ڈائن بھی سات گھر چھوڑ لیتی ہے مگر یہاں کا باوا آدم نرالا ہے۔ہمارے ایک قانون کے مطابق ظاہری اثاثوں سے بڑھ کر معیار زندگی جرم ہے۔اس قانون نے آنکھیں بند کر کے ہر اس شخص کو قابل گرفت بنا دیا ہے جو سیلف میڈ انسان ہے۔
میں علیم خان کی گرفتاری کو انتہائی افسوسناک سمجھتا ہوں۔نیب کو ان پر کوئی اعتراض تھا یا کسی دوسرے ادارے کو اعظم سواتی پر اعتراض تھا یا جہانگیر تریں پر اعتراض تھا تو ہونا یہ چاہئیے کہ نیب اور اسی نوع کے سرکاری اداروں کو اختیار دیا جائے کہ جس شخص نے پاکستان میں رہنا ہے، وہ پہلے ان سے کلین چیٹ لے، پھر اس کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنایا جائے اور اسے کوئی بنک اکاؤنٹ یا کاروبارکھولنے کی اجازت دی جائے۔ْ بائیس کروڑ عوام کی چھان بین کرنے میں چند صدیاں لگ بھی جائیں تو قوم اور ملک کاپھر بھی بھلا ہے۔ہم نے ستر سال ضائع کر لئے ۔ ،مزید سو دو سو سال ضائع چلے جائیں تو پھر ایک ایسے پاکستان کا آغاز کیا جا سکے گاجہاں فرشتے بستے ہوں گے۔ہر کوئی باسٹھ تریسٹھ کے ترازو پر پورا اترتا ہوگا۔ اس وقت تو ہم جگ ہنسائی کا موجب بن رہے ہیں۔ دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہم تو خود ڈھنڈورو پیٹتے ہیں کہ ہم کرپٹ ہیں۔ بد دیانت ہیں ، خائن ہیں۔ اقربا پروری کرتے ہیں ۔بھتہ خور ہیں ،لوٹ مار کرنا ہمارا روز مرہ کا مشغلہ ہے۔ سرکاری خزانے کو ہم شیر مادر کی طرح ہڑپ کرتے ہیں۔ایسے الزامات میں تو ہماری پوری قوم کو زنجیریں پہنا کر گوانتا نامو بے کے پنجروں میں بند کر دینا چاہئے۔ بلکہ ہم سب کو جیتے جی جہنم میں دھکیل دیا جائے۔
علیم8 خان میرا رشتہ دار نہیں۔قریبی دوست نہیں، میں پی ٹی آئی سے تعلق نہیں رکھتا لیکن ایک صحافی کے طور پر میرا جس علیم خان سے تعارف ہوا اور میں نے جس کے قصیدے لکھے اور ان قصیدوں پر مجھے قطعی شرمندگی نہیں۔ یہ علیم خاں ایک نیک دل انسان ہے۔اس کے سینے میں کسی درندے، کسی وحشی کا دل نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی سے لبریز کسی فرشتے کا دل دھڑکتا ہے ۔ میری اس سے پہلی ملاقات ڈیفنس میں معذور بچوں کے ایک ا سکول رائزنگ سن میں ہوئی۔ یہ اسکول اسٹیٹ آف دی �آرٹ فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ اگر یہاں بچوں پر نگاہ نہ پڑے تو یوں لگتا ہے جیسے کہ سوئٹزر لینڈ کاکوئی جزیرہ ہے۔ہر قسم کی جدید تریں سہولتوں سے آراستہ ۔اس اسکول کے ایگزیکٹو بورڈ میں سابق کور کمانڈر، سابق گورنر پنجاب اور سابق چیئر میں نیب جنرل خالد مقبول بھی شامل ہیں ، میں ان سے بھی برسوں بعد یہیں ملا۔ ایک روز علیم خاں نے مجھے لاہور کینٹ کے پوش تریں علاقے میں لڑکیوں اور لڑکوں کے دو ہوسٹل دکھائے جو ان کی بیگم صاحبہ کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔ یہاں یتیم،بے سہارااور حاجت مند مگرذہین طلبہ وطالبات کو قیام کی سہولت دی گئی ہے اور یہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں۔ طلبہ و طالبات کا چناؤ علیم خان کی بیگم صاحبہ کے ذمے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے علیم خاں نے اسی انداز کا ایک اور ہوسٹل خود تعمیر کیا جس کی افتتاحی تقریب میں اگرچہ انہوں نے مجھے مدعو نہیں کیا مگر میں نے اگلے ہی دن اس پر کالم لکھ مارا۔ علیم خان کی ایک خوبی میں نے یہ لکھی کہ وہ ہر عید کوباقاعدگی سے کیک بھیجتے ہیں ارو ظاہر ہے کہ مجھ اکیلے کو تو نہں بھیجتے۔ شہر کے دو تیں سو مزید جاننے والوں کو ضرور بھجواتے ہوں گے۔ ایک خوبی جو مجھے یاد�آ رہی ہے کہ ڈینگی کے دنوں میں میں اپنے ایک بچے کو کسی ہسپتال میں لے کر گیا اور باری کاا نتظار کر رہا تھا تو کسی نے میرا نام لے کر مجھے پکارا۔ یہ صاحب میرے قریب آئے تو میں نے انہیں پہچانا کہ یہ تو علیم خان ہیں ، میرا خیال ہے وہ اپنی کینسر میں مبتلا والدہ صاحبہ کودکھانے لائے تھے۔انہوں نے میری ہیت کذائی دیکھی تو پریشان ہو گئے ۔ میرے گلے میں کالر تھاا ور میرے بیٹے کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں ۔ علیم خان نے مضطرب لہجے میں ہمارا حال چال معلوم کیا۔ ان کے لہجے میں اپنائیت تھی۔شفقت تھی۔ محبت تھی۔ مٹھاس تھی۔
علیم خان سیاست کرتے رہے اور میں صحافت کرتا رہا لیکن مجھے ان کی سیاست میں دلچسپی ا سوقت پیداہوئی جب انہوں نے لاہور میں تحریک انصاف کا دفتر کھولا۔ ان کا بزنس آفس ہی سیاست کا مرکز تھا، میں وہاں جاتا تھاتو اکثر ان سے ملاقات نہیں ہو پاتی تھی۔ ایک بار ان کی نظر مجھ پر پڑی تو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک صاحب کے پاس بٹھا دیا کہ ذرا ان سے باتیں کریں۔ یہ صاحب امریکہ سے تشریف لائے تھے اور تین باروہاں کی ایک ریاستی اسمبلی نیو ہیمشائر میں منتخب بھی ہوئے تھے۔ اب شاید پاکستان میں سیاست کرنے کے خواہاں تھے اور ہر اوور سیزپاکستانی کی طرح ان کی نظر بھی عمران خاں پر تھی۔ میں نہیں جانتا کہ ان کی ملاقات عمران خان سے ہو سکی یا نہیں مگر ایک بار وہ یہ کہہ کر امریکہ گئے کہ عید کے بعد واپس آؤں گاا ور اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کروں گا۔ قدرت خدا کی کہ انہیں وہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔یہ تھے صغیر طاہر۔پاکستان کے ایک لائق فخر فرزند۔
علیم خان سے ایک ملاقات عبا س اطہر کے ساتھ ہوئی۔ ہم دونوں ان کی والدہ کی وفات پراظہار افسوس کے لئے گئے تھے۔ ایک بارپی ٹی آئی پنجاب کے الیکشن ہوئے تو علیم خان نے گھر پر بہت وسیع ضیافت کا اہمتام کر رکھا تھا، سینیئر صحافی بھی بڑی تعداد میں تھے اور عمران خان مہمان خصوصی کے طور پر اس میں شریک تھے لیکن جاتے جاتے انہوں نے اعلان کیا کہ پارٹی الیکشن کا نتیجہ فی الحال کالعدم ۔ یہ سن کر علیم خان صدمے میں چلے گئے کیونکہ بڑے معرکے کے بعد انہوں نے یہ الیکشن جیتا تھا۔
اب پی ٹی آئی کو اقتدار ملا تو میرے پاس علیم خان کے جتنے فون نمبر تھے، سارے گھمائے کہ انہیں سینیئر منسٹر بننے پر مبارک باد دے سکوں۔ مگر افسوس کہ کبھی رابطہ نہیں ہو سکا۔یہ ہے کہانی ان سے ذاتی تعلقات کی۔ انہوں نے مشرف دور میں آئی ٹی منسٹر کے طور پر ارفع کریم ٹاور بنایا جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے اور آج پنجاب کو بنگلور کے برابر لے گیا ہے۔
