یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے۔ عام طور پر عدالتیں فیصلہ کر دیتی ہیں مگر ضروری نہیں کہ ان پر عمل بھی ہو، عدالت کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں ہوتی، بعض کیسوںمیں عدالتی بیلف حرکت میں آتا ہے مگر اسے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگلے مرحلے میں توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا بھی کہیں انجام نہیں آتا۔
مشرف کو عدالت میں طلب کیا گیا مگر اس کو راستے ہی سے اچک کر ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا، پھر وہ ملک ہی سے فرار ہو گیا۔ اس نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ ا سے بچانے میں جنرل راحیل کا ہاتھ ہے، ہو سکتا ہے وہ غلط کہہ رہے ہوں، ویسے ہی ٹکٹ کٹوا کر بھاگ گئے ہوں۔ زرداری صاحب نے بھی فوج کے خلاف کہا تھا کہ آپ تین سال کے لئے آتے ہو، ہم سیاستدان ہمیشہ سیاست میں رہتے ہیں، پھر ایک شب وہ کسی ہوائی جہاز میں بیٹھے اور دوبئی میں گوشہ نشین ہو گئے، تب واپس آئے جب جنرل راحیل شریف نوکری چھوڑ گئے۔
کئی کیسوں کے فیصلے ہوتے ہیں، ملزموں کی ضمانت منسوخ ہو جاتی ہے مگر وہ عدالت سے فرار ہو جاتے ہیں، یہ کئی بار ہوا ہے۔
سول معاملات میں عدلیہ کے فیصلے ویسے ہی دو تین نسلوں تک چلتے ہیں، یہ ہمارے نظام انصاف کی خوبی ہے یا خرابی مگر کسی کو انصاف نہیں ملتا، کہتے ہیں کہ تاخیر سے ملنے والا انصاف بھی ناانصافی کے مترادف ہے۔
پاکستان میں کسی وزیراعظم کو عدلیہ نے بہت کم ہٹایا ہے، یوسف رضا گیلانی عدالت کے شکنجے میں پھنسے۔ ان کا موقف درست تھا کہ وہ صدر کے خلاف خط لکھ کر آئین کے منافی اقدام نہیں کر سکتے مگر عدالت بضد تھی، گیلانی صاحب اپنے انکار پر بضد تھے، اس لئے توہین عدالت کے تحت گھر بھیج دیئے گئے، کہا جاتا ہے کہ ا س میں صدر زرداری کی مرضی شامل تھی کیونکہ یوسف رضا سچ مچ کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے اور پر پرزے نکال رہے تھے، زرداری صاحب نے ان کی کسی حد تک خود مختاری کو اپنے لئے چیلنج سمجھا، اس لئے گیلانی صاحب عدالت سے نکل کر ذاتی گاڑی میں سوار ہوئے اور گھر کی راہ لی۔ زرداری صاحب چاہتے تو وہ عدلیہ سے ٹکر لے سکتے تھے۔ عدلیہ کاا دارہ فوج سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا اور فوج کے ساتھ صدر زرداری کا تصادم کئی بار ہوا۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر ہوا، کیری لوگر بل پر ہوا اور میمو گیٹ پر تو اس قدر سنگین تصادم ہوا کہ جناب صدر دوبئی کے ہسپتال میں جا داخل ہوئے، تاہم نہ انہوں نے اپنا منصب چھوڑا، نہ ان کے وزیراعظم کو کوئی گھر بھیج سکا، پیپلز پارٹی نے پہلی بار اپنی آئینی ٹرم پوری کی۔ مجموعی طور پر عدلیہ کے فیصلے نافذ ہوتے رہے، یہ آئینی تھے یا غیر آئینی۔ انصاف پر مبنی تھے یا ناانصافی پر۔ مولوی تمیز الدین کی اسمبلی ٹوٹی تو ٹوٹی رہ گئی، جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا فیصلہ دیا تو مانا گیا۔ یہ نظریہ ضرورت کا فیصلہ جنرل ضیا کے حق میں بھی ہوا اور جنرل مشرف کے لئے بھی۔ بھٹو کو عدلیہ نے پھانسی دی تو اس پر عمل ہو گیا، مودودی کو عدلیہ نے پھانسی کی سزا سنائی تو انہیں پھانسی کی کوٹھڑی میں بھی بند کر دیا گیا۔ پتہ نہیں کس اللہ والے کی سنی گئی ورنہ پاکستان کی حکومتیں بیرونی درخواستوں کو زیادہ تر ردی کی ٹوکری میں پھینکتی رہیں، بھٹو کے لئے کس کس اسلامی حکمران نے منت سماجت نہیں کی مگر جنرل ضیا نے کسی کی نہ سنی۔ البتہ نواز شریف خوش قسمت تھے کہ ڈھیر ساری سزاﺅں کے باوجود ایک سعودی جہاز ان کی پوری فیملی کو بخیریت ملک سے نکال لے گیا ، میںنے بخیریت لکھ تو دیا ہے مگر جلا وطنی سے بڑی سزا کوئی نہیں، بند ہ مر جائے تو چند د ن رو دھو کے صبر آ جاتا ہے مگر کسی کو دیس نکالا دے دیا جائے تو یہ جیتے جی جہنم میں رہنے کی سزا کے برابر ہے، انگریزوںنے حبس عبور دریائے شور کی سزا کو رواج دیا تھا۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر بھی جلاوطن کیا گیا اور رنگون میں مر گیا۔ حیرت جیسی حیرت ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم تھے، انہی کی پارٹی کا صدر بھی حکومت میں تھا جو اٹھاون ٹو بی کی تلوار سے لیس نہیں تھا۔ عدالت اکیلے فیصلہ کر دیتی تو اسے نافذ کون کرتا، سوائے اس کے کہ سزا یافتہ فریق اسے خود ہی قبول کر لے ا ور اپنے اوپر نافذ کر لے، اس بار میرے خیال میں کوئی باوردی یا بے وردی شخص ان کے سر پہ پستول تانے نہیں پہنچا کہ استعفیٰ دیں اور گھر کی راہ لیں۔ مگر یہی نواز شریف اور ان کے حامی اعلانیہ کہہ رہے تھے کہ منتخب وزیراعظم کے خلاف فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا، یہاں تک کہا گیا اور لکھا گیا کہ ترکی کی طرح ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے۔ ایسی فضا اس روز سے ہی بنا دی گئی تھی جب ترکی میں فوجی انقلاب ناکام ہو اتھا، نواز شریف اور شہباز شریف نے ترکی کے بہادر عوام کو سلام پیش کیا۔ اس طرح خدشہ یہ تھا کہ فوج نے عدالت کے پیچھے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
فوج کے ساتھ تصادم کا خدشہ جنرل راحیل کے ہوتے ہوئے تو محسوس کیا جا سکتا تھا کہ وہ عوامی مقبولیت کی تمام حدیں عبور کر چکے تھے، اور ان کے حق میں بینر بھی لگ رہے تھے کہ جنرل راحیل قدم بڑھاﺅ، مگر جنرل راحیل باعزت طور پر ریٹائر ہوئے تو حکو مت کی آشیرباد اور تائید سے اسلامی فوج کے کمانڈر بن گئے، نئے آرمی چیف اس قدر نئے ہیں کہ وہ کسی ایڈونچر کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے بلکہ ڈان لیکس پر تناﺅ بڑھا تو نئے آرمی چیف نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، ٹویٹ واپس لے لیاا ور آئندہ سے شاید اسی لئے مزید ٹویٹ بھی بند ہو گئے۔ اس طرح میں نہیں سمجھتا کہ جی ایچ کیو نواز شریف کی بر طرفی کے پس پردہ سرگرم تھا۔ کہا یہی جا رہا تھا کہ حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے مگر سازش کون کر رہا ہے، حکمران جماعت نے اس کے لئے کوئی ہلکا سا اشارہ بھی جی ایچ کیو کی طرف نہیں کیا۔ ہاں، چودھری نثار نے ایک پریس کانفرنس کی، اس میں انہوں نے کھلے لفظوںمیں کہا کہ پاکستان کے خلاف بیرونی سازش عروج پر ہے اور اگر نوازشریف نے عدالت کا فیصلہ قبول نہ کیا تو ان بیرونی سازشیوں کو اپنے ناپاک اور مذموم عزائم پورا کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔
اب تو فیصلہ بھی آ گیا، اسے نواز شریف نے خود ہی مان لیا یا چودھری نثار کا مشورہ قبول کر لیا، جو بھی صورت ہو، نواز شریف نے مزاحمت اور تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا مگر خدا گواہ ہے کہ پاکستان میں کسی کو اس بات کا علم نہیں کہ یہ تصادم کس سے ہو سکتا تھا، چودھری نثار نے غیر ملکی طاقتوں کی بات کی تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ فیصلہ سپریم کورٹ نے تو کیا ہی ہے مگر درا صل یہ فیصلہ سینیٹر جان میکین اور سنٹ کام کے سربراہ نے کیا اور انہی نے اسے نافذ بھی کیا ہے جو صرف ہفتہ دس دن قبل پاکستان کے دورے پرا ٓئے تھے اور پاکستان کو لعن طعن کر کے گئے تھے۔ ان کی زبان ظاہر کرتی تھی کہ وہ کسی سخت اقدام پر تلے ہوئے ہیں اور اگر میری یادداشت صحیح کام کرتی ہے تو ان میں سے کسی نے وارننگ دی تھی کہ پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیکس کی جا سکتی ہیں۔
میرے نزدیک نواز شریف کے خلاف فیصلہ یہی سرجیکل اسٹرائیک ہے، ان سے پہلے بھٹو صاحب کی قسمت کا فیصلہ بھی ہنری کسنجر نے سنایا تھا کہ انہیں ایٹمی پروگرام شروع کر نے کی پاداش میںنشان عبرت بنا دیا جائے گا، بھٹو کو ایک ایسے الزام میں پھانسی ہوئی جس الزام میں نہ پہلے کسی کو پھانسی ہوئی، نہ بعد میں آج تک ہوئی اور نواز شریف پر بظاہر پانامہ کیس چلایا جا رہا تھا جس میں ان کی کرپشن کا سراغ لگایا جا رہا تھا مگر ان کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیںہوئی، خود عدالتی فیصلہ بھی یہی کہتا ہے مگر چونکہ، چنانچہ، اگرچہ، مگرچہ، کسی نہ کسی الزام میں نواز شریف کو گھر بھجوانا تھا سو بھیج دیا گیا۔
میں سخت نادم ہوں کہ ہمارے فیصلے باہر سے ہو نے لگے ہیں اور باہر سے نافذ کئے گئے ہیں۔ کہاں گئی ہماری خود مختاری، ہماری آزادی اور ہمارا اقتدار اعلیٰ۔اس کے تحفظ کے لئے کس کس نے قسم اٹھا رکھی ہے۔