خبرنامہ

ماڈل ٹاﺅن میں قتل عام ہوا، شہباز شریف کے حلف نامے اور پریس کانفرنس میں تضاد ہے،رانا ثناءاللہ اور پولیس افسروں کے بیانات حلفی سے وزیرا علیٰ کے بیان کی تصدیق نہیں ہوتی، وزیراعلیٰ پنجاب کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا،نجفی کمیشن رپورٹ

ماڈل ٹاﺅن میں قتل عام ہوا، شہباز شریف کے حلف نامے اور پریس کانفرنس میں تضاد ہے،رانا ثناءاللہ اور پولیس افسروں کے بیانات حلفی سے وزیرا علیٰ کے بیان کی تصدیق نہیں ہوتی، وزیراعلیٰ پنجاب کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا،نجفی کمیشن رپورٹ

پڑھیئے میاںنواز شریف وطن واپس پہنچ گئے

لاہور(رپورٹ :سعید چودھری )ذرائع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل ٹربیونل کی سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اس سانحہ سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔فاضل ٹربیونل نے اپنے سامنے پیش کیا گیا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا بیان حلفی بھی مسترد کیا۔شہبازشریف کے حلف نامے اور پریس کانفرنس میں تضاد ہے۔ٹربیونل نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کو قتل عام سے تعبیر کرتے ہوئے سرکاری مشینری کے بے دریغ استعمال کی آبزرویشن دی اوراس حوالے سے اپنی رپورٹ میں صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ سمیت متعدد پولیس افسروں اور‌بیوروکریٹس کاذکر بھی کیا ہے ۔دوسری طرف جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں حکومت کی طرف سے قائم جائزہ کمیٹی نے جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ پر عمل درآمد اس بنیاد پر غیر ضروری قرار دے دیا کہ اس سانحہ کی متاثرین کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر درج ہو‌‌‌‌‌چکی ہے ،جس میں میاں محمد نوازشریف ، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز،رانا ثناءاللہ ،خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار کوبھی نامزد کیا گیااوران پرسانحہ ماڈل ٹاﺅن کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ذرائع کے مطابق جوڈیشل ٹربیونل کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے جس بیان حلفی کو مسترد کیاگیااس میں انہوں نے کہا تھا کہ منہاج القرآن کے باہر ہلاکتوں سے قبل ہی انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو وہاں سے پولیس ہٹانے کا حکم دے دیاتھا فاضل ٹربیونل کی رائے میں سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ اور دیگر پولیس افسروں کے بیانات حلفی سے وزیرا علیٰ کے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوتی۔علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی پولیس واپس بلانے کے اپنے حکم کا ذکر نہیں کیا تھا۔ذرائع کے مطابق حکومت کی جائزہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ فاضل ٹربیونل نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کن شہادتوں پر انحصار کرکے وزیر اعلی ٰ کے بیان حلفی کو ان کی خود کو بچانے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دیا ہے۔وزیراعلی ٰنے اپنے بیان حلفی میں صرف اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ سے اس بابت بات کرنے کا ذکر کیاتھا اس حوالے سے ڈاکٹر توقیر شاہ اپنے بیان حلفی میں وزیر اعلی ٰکے اس حکم کی تصدیق کر‌چکے ہیں۔دیگر افراد کے بیانات حلفی کی روشنی میں وزیر اعلیٰ کے بیان حلفی کا جائزہ لینا قانون شہادت سے مطابقت نہیں رکھتا۔کیونکہ دیگر افراد سے تو ان کی اس حوالے سے بات ہی نہیں ہوئی تھی پھر وہ لوگ وزیراعلیٰ کے پولیس واپس بلانے کے حکم کے بارے میں کس طرح بیان حلفی دے سکتے تھے ۔لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر تھانہ فیصل ٹاﺅن ادارہ منہاج القرآن کے ڈائریکٹر محمد جواد حامد کی طرف سے جو ایف آئی آر درج ہوئی اس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس میں دوحساس اداروں کے دو افسر بھی شامل تھے ۔جے آئی ٹی کے سامنے میاں محمد نوازشریف ، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز،رانا ثناءاللہ ،خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار کے خلاف ٹھوس شہادتیں سامنے نہیں آسکی تھیں جس کی بنا پر چالان میں انہیں گناہ گار قرار نہیں دیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کے نام ٹرائل سے خارج کردیئے تھے جس کے باعث ادارہ منہاج القرآن کوایف آئی آر کے اندراج کے باوجود اس بابت استغاثہ دائر کرناپڑا۔قانون اور عدالتی نظائر کی روشنی میں ٹربیونل کی انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیاجاسکتا تاہم انکوائری ٹربیونل جن شہادتوں پر انحصار کررہا ہو ان شہادتوں کی بنیادپر جے آئی ٹی تحقیقات کرسکتی تھی اور مقدمہ کے ٹرائل کے دوران انہیں دوبارہ متعلقہ عدالت میں پیش کرسکتی تھی تاہم انکوائری رپورٹ کو شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔جائزہ رپورٹ کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی کے ٹربیونل کامتاثرہ فریق نے بائیکاٹ کیا تھا،متاثرین کی طرف سے ٹربیونل میں کوئی شہادت بھی پیش نہ کی گئی تھی، ٹربیونل نے خودشہادتوں کاتجزیہ کیا اور حکومت کے خلاف نتیجہ نکالا جبکہ یہ شہادتیں خود وزیراعلیٰ ،صوبائی وزیرقانون اور سرکاری افسروںکی طرف سے پیش کی گئی تھیں۔