خبرنامہ

مداخلت کا تصور نہیں رکھتا لیکن مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے: چیف جسٹس

مداخلت کا تصور نہیں رکھتا لیکن مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے: چیف جسٹس

کراچی:(ملت آن لائن) چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میں مداخلت کا تصور نہیں رکھتا لیکن ہمیں مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں مٹھی، تھرپارکر میں 5 بچوں کی ہلاکت سے متعلق معاملے کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے آغاز پر سیکریٹری صحت نے بچوں کی ہلاکت سے متعلق رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ کم عمر میں شادی اور زائد بچوں کی پیدائش وجہ اموات ہے جب کہ ڈاکٹرز مٹھی تھرپارکر جیسے اضلاع میں جانے کو تیار نہیں۔ سیکریٹری صحت کی رپورٹ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ سے لگتا ہے آپ کا قصور ہی کوئی نہیں، لکھ کہ جان چھڑا لی کہ کم وزن والے بچے مرجاتے ہیں، سندھ میں صحت کے بہت مسائل نظرآرہے ہیں، سیکریٹری صاحب آپ کسی اور محکمے میں خدمت کے لیے کیوں نہیں چلے جاتے۔ سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کی 50 فیصد اموات نمونیہ اور ڈائریا سے ہوتی ہے جب کہ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں کہا کہ مٹھی میں بہترین اسپتال بنادیا اور تھر میں مفت گندم تقسیم کرتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سب معلوم ہے کتنی گندم مفت تقسیم ہوئی، سب کرپشن کی نذر ہو گیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لاڑکانہ اسپتال کی ویڈیو دیکھ کرشرم آرہی ہے، سوچ رہا ہوں خود لاڑکانہ جاؤں۔ عدالت میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی موجود تھے، چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رضا ربانی بیٹھےہیں، آپ ہماری مدد کریں، آپ خود دیکھ کرآئیں،اسپتال میں کیا ہورہا ہے، پھول جیسے بچے والدین کے بعد سرکاری اسپتالوں کے مرہون منت ہیں، بچہ اسپتال میں داخل ہوتا ہے اور تھوڑی دیر بعد لاش تھما دی جاتی ہے، والدین کے پاس رونے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔
چیف جسٹس نے رضا ربانی سے مکالمہ کیا کہ میں مداخلت کا تصور نہیں رکھتا، لاڑکانہ کے اسپتال کی ویڈیو دیکھی، بہت دکھ ہوا، رضا ربانی صاحب آپ وہ ویڈیو بھی دیکھیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ لاڑکانہ کتنی دور ہے، یہاں سے کتنا فاصلہ ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ بذریعہ جہاز ایک گھنٹے میں لاڑکانہ پہنچ سکتے ہیں، اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دیکھتے ہیں کیا خود لاڑکانہ جاکر اسپتال کا جائزہ لوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ادویات فراہم کرنا کس کا کام ہے؟ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں انسنریٹرکس کے حکم پرلگ رہے ہیں۔ سیکریٹری صحت نے بتایا کہ یہ کام اور پیش رفت آپ کے حکم پر ہو رہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر کہتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں جو ایگزیکٹو کے کام میں مداخلت کرتے ہیں، ہمیں مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ سماعت کے موقع پر ڈاکٹرز کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی جنہوں نے کہا کہ محکمہ صحت میں بڑی کرپشن ہے، آپ محکمہ صحت پر کرپشن کی جانچ کے لیے جے آئی ٹی بنائیں۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹروں کی درخواست پر کہاکہ یہ اہم معاملہ ہے، بریک کے بعد مزید سماعت کریں گے۔