بسم اللہ
باچھیں کھلی جا رہی ہیں کہ سابق آرمی چیف کی دو سال تک زبان بند رہے گی، نہ کوئی ہیڈ لائن ، نہ کوئی سیاست بازی۔
مگر نئے آرمی چیف کی تو زبان بند نہیں ہے، تو پھر ا ن کے عقیدے پر حملے کیوں ہو رہے ہیں۔انہیں بھارت نواز کیوں مشہور کیا جا رہا ہے اور یہ تاثر کیوں دیا جارہا ہے کہ وہ فرمانبردار شاگرد ہے۔کیا وہ بھی ان لن ترانیوں کا جواب نہیں دے سکیں گے۔
پاکستان ہی میں نہیں ، دنیا بھر میں ہماراآرمی چیف انتہائی طاقتور شخصیات میں شمار ہوتا ہے تو وہ لوگ جو اپنے محلے کے ایک کن ٹٹے کے سامنے کپکپاتے ہیں ، وہ اس طاقتور تریں شخص کے لتے کیوں لیتے ہیں۔
اس کا ایک ہی راز ہے کہ کوئی اور بڑی طاقت ان باتونیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔پاک فوج کو ذلیل کرنا بھارت کا ایجنڈہ نمبر ایک ہے تو کیا ہمارے نادان دوست نہیں جانتے کہ وہ کس موذی اور مودی کے کھیل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
بھارت کے سابق آرمی چیف نے سوچ سمجھ کر شرارت کی اور ہمارے نئے آرمی چیف کی تعریف کر ڈالی۔اور ہمارے میڈیا نے اسے ا س طرح اچھالا جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو۔ سابق بھارتی آرمی چیف نے محب وطن پاکستانیوں کے دلوں میں نئے آرمی چیف کی توقیر گھٹانے کی مذموم حرکت کی مگر اس پر اعتبار کون کرے گا، آئی ایس پی آر کہے چلا جا رہا ہے کہ نئی تقرریوں پر حرف زنی نہ کی جائے مگر ہم رکنے والے کہاں ہیں کیونکہ ہمارا وہی ایجنڈہ ہے جو بھارت کا ہے۔
کیا ہم نے کبھی کسی صوبے کے چیف سیکرٹری یا آئی جی پولیس پر طعنہ زنی کی، ہر گز نہیں کیونکہ ان کے خوف سے ہماری ٹانگیں تھر تھر کانپتی ہیں، ہم نے تو کسی سیکشن افسر یا کسی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افسر پر تبصرے کی جرات نہیں کی مگر جرنیلوں پر غلیلیں چلاتے ہیں اور سینہ چوڑا کرتے ہیں۔
ھنرل راحیل شریف اس قوم کی آنکھوں کا تارا تھے، پوری دنیا ان کی تحسین و ستائش کرتی تھی ،ہم ان کے سامنے گھگیاتے تھے اور جیسے ہی اشارہ ملا کہ انہیں توسیع نہیں ملے گی تو ہماری زبانیں کھل گئیں اور اب اتنی لمبی ہوتی چلی جا رہی ہیں کہ واپس حلق میں سمیٹنے کی سکت نہیں رکھتے۔کیا ہم اس آفتاب جہاں تاب کی روشنی کو گہنا سکتے ہیں، کوشش ہماری یہی ہے مگر یقین مانیئے کہ ہم خوارو زبوں ہو گے، جنرل راحیل کا تذکرہ دنیا کے عظیم سپاہ سا لاروں کے ساتھ ہوتا رہے گا، وہ زندہ و تابندہ رہیں گے، ان کی مقبولیت کسی پروپیگنڈے کی مرہون منت نہیں تھی، ان کا کام بولتا تھا ، کراچی بولتا تھا، بلوچستان بولتا تھا، فاٹا بولتا تھا اور سی پیک بولتا تھا، گوادر سے رخصت ہونے والے تجارتی قافلے بولتے تھے۔اور بھارتی چیخوں سے ان کی عظمت کا ثبوت ملتا تھا۔
یاد رکھئے۔ آرمی چیف، آرمی چیف ہی ہوتا ہے، وہ موجودہ ہو یا سابق، اس لئے پہاڑ سے سر ٹکرانے کے فضول شوق میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے اسلم بیگ کا کیا بگاڑ لیا جس نے ڈنکے کی چوٹ پر سیاستدانوں میں پیسے بانٹے، نہ یہ کہوں گا کہ مشرف پھر سے کیسے اڑ گیا، بلکہ میں یہ پوچھتا ہوں کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایکدوسرے پر کونسے الزامات تھے جو نہیں لگائے مگر کسی ایک کا حساب ہوا، زرداری کو گیارہ سال تک جیل ڈالا ، وہ مرد حر بن کے نکلا اور سیدھا منصب صدارت پر جا فائز ہوا، اب ہم نے الطاف حیسن کا کیا بال بیکا کر لیا،عاصم حسین سے کیا اگلو الیا، ایم کیو ایم کے قاتلوں، ڈاکووں ، بھتہ خوروں ۔ ٹارگٹ کلروں کو کیا سزا دی، کچھ بھی تو نہیں، اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ فوج کآآپس میں گہراگٹھ جوڑ ہے تو کیا سیاستدانوں ا ور سول بیورو کریٹس کا آپس میں گٹھ جوڑ کوئی کم ہے، اگر کہیں گٹھ جوڑ نہیں ہے توو وہ بے چارے عوام کا نہیں ، وہ ناحق کچلے جا رہے ہیں، ہرکوئی انہیں پائے حقارت سے دھتکار دیتا ہے۔
