خبرنامہ

عارف سندھیلہ کے مسلم لیگ ن سے گلے شکوے…اسد اللہ غالب

'لوگوں کو نسلوں

عارف سندھیلہ کے مسلم لیگ ن سے گلے شکوے…اسد اللہ غالب

شہر میں ایک اڈہ بنا ہوا تھا، روزانہ کسی نہ کسی دوست سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ نوجوان تنویر نذیرکے ملنے والے بھی خوب رونق جماتے۔ عارف سندھیلہ سے پہلی ملاقات تنویر نذیر ہی کے توسط سے ہوئی ۔ لگتا تھا کہ دونوںمیں گاڑھی چھنتی ہے مگر یہ مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ دونوں میں وجہ مشترک کیا ہے۔ بہر حال کسی سے بلاوجہ بھی دوستی رکھی جا سکتی ہے۔ اس ملاقات میں سندھیلہ صاحب بہت کھلے کھلے سے تھے۔ چہک چہک کر باتیں کر رہے تھے۔ ان کے لہجے میں جوش و خروش تھا اور یہ گرم جوشی سننے والے کے دل میں اتر جاتی تھی۔ مگر چند برس بعد ہی دوسری ملاقات ہوئی تو یہی شخص بجھا بجھا نظر آیا ۔ لہجے میں بھی دھیما پن، وہ روائتی شگفتگی بھی ان کے چہرے سے غائب پائی۔ سندھیلہ کہ یہ ہیت کذائی در اصل ہر اس سیاسی ورکر کی عکاس ہے جسے ا س کی قیادت نے بری طرح مایوس کیا ہو۔میں تو کچھ دیر تک شش و پنج میں پڑا رہا کہ کیا میری ملاقات عارف سندھیلہ ہی سے ہو رہی ہے جس کی آواز میں کھنک تھی۔ دبدبہ تھا، جلا ل تھا اور کچھ کچھ عشق کی خوشبو بھی۔ وہ باتیں کرتے رہے ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ،یہ سب سچ ہو سکتا ہے۔ عارف سندھیلہ اور نواز شریف کے تعلقات فلمی ہیرو ہیروئن جیسے تو نہ تھے۔ نہ کلاسیکی رومانوی داستانوں کے کرداروں جیسے تھے کہ جنہیں با لآخر ایک دوسرے سے جدا کر دیا جاتا ہے اور جن کے تعلقات میں کھنڈت پڑ جاتی ہے۔ سندھیلہ کا گھر شیخو پورہ میں ہے۔ اگر میاںنواز شریف کسی زمانے میں بغیر بتائے ا سکے گھر جا پہنچیں کہ بھئی لائو کھانا۔ اگر یہی سندھیلہ اس وقت محترمہ کلثوم نواز کے سامنے دیوار بن جائے جب لاہور پولیس کی کرین نے ان کی گاڑی کو کلمہ چوک سے اٹھا لیا تھا اور پھر یہی سندھیلہ پاگلوں کی طرح ننگے پائوں کرین کے ساتھ دوڑتا رہا ۔ دوڑتا رہا ۔ حتی کہ کرین نے محترمہ کی گاڑی کو جی او آر پہنچا دیا اور سنگینوں کے نرغے میں لے لیا۔ یہی سندھیلہ سنگینوں کا حصار توڑ کر محترمہ کو جوس کے پیکٹ پہنچاتا رہا ۔ اس نے آدھی رات کو پوری میڈیا ٹیم کی بھی خاطر تواضع کی۔ یہی نہیں ، سندھیلہ ہر مشکل وقت میں دامے درمے سخنے اپنے قائد کے ساتھ کھڑا رہا مگر یہ کیا کہ اب کی بار اسے ٹکٹ نہیں ملی اوراس کو مل گئی جسے ا س نے کئی ہزار ووٹوں سے کئی بار شکست دی تھی۔ اس کی وجہ بھی تو کوئی ہو گی۔۔ بہت کریدا، سندھیلہ دل کی بات زبان پر لانے کوتیار نہ تھا۔ سچ کڑوا ہوتا ہے اوروہ اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ حقیقت تک پہنچنے میں تنویر نذیر نے مدد کی۔ وہ سندھیلہ سے ملتا رہتا ہے اور اس کے دل میں جھانکنے کا اسے موقع ملتا رہا ہے۔ راز یہ کھلا کہ ا س گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ وہ جو سنتے تھے کہ شریف خاندان میں ایک جنگ اقتدار جاری ہے۔شخصیتوں کا ٹکرائو ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی سوچوں میں بعد المشرقین ہے۔ سیاسی وراثت کا تنازعہ بھی اپنے عروج پر ہے۔ ایک طرف مریم نواز کی امیج بلڈنگ ہو رہی تھی اور دوسری طرف حمزہ شہباز کی دستار کو مائع لگائی جا رہی تھی۔ ان تنازعات میں کارکن پس کر رہ گئے۔ ٹکٹوں کا مرحلہ آیا تو شہباز اور حمزہ کی سنی گئی اور نواز اور مریم کے فدائیوں کی قربانی دے دی گئی۔ عارف سندھیلہ صرف ایک علامت ہے اس کشمکش کی مگر کون جانتا ہے کہ کتنے مسلم لیگی کارکنوں کو عارف سندھیلہ کے حشر سے دو چار کر دیا گیا۔ مگرا س طرز عمل کا کوئی فائدہ مسلم لیگ ن کو نہیں پہنچا، بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان۔کہیں نوا زشریف پر مقدمے۔ کہیں مریم نواز کی پیشیاں اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ شہباز شریف بھی دھر لئے گئے۔سندھیلہ نے کہا کہ جس روز مریم نواز کو نیب کی عدالت میں پیش کیا گیا تووہ اکیلا ان کے استقبال کے لئے گیا ، باقی کوئی پر بھی نہیں مار سکا۔ یہ سندھیلہ کا عشق ہے۔ نواز شریف سے محبت ہے کہ گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہ ہوا کے مصداق عارف سندھیلہ کی وفا داری قائم و دائم ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ نواز شریف نے نہیں کیا تو وہ ناراض کیوں ہو۔ وہ تو ان کا متوالا تھا اور رہے گا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک زمانے میں فرانس میں پاپڑ بیل کر جوکچھ کمایا ، وہ سب پارٹی پرلٹا دیا۔ اب اس کے پا س ایک جذبہ باقی ہے ۔ عشق باقی ہے۔ محبت باقی ہے ۔ لگن باقی ہے۔ وفا باقی ہے، اور جنون باقی ہے۔ یہ جنون اس کے سر سے نہیں اتر سکتا

