عمران خان کی زبان …………. اسد اللہ غالب
کل شا م ہی کو یوم تشکر کے نام پر یوم تمسخر منایا گیا، نیا نشانہ زرداری صاحب بنے۔ نہ میں کہتا ہوں کہ عمران کی زبان گز بھر لمبی ہو رہی ہے۔ نہ میں کسی کو اکساتا ہوں کہ اسے گدی سے کھینچ لیا جائے ، مگر یہ انداز کلام ہے پریشانی کا باعث۔
چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ۔ بنی گالہ کی گدی کے بزعم خویش مفتی اعظم کی زبان سے یہ سن سن کر کان پک گئے۔
کل ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ذلیل شخص ہے، چار روز پہلے خواجہ آصف کے بارے میں فرمایا کہ گھٹیا آدمی ہے۔نواز شریف کو ہمیشہ یوں مخاطب کیا اوئے نواز شریف، مریم نواز کا بھی تمسخر اڑایا۔ اسحق ڈار اورسعید احمد کے بارے میں نازیبا کلمات، اور یوں لگتا ہے کہ عمران کو پنجابی بھی آتی ہے، فرماتے ہیں کہ پورا ٹبر کرپٹ نکلا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ان کی جگہ اب جدہ کے محلات نہیں ، اڈیالہ جیل ہے۔
عمران کی زبان درازی پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے، اس قدر مواد ملے گا کہ محقق حیران رہ جائے گا کہ عمران نے یہ انداز گفتگو کہاں سے، کس کس سے سیکھا، ان کی پارٹی میں چودھری سرور انتہائی میٹھی زبان میں بولتے ہیں، شاہ محمود قریشی تو کانوںمیں رس گھولتے ہیں۔ اور ادھر شہر لاہور میں جتنا پیسہ علیم خان کے پاس ہے، اتنا کس کے پاس ہو گا مگر وہ تلخ سے تلخ بات سن کر بھی ہنس دیتا ہے اور بس، بلکہ انسان ان سے اختلاف کے باوجود ان کی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔ وہ عید پر اپنی پارٹی کے کٹڑ مخالفین کو بھی کیک بھیجتے ہیں، کسی کے ہاںمرگ ہو جائے یا شادی کا موقع ہو تو خود پہنچتے ہیں۔تو اتنے سارے نیک بندوں کے ہوتے ہوئے عمران پر کس ظالم جادو گر کا اثر ہے۔
عمران کو ہر زبان میں جواب دیا جا سکتا ہے تو پھران میں اور مجھ میں فرق کیا ہوا۔میں قلم کی زبان سے جواب دے سکتا ہوں۔ ا سکی طرح ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑا ہو کر اندر کا گند باہر نہیں لا سکتا۔ایک زمانے میں شوکت ا سلام کے جلوس نکلا کرتے تھے، ان کے مقابلے میں بھٹو کے متوالے تھے جو انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے تھے۔ مولانا مودودی کے چہرے کے نیچے کسی رقاصہ کا نیم برہنہ جسم لگا کر مضحکہ اڑایا گیا۔ شوکت اسلام والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو انہوںنے جواب میں کہا کہ مخالفین کی زبانیں گٔدی سے کھینچ لیں گے مگر میں تو یہ کہنے کا بھی روا دار نہیں ، آخر اخلاقیات اور انسانیات کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔
سیاست میں زبان درازی کے موجد بھٹو صاحب ہیں ، انہوںنے خان قیو م خان کو ڈبل بیرل خان کہا، اصغر خان کو کچالو خان کہا اور نور خان کو آلو خان کہا۔ان کی زبان درازی کاا ثر ان کے کارکنوں پر یہ ہوا کہ مال روڈ پر مولانا شاہ ا حمد نورانی نے جلوس نکالا تو جیالوں نے ان کی پگڑی ہوا میں ا چھال دی۔
سیاست میں شدت پسندی مولانا بھاشانی ا ور شیخ مجیب نے روشناس کروائی۔ مولانا بھاشانی تو مغربی پاکستان آ کر ۔۔جالو جالو آگن جالو ۔۔کے نعرے لگاتے تھے، شیخ مجیب کے متوالوںنے پلٹن میدان میں مولانا مودودی کے آخری انتخابی جلسے پرلاٹھیاں برسائیں۔ اور پھر بھٹو صاحب آخری حد پا ر کر گئے اور کہا کہ جو کوئی قومی اسمبلی ڈھاکہ کے اجلاس میں جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، احمد رضا قصوری نے ہمت کی، وہاں چلے گئے اور یوں بھٹو صاحب کی ہٹ لسٹ پر آ گئے، مگران کی بجائے ان کے والد کو مار ڈالا گیا اور اسی کیس میں بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔
عمران کا مزاج صفوی ہے، یعنی تنک مزاج ہے، کرخت رویئے کا مالک ہے، کسی کی نہیں سنتا، اپنی کرتا ہے، پارٹی الیکشن ہوتے ہیں تو اپنے اٹھاون ٹو بی کے اختیارات کے تحت نتائج نہیںمانتا، خود ہی پارٹی الیکشن کے لئے ایک بندہ لگاتا ہے ا ور بندہ بھی وہ جسے چیف جسٹس کہتے ہیں مگر اس کو الیکشن نہیں کروانے دیتا ، چلئے یہ اس کی پارٹی کے اندرونی مسائل ہیں، وہ کسی کوجھاڑ پلاتاہے اور کوئی خاموشی سے سنتا ہے تو ان کا آپس کا مسئلہ ہے مگر یہ جو ٹی وی کیمروںکے سامنے انہوںنے اوئے کی زبان کے جوہر دکھائے ہیں ، یہ تو بچوں کی زبان بگاڑ رہے ہیں، اس سے نئی نسل کج روی کی طرف مائل ہے، کہتے ہیں کہ تحریک انصاف ممی ڈیڈی کلاس والوں کی ہے، مگر بھائی جب آپ کیمروں کے سامنے زبان دانی کے جوہر دکھاتے ہیں تو اس سے بیڈروم اور ڈرائنگ روم میں بیٹھے ایک خاندان کے لوگ چڑ چڑے ہو رہے ہیں،ایک زما نے میں ٹی وی پر ایسی فلمیں چلتی تھیں جو سارے گھر والے اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے تھے، اب عمران خان کو بھی سارا گھرانہ اکٹھے بیٹھ کر نہیں سن سکتا۔
ہم عمران کو روتے ہیں، مگر دنیا کا انتہائی تہذیب یافتہ ملک امریکہ ہے۔ اب اسے ایسا صدر مل گیا ہے جسے اپنی زبان پر قابو نہیں۔ ہم عمران کو کہیں گے کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھیں تو وہ سند کے طور پر صدر ٹرمپ کی زبان کے نادر اور بے مثال نمونے پیش کر دے گا۔
تحریک انصاف میں نوجوان نسل شامل ہے جس کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ جاتا ہے کہ انتہائی تعلیم یافتہ ہے ، مگر یہ اپنے لیڈر سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ان کو سوشل میڈیا پر دیکھیں ، آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔فون پر اپنے مخالفین کودھمکیاں دیتے ہیں کہ اقتدار مل گیا تو آپ کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
عمران خان کے والد گرامی تو بڑے متحمل مزاج شخص تھے، ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں وہ اچھے انسان لگے مگر عمران سے شہر لاہور کے سینیئر ترین کالم نویسوں کی ایک ملاقات ہوئی تو اول عمران تاخیر سے گھر پہنچا۔پھر اس نے اپنے ساتھ آنے والے کتے کو اس حقارت اورا س قدر غصے سے تھپڑ رسید کیا کہ منو بھائی اور عباس اطہر اور عبدالقادر حسن اور حسن نثار بھی ششدر رہ گئے۔
جس شخص کو ہاتھ چلانے کی عادت ہو،اس کی زبان چلنے لگے تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔
شاعر نے کہا تھا:
زبان بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجو، دہن بگڑا۔
سچی بات ہے، میں زبان اور دہن کے فرق کوسمجھنے سے قاصر ہوں مگر عمران خان کی زبان بگڑی ہے یا دہن بھی بگڑ اہے، اس پر ساری قوم پریشان ہے اور اسے شرمندگی لاحق ہے کہ کیا ایسے شخص کے ہاتھ میں ملک اور قوم کی تقدیر دی جا سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی میں ایک وزیر تھے ملک غلام نبی، ان کی شکائت کسی نے بھٹو صاحب سے کی کہ وہ بہت گالیاں دیتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے جواب طلبی کے لئے بلایا تو وہاں بھی پھٹ پڑے کہ کون۔۔۔۔یہ شکا ئت کرتا ہے، بھٹو صاحب ہنس دیئے۔
سوعمران خان کی گالیوں پر بھی ہنسی ہی آتی ہے۔
غالب نے کہا تھا کہ گالیاں کھا کے بدمزہ نہ ہوا مگر میں دور جدید کا غالب بہت بدمزہ ہوتا ہوں ایک قومی لیڈر کی زبان کے استعمال سے۔ کیا علیم خان، شاہ محمود۔ چودھری سرور اور شفقت محمود مل کر بھی انہیں سمجھا نہیں سکتے، کوشش تو کر کے دیکھیں۔بڑھک بازی فلمی ولن کا وطیرہ تو ہوسکتی ہے، اچھا بھلا انسان بڑھک بازی میں مبتلا ہو جائے تو ا سکے بارے میں سیانے کہہ گئے کہ جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں۔
ابھی ٹی وی اسکرینیں چنگھاڑ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کی ایک خاتون راہنما پارٹی چھوڑ گئی ہیں، ان کا اعتراض ہے کہ اس پارٹی میں مائوں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں ہے۔
مجھے عمران خاں کی اس پھبتی اور الزام پر غصہ آیا کہ جو شخص تحریک انصاف کے حق میں لکھتا نہیں ہے یا بولتا نہیں ، وہ ضمیر فروش ہے اور اگر میں نے اپنے ضمیر کی آواز میں پورا سچ بولنا شروع کر دیا تو یہ خان صاحب کے لئے قابل برداشت نہیں ہو گا۔بس اتنا کہتا ہوںکہ
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔
براہ کرم گالیاں دینے سے باز رہئے، جواب میں گالیاں سننا پڑیں گی۔
یہ مملکت پاکستان ہے، یہ اسلامی سلطنت ہے، لندن کا کوئی چنگڑ محلہ یا نیو یارک کی42 اسٹریٹ نہیں، قائد اعظم، فاطمہ جناح اور اقبال کی میراث کی مالک ہے!