مگر مجھے ایک بات کہنی ہے کہ سبکدوش آرمی چیف کو صلواتیں سنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، مت سمجھئے کہ دو سال تک ان کی زبان بندی ہے، وہ گونگے ہیں، ان کے ہونٹ سی دیئے گئے ہیں اورا آپ کو زبان طعن دراز کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ۔ صلاح الدین ایوبی کے خلاف یورپ نے کیا طومار نہیں لکھا۔ کیا اس سے اس عظیم سپاہ سالار کی فتوحات مٹ گئیں۔کیا غزنوی، غوری ، ابدالی، بابر کے خلاف ہندو انتہا پسندوں نے غلاظت بکنے کی حد نہیں کر دی مگر کیا ایک نسیم حجازی کے شاہناموں کے سامنے ان کی بولتی بند نہیں ہو گئی۔یقین رکھئے ، جنرل راحیل شریف کے لئے بھی کوئی نسیم حجازی سامنے آئے گا، ان کا ایسا شاہنامہ لکھے گا کہ ان کے نقاد اپنے سر پہ خاک ڈالتے نظر آئیں گے۔
جب راحیل شریف نے فوج کا چارج سنبھالا تھا تو ملک کی کیا حالت تھی، کیا آج کا پاکستان 2013کی طرح ہرآن، لہو لہان ہے، کیا آپ کو اب بھی یہ خوف لاحق ہے کہ آپ کا بچہ اسکول گیا تو شاید واپس نہ آئے، کیا شاپنگ مالز میں کھوے سے کھوا نہیں چھلتا، ہاں چوریاں ، ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں ا ور لاہور میں شروع ہو گئی ہیں، اس کے لئے خادم اعلی کوپکاریئے اور ان کی گورننس کے گن گانے والوں سے پوچھیئے کہ یہ اچانک ڈاکو گردی سے سر کیوں اٹھا لیا، کیا یہ سب ھبرل راحئل کے ڈر سے بلوں میں ھسے ہوئے نہیں تھے اور اب نئے سپاہ سالار نے بھی اپنی دھاک دکھائی تو یہ وہ پھر بلوں میں گھس جائیں گے، سپاہ سالار تو سپاہ سالار ہے، وہ راحیل ہو یا باجوہ۔راحیل کے خلاف ڈان لیکس کا تیر چلایا گیا اورباجوہ کے سر پہ تو کئی تلواریں ابھی سے لٹکا دی گئی ہیں ، ان کے عقیدے پر انگلی اٹھائی گئی ہے، انہیں بھارت نواز کہا گیا ہے، انہیں حکومت کا چہیتا کہا گیا ہے، یہ سب کچھ ان پر پریشر بڑھانے کے ٹیکٹکس ہیں مگر خاطر جمع رکھئے کہ فوجی سپاہ سالار ایسے پریشزر کو خاطر میں لا نے و الے نہیں، یہ ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے، ان کے عزم کوکمزور نہیں کر سکتے۔اگر ا س ملک کا کرپٹ طبقہ کسی سے خائف نہیں توہ جن کا دامن صاف ہے، وہ کیوں کسی کے سامنے جھکیں گے، وہ کیوں کسی سے ڈکٹیشن لیں گے، وہ کیوں مال و منال پر بکیں گے۔ فوج نے ایک حلف اٹھا یا ہے ، یہ حلف جنگ بدر کے غازیوں ا ور شہیددوں کے خون سے رقم کیا گیا تھا۔یہ حلف گمنام شہید کی یادگار پر کندہ ہے اور جنرل باجوہ نے اس یادگار پر حاضری دے کرا س حلف کی پاسداری کا عہد کیا ہے، ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے جان کی قربانی بھی ہیچ ہے۔جنرل راحیل نے اس حلف کو نبھایا اور جنرل باجوہ بھی اسی حلف کے سائے میں پیش قدمی کریں گے، طوطا مینا کی کہانیوں سے، میڈیا کی غوغا آرائی سے انہیں خائف نہیں کیا جاسکتا۔قرآن کہتا ہے اگر تم ایمان والے ہو تو مت غم کھاؤ۔
کون ہے جو آفتاب وماہتاب کی روشنی کو گہنا سکے، ان کی کرنیں چاروں ا ور پھیلتی ہیں اور پھیلتی ہی چلی جاتی ہیں۔
آپ آنکھیں بند کر لیں تو دنیا میں اندھیرا نہیں ہو سکتا۔