سیاسی طور پر ان کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا،یہ ان کے لئے ذاتی نقصان تو ہے مگر پارٹی اور حکومت کوبھی شدید نقصان کا خدشہ ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ عمران خاں کے انتہائی با اعتماد ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ٹارگٹ کیا جاتا رہے، پہلے جہانگیر تریں نااہل ہوئے ۔ پھر میرے دوست بابرا عوان نشانہ بنے، پھر اعظم سواتی پر بجلی گری اور اب انہونی ہو گئی ا ور پنجاب کے سینیئر منسٹر کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ انتہائی سنجیدہ اور سنگین معاملہ ہے۔ ہو گا کوئی قانون جس کا سہارا لیا گیا ہو گا مگر ایسا قانون سراسر غلط اور آئین کے منافی ہے۔ جو قانون زرداری دور میں وزیردفاع احمد مختار کو جہاز سے اتار دے اور جو قانون آج سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو جہاز میں سوار ہونے سے روک دے ، وہ انصاف پر مبنی کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ قانون دساور سے در آمد کر کے ہی لاگو کیاجا سکتا ہے۔بعض اوقات شک گزرتا ہے کہ پاکستان میں کہیں باہر سے ر یاستی ا ور حکومتی امور کوکنٹرول کیا جارہا ہے۔ ورنہ کوئی ذی شعور ملکی حکومت اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا نہیں چلا سکتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکمران پارٹی کے اندر یا اس کے اتحادیوں کے مابین محلاتی سازشیں عروج پر ہوں اور یہ سب انہی سازشوں کا شاخسانہ ہو۔ اس نکتے پر عمران خان کو بطور پارٹی اور حکومتی سربراہ غور کرنا چاہئے۔
ملک میں جس قسم کا احتساب ہوتا رہا ہے یا اس وقت ہو رہا ہے۔ اس سے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ میں حکومت سے زیادہ حکومت کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ سو دو زیاں کی فکر خود حکومت کو ہونی چاہئے مگر ایک شہری اور کالم نکار کے طور پر میں یہ جانتا ہوں کہ جب ہمارے پیغمبر ﷺ کو فتح مکہ ہوئی تو انہوں نے اعلان کیا کہ آج کسی کی باز پرس نہیں ہو گی۔ لا تثریب علیکم الیوم۔یہی نکتہ ملکی اور قومی سفر کو آگے بڑھانے کے کام �آ سکتا ہے ورنہ ایک گہری دلدل ہے جس میں ہم دھنستے چلے جائیں گے۔ زرداری کا گیارہ برس تک احتساب ہوا۔ نواز شریف کو جلا وطن کیا گیا،۔ محترمہ بے نظیر کو جلا وطن کیا گیا ، پھر شہید، نواز شریف اور شہباز شریف جیل میں ہیں۔ کیوں نہیں ایک ہی بار بائیس کروڑ پاکستانیوں کو جلاوطن کر دیا جائے یا جیلوں میں ڈال دیا جائے تو شایدکسی کا جی احتساب سے بھر جائے۔
وزارت ا طلا عات کے ایک ڈی جی انٹرنل پبلسٹی مجھے ڈراتے رہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے میرے وہ کالم سنبھال رکھے ہیں جن میں میں نے سعید احمد اور اسحق ڈار کی صفائی کے لئے خانہ کعبہ میں گواہی دینے کی بات کی تھی۔ آج میں علیم خان کی بے گناہی کی قسم کھانے کو تیار ہوں۔ آپ کسی کو ا سکے ظاہری کردار سے ہی جانتے ہیں۔میں کسی کا اکاؤنٹنٹ نہیں کہ حساب کتاب دیتا پھروں۔ یہ حساب صرف خدا کی بارگاہ میں ہو سکتا ہے۔