مسلم لیگ ن ایک زمانے میں ناقابل تسخیر تھی۔ پیپلز پارٹی جیسی پرانی جماعت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی مگر وقت کے ساتھ ہر شے کو زوال ہے اور مسلم لیگ ن کو بھی ا س زوال کا سامنا کر نا پڑا۔ کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن ، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔ پارٹی نے غلطیاں کیں۔ پارٹی قیادت نے غلطیاں کیں اور گھر کے اندر بھی دراڑ پڑ گئی تو پھر پارٹی کا کیا بچ سکتا تھا۔ اب تو پارٹی کی جان کو لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر اس کا سانس باقی ہے تو اس کی وجہ حکمران پارٹی کی خامیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ اور نا تجربہ کاری ہے، ورنہ اگر اسی پوزیشن میں بے نظیر ہوتیں یا زرداری ہوتے تو مسلم لیگ کو پانی مانگنے کی مہلت بھی نہ ملتی۔

کیامسلم لیگ ن قصہ پارینہ بن چکی۔ سندھیلہ کے خیال میں ابھی یہ نوبت نہیں آئی مگر پارٹی کوپھر سے اٹھانا کارے دارد والا مسئلہ ہے۔ شریف خاندان کو جنگ اقتدار سے نجات پانا ہو گی اور پارٹی کارکنوں کی باتوں پر کان دھرنا ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پار ٹی لیڈر صرف میاںنوا ز شریف ہیں۔ ان کی اس حیثیت کو سبھی مان لیں توبچنے کا راستہ کھلا ہے۔ اور جن کارکنوںنے ماریں کھائی ہیں۔ قربانیاں دی ہیں۔ جا ن ومال سب کچھ پارٹی کے اشارہ ابرو پر نثار کر دیا ہے، ان کو جائز مقام دینا ہو گا۔ یہی کارکن پارٹی کی بنیادوں کو مستحکم کر سکتے ہیں۔پتہ نہیں عارف سندھیلہ نے عطا الحق قاسمی کی ایک وڈیو دیکھی اور سنی ہے یا نہیں جس میں وہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں مسلم ن کی وزیر اطلاعات نے نقصان پہنچایا۔ وہ جانتی تک نہ تھیں کہ عطا الحق قاسمی کی حیثیت اور مرتبہ کیا ہے۔ مگر کیا میاںنوازشریف یہ سب کچھ دیکھ نہیں رہے تھے اور جب یہی قاسمی صاحب جن کی نواز شریف سے محبت پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا، میاں صاحب سے جیل میں ملاقات کے لئے گئے تو گھنٹوں انتظار کے باوجود میاں صاحب کی طرف سے بلاوا نہ آیا۔ ان کہانیوں سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، کون جانے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ کس کی آنکھ پر پردہ پڑ گیاا ور کس نے قائد کو اپنے چاہنے والوں سے دور کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پارٹی قائد کو احساس نہیں ہو پاتا کہ اس کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے اور اگر وہ سب کچھ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے تو پھر یہی حشر ہوتا ہے جو بھٹو کاہوا ۔ پارٹی قائد کے حواس کام نہ کریں تو اس کے گرد کے درباری اور حواری اسے پہلے جیل تک چھوڑ کر چین لیتے ہیں ،پھر قصر گمنامی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں