ودھری سرور گورنر ہاﺅس کے لئے نئے نہیں، خوب دیکھا بھالا گورنر ہے۔ پہلے وہ گورنر بنے تھے تو ن لیگ میں تھے۔ اب تحریک انصاف میں، آپ اسے گھوڑھا گردی نہ کہیں صرف یہ سمجھیں کہ شراب پرانی ہے بوتل نئی ہے اور شراب کو آپ یا تو شراب طہور سمجھیں یا پھر پولیس سے تفتیش کروا لیں، یہ شہد نکلے گا، ایسی شراب کی بوتلیں آپ مجھے درجنوں بھجوا سکتے ہیں۔ حکیم راحت نسیم سوہدروی نے مجھے شہد کا بکثرت استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ میں یہاں یہ نہیں کہہ سکتا کہ شہد کا استعمال سنت ہے اور ریاست مدینہ کی یہ سرکاری اور پیٹنٹ دوا تھی کیونکہ آج کل شراب ا ور شہد کو آپس میں گڈ مڈ کیا جا رہا ہے۔ پینی ہو تو شراب کی تاثیر۔ چیف جسٹس کا چھاپہ پڑ جائے تو شہد ثابت ہو جائے۔ ویسے بھی کہاں ہم گناہ گار۔ عصیاں میں ڈوبے ہوئے اور کہاں مدینہ کی پاک مقدس ریاست۔ میں تو وضو کر کے بھی ریاست مدینہ کا لفظ زبان پر نہیںلا سکتا۔ براہ کرم ریاست مدینہ کو معاف فرمائیں۔ ہالینڈ کا نام لے لیں۔ ڈنمارک کا لے لیں ، ناروے کا لے لےں۔ یہ سب فلاحی ریاستیں ہیں اور ان کی پیروی عین کار ثواب مگر ہم یہ کبھی نہیں کریں گے ، صرف ان کا حوالہ دیا کریں گے۔ ریاست مدینہ میں کسی ڈی پی او کا تبادلہ اس طرح نہیںہوتا تھا جس طرح احسن جمیل گجر نے کر دیا اور ریاست مدینہ میں شراب کی بوتلیںا س وقت تک تو وافر تھیں جس دن تک اسے حرام نہیں قرار دیا گیا اور جب یہ حرام ہو گئی تو ریاست مدینہ کی گلیوں میں شراب کی بوتلیں انڈیل دی گئیں۔ ہر طرف شراب کا سیلاب تھا جیسے اتوار کو لاہور میں آدھے گھنٹے کی بارش ہو ئی ا ور سڑکوں پر سیلاب آ گیا، شہباز شریف اور نواز شریف تو گوال منڈی کے چوک میں پانی میں تصویریں ہی بنوا لیتے تھے مگر اب وزیر اعلی یا سینیئر وزیر یا گورنر تک نے باہر جھانک کر نہیں دیکھا کہ خلق خدا کس عذاب میں مبتلا ہے۔گورنر کا تو یہ فرض نہیں تھا، آئین انہیں انتظامی اختیارات نہیں دیتا۔ پچھلی ٹرم میں انہیں یہ وہم ہو گیا تھا کہ گورنر تو لاٹ بہادر ہوتا ہے ، یا کم از کم گورنر نواب آف کالا باغ تو ہوتا ہی ہے، ا سی وہم میں انہوںنے دھڑا دھڑ اپنے خود ساختہ اختیارات کااستعمال شروع کر دیا۔ جہاں جگہ ملتی وہیں واٹر فلٹر پلانٹ نصب کروا دیتے۔ ا سکے لئے ان کو انگلینڈ سے بھاری فنڈنگ ملی تھی۔ ساتھ ہی اس کے لئے نگران خاتون بھی وہیں سے درا ٓمد کی گئی۔ گورنر بہادر ایک روز وزیر اعلی کے دفتر سے ملحق نظریہ پاکستان میں واٹر پلانٹ لگانے جا پہنچے۔ شہباز شریف نے سوچا کہ یہاں تک ان کے ہاتھ پہنچ گئے ۔ ذرا اور لمبے ہوئے تو سیون کلب پر کہیں ہاتھ صاف نہ کر دیں ، بس پھر چودھری سرور کہیں کے نہ رہے۔ گورنری چھوٹ گئی اور ان کے سارے ایڈوائزر یک لخت روٹی پانی سے محروم ہو گئے، ایک ایڈ وائزر توگلاسگو سے در آمد کئے گئے تھے جنہوں نے اپنے گجراتی رشتے داروں کے کھابے گورنر ہاﺅس میں شروع کر د یئے ۔ شورش کے صاحب زادے مشہود بھی منی گورنر بن بیٹھے۔ مگر یہ قصہ جلدی تمام ہوا۔ ہم جو چودھری سرور کے دوست تھے ، سوچتے ہی رہ گئے کہ چار بار برٹش پارلیمان کے رکن منتخب ہونےو الے کو پارلیمانی آداب بھی کسی نے نہ سکھائے کہ گورنر کا منصب محض نمائشی ہے۔ ملکہ برطانیہ جیسا، اسے اصلی نہ سمجھ لیجئے۔چلو ایک سبق مل گیا، انسان ٹھوکریں کھانے سے ہی سیکھتا ہے ۔ اور دعا کریں کہ اب کے گورنر سرور اپنے آپ میں رہیں،کیونکہ پچھلی ٹرم میں تو ان کا سامنا صرف شہباز شریف سے تھا، اب بزدار، احسن جمیل گجر، علیم خان، جہانگیر ترین، اعجاز چودھری اور محمودالرشید ان کے حریف اور حاسد ہیں۔ انہی کی کشمکش کی وجہ سے چودھری سرور پنجاب کے وزیر اعلی نہ بن سکے ا ور انہیں سینیٹ میں پناہ لینا پڑی مگر وہ ہٹ کے پکے تھے، پنجاب کا اقتدار ہی تو اصل نشہ ہے، وفاقی وزیر کو عمران خان سے کیا اختیار ملنا تھا۔ سو ان کی محنت رنگ لائی اور انہیں پنجاب کی گورنری کے لئے نامزد کر دیا گیا ور پھر حلف کے لئے ہفتوں ترسایا گیا، صدر کے انتخاب میں ایک ایک ووٹ قیمتی تھا، جب تک انہوں نے پی ٹی آئی کے صدارتی امید وار کوو وٹ نہیں بھگتایا ، انہیں سینیٹ سے چھٹی نہ ملی۔ مگر پھر ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ تھی، اسی شام لاہورآئے۔ ان کے اسٹاف نے فون پر لوگوں کوبتایا کہ جناب آپ بھی حلف برداری آکر دیکھیں اور گیٹ پر اپنا فلاں کوڈ بتائیں، گورنر ہاﺅس کا دروازہ آپ کے لئے خود بخود کھل جائے گا، ٹیکنالوجی کے اس استعمال سے میں واقف نہیں تھا، اس لئے اپنے کوڈ 677 کو آزمانے کی ہمت نہ ہو ئی، ویسے مجھے تو یہ مخول شخول لگتا تھا۔ کوئی صاحب دل پشوری کے لئے سارے شہر کو فون کر رہے تھے ، ان کا کوڈ بتا رہے تھے اور سب کو بیوقوف بنا رہے تھے۔
چودھری سرور چونکہ اب اوور سیئز پاکستانی نہیں رہے ، اسلئے وزیر اعظم کی ایک ہزار ڈالر چندے کی اپیل کاا طلاق ان پر نہیں ہوتا، پہلے ہی چار برسوں میں کیا پتہ وہ کتنا خرچ چکے ہیں۔ اور اب ویسے بھی سرور صاحب اپنا کاروبار اپنے بیٹوں کے حوالے کر آ ئے ہیں ، ہمارے سب پیسے والے سیانے ہیں، اپنا پیسہ بیرون ملک آباداولاد کے سپرد کر دیتے ہیں اور خود خالی جیب وطن کی خدمت میں مصروف ہو جاتے ہیں، یہ خدمت کوئی چھوٹی بات نہیں، خادم آسانی سے نہیں ملتے، شہباز شریف نجانے اب قوم کو کبھی نصیب ہوں گے یا نہیں، ان کے داماد سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ اللہ کسی دشمن کو نہ دکھائے، اس کی ساری جائیداد ضبط کی جا رہی ہے، وہ خود تو باہر ہے۔ ظا ہر ہے پاکستان میں ہوتا تو اڈیالہ کی زینت بنتا، اب کوئی والی وارث جو پیچھے چھوڑا ہے، اسکی کوشش ہے کہ ا گر جائیداد ان کی نہیں رہی تو کسی کے ہاتھ بھی نہ لگے، وہ پلازوں کو نذر آتش کر رہا ہے کہ جائے بھاڑ میں ،بھلا اس جائیداد پر بزدار صاحب یا احسن جمیل گجر نے کوئی پہریدا ر کیوںنہیں بٹھایا۔علیم خان تو جائیدادوںکا کاروبار کرتے ہیں ، اور ہیں بھی سینیئر منسٹر، و ہی ایم ایم عالم روڈ پر کچھ سیکورٹی والے بٹھا دیتے۔ان کی تو اپنی سیکورٹی ہی کافی رہتی،سرکار کی سیکورٹی کو استعمال کرنے کی شایداجازت نہ ہو۔
