہاں سے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حسین نواز کے فلیٹ کے مالک ہونے کی ایک بھی دستاویز نہیں دی گئی، مالک کے بغیر پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی حیثیت نہیں، 17سال سے نیب ان تحقیقات پر بیٹھا ہوا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن فلیٹ خریدے، اسپیکر کو دی جانے والی دستاویزات ہمیں کیوں نہیں دی گئیں؟ اس کے جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ یہ جائیدادیں اور ملز وزیر اعظم کی ملکیت نہیں ہیں۔

جسٹس اعجاز نے کہا وزیراعظم نے کہا تھا ہم ثابت کریں گے مگر کچھ نہیں دیا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات وزیراعظم کو کیوں نہیں دکھائی گئیں، جسٹس اعجاز نے جواب دیا کہ وزیراعظم خود دستاویزات دینے کے بیان سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات میں ایسا کچھ نہیں تھا، وزیراعظم کے اثاثے آمدن سے زیادہ تھے تو جے آئی ٹی بتاتی۔

اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا وزیراعظم کا کام تھا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتاتے، لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی، وزیراعظم نے تقریر میں کہا تھا کہ ذرائع اور وسائل کا رکارڈر موجود ہے۔

انہوں نے کہا سوال یہ ہے کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیجنا ہے یا خود فیصلہ کرنا ہے، آپ یہاں دستاویزات سے ثابت کریں یا ٹرائل کورٹ میں۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جس کی جائیداد ہو ثابت اسی کو کرنی ہوتی ہے، عدالت درخواستیں خارج کرنے سے متعلق مطمئن نہیں تھی، عدالت نے جے آئی ٹی کو بھیجنے سے پہلے درخواستیں خارج نہیں کی تھیں، شریف خاندان کے وکلا کے دلائل بھی جے آئی ٹی کی وجہ بنے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جرح کے بغیر تمام رپورٹ یکطرفہ ہے، دستاویزات پر جے آئی ٹی نے جرح نہیں کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ہم تمام مواد کو جانچیں گے پھر طے کریں گے کہ نااہلی بنتی ہے یا نہیں۔ انہوںے کہا کہ 20 اپریل کا حکم نامی عبوری تھا، ملکیت کو دستاویزات سےثابت کرنا ہوگا، یہاں کریں یا ٹرائل کورٹ میں، یہ جسٹس نہیں کہ پہلے سے موجود دستاویزات چھوڑ دیں، شواہد کےجائزے کے بعد فیصلہ کریں گےکہ معاملہ نیب کودیں یانااہلی کافیصلہ دیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ نہیں، میٹریل پر فیصلہ ہو گا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت موقع دے گی تو ضرور بتاؤں گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ ایک سال سے پوچھ رہی ہے، اب بتا دیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ حکم جاری کرنے سے پہلے کسی فورم نے تو ہمیں سننا ہے، جرح کے بغیر نہ دستاویزات تسلیم ہو سکتے ہیں نہ حکم جاری ہو سکتا ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، آپ کا ایک جواب سارا معاملہ ختم کر سکتا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے خود کہا فلیٹس ہمارے ہیں اور میں اس کی وضاحت دوں گا جس پر خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا وزیراعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ فلیٹس کے مالک ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جماعت اسلامی کا بھی مؤقف ہے کہ وزیراعظم نے ملکیت تسلیم کی۔ جسٹس عظمت سعید نے کا کہا کہ بارِ ثبوت شریف خاندان پر ہی ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ فلیٹس حسین نواز کے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ کو بطور ثبوت تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جے آئی ٹی میں وزیراعظم کو وضاحت کا موقع نہیں دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ وضاحت دے دیں ہم سننے کو تیار ہیں جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وضاحت تحریری صورت میں جمع کراؤں گا۔

عدالت نے پاناما عملدرآمد کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔ کل ہونے والی سماعت میں وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی دلائل دیں گے۔

پاناما کیس کی سماعت کے موقع پر آج بھی فریقین کے علاوہ دیگر اپوزیشن رہنما عدالت میں موجود تھے جب کہ اس موقع پر سپریم کورٹ کےاطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