چودھری سرور کو نئی پیکنگ میں پھر لاہور کے گورنر ہاﺅس سجا دیاگیا ہے اور اگر ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تو کیا فائدہ اس منصب جلیلہ کا۔ سناہے کہ انہوںنے گورنر ہاﺅس کو استعمال کرنے سے انکار کر دیاہے ا ور وہ ڈیفنس فیز فائیو میں اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے، گورنر ہاﺅس کا کیا بنے گا۔ یہاں گلیوں میں کر کٹ کھیلنے والے بچے ادوھم مچائیں گے۔ پہلے بھی ایک ارائیں گورنر میاں اظہر یہاں آئے تو اس عالی شان دفتر کو رول کر رکھ دیا۔ ان کا بس نہیں چلا ورنہ یہاں بھینیسیں لا باندھتے ۔انہوں نے اسکولوں کے بچوں کے لئے اسے کھول دیا۔ اب بھی اس کا یہی استعمال ہو گا۔ گورنر اظہر کوئی بات دفتر میں کہنے سے ڈرتے تھے، ملاقاتی کو لے کر باہر ٹہلنے کے لئے نکل جاتے اور رستے میں کوئی سیکورٹی والاا نہیں گھیر لیتا آپ کون ہیں جو یہاں دندنا تے پھرتے ہیں ، وہ منت سماجت کرتے کہ بھئی میں گورنر ہوں ، مگر انہیں تب چھوڑا جاتا جب ان کا ملٹری سیکرٹری آکر گواہی دیتا کہ ہاں یہ لاٹ صاحب ہیں، ویسے بندے کو شکل صورت سے بھی لاٹ صاحب نظر آنا چاہئے۔ کوئی نواب ا ٓف کالا باغ کو ایسا چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔چودھری سرور اس انجام سے بچیں۔ اور دفتر میں ہی گپ شپ مارنے پر اکتفا کر لیں، کوئی سرکاری راز کسی کے سامنے نہ اگلیں،۔ کیونکہ کمرے کی ہر بات ٹیپ ہوتی ہے، گورنر اظہر ٹیپ سے بچنے کے لئے ایک اور نسخہ استعمال کرتے کہ ٹی وی کی آ ٓواز اونچی کر دیتے۔ کیا کمال کا ٹوٹکا تھا۔
سرور صاحب کوبہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کے حاسد بے شمار ہیں۔ میںنے اوپر جو نام گنوائے ان میں چودھری پرویز الہی کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھا، مجھے کوئی گھر تو چھوڑ لینا چاہئے، کیا پتہ کب کوئی مصیت آن پڑے تو کوئی بچانے والا تو ہو۔ میں تو کبھی پاک پتن گیا نہیں اور وہاں کے کسی بڑے گھرانے سے میری کوئی واقفیت نہیں ، وہاں کی نئی خاتون ڈی پی او تک کو نہیں جانتا۔ ویسے احسن جمیل گجر کے والد چودھری اقبال تو میرے گہرے دوست ہیں، ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا ضرورت۔ چودھری سرور کے لئے ڈھیروں دعاﺅں پر یہ کالم ختم کئے دیتا ہوں، میرے پاس دعاﺅں کے سوا ور رکھا کیا ہے۔ جب میرے پاس بہت کچھ تھا تو سب کچھ چودھری سرور پر وار دیا تھا۔ ایک سفارش ضروری ہے ، چودھری سرور اپنے چھوٹے بھائی رمضان کو کہیں سے ضمنی ٹکٹ دلوا دیں۔عام انتخابات میں دہری شہریت چھوڑنے میں انہیں ایک دن کی تاخیر ہو گئی تھی ورنہ وہ پکے ایم این اے بن چکے ہوتے۔ اب سرور صاحب ان کے سر پہ ہاتھ رکھیں گے تو مولا کرم کرے گا۔