اسلام آباد:(ملت+اے پی پی) سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران فریقین سے کمیشن کے قیام کے لیے جواب طلب کرلیا ہے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جاتی امرا میں مریم نواز کا پتہ لکھا ہے لیکن وہ قانونی طور پر اپنے شوہر کے زیر کفالت ہیں، کیا باپ کے ساتھ رہنے سے بیٹی زیر کفالت ہو جاتی ہے، جاتی امرا میں تو شریف خاندان کے دیگر افراد بھی رہائش پزیر ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم نے مریم نواز کا ایڈریس دیکھ لیا، ان کے اخراجات اور آمدن کہاں سے آتی ہے وہ دیکھنا ہے جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی زرعی آمدن ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ عام پریکٹس ہے اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں، ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا معاملہ فنکشنل ہے، آپ کو اور مجھے بہتر علم ہے کہ ٹیکس گوشوارے کیسے جمع کرائے جاتے ہیں، انہوں نے سلمان بٹ سے استفسار کیا کہ کیا جاتی امرا کی زمین مریم نواز کے نام ہے ۔ سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز جاتی امرا میں رہائش پذیر ہیں اور وہ ان کے گھر کا پتہ کیا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ زیر کفالت ہونے کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے مریم نواز کے لئے زمین کب خریدی، جس کے جواب میں سلمان بٹ نے کہا کہ اراضی 19 اپریل 2011 کو خریدی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے دوبارہ استفسار کیا کہ رقم والد نے بیٹی کو تحفے میں دی جو بیٹی نے والد کو واپس کردی تھی۔ سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ دبئی مل کے واجبات 36 ملین درہم تھے جب کہ ان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ 2 ملین بجلی کے واجبات تھے، بجلی کے واجبات قسطوں میں ادا کیے گئے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ مل خسارے میں تھی اور فروخت کی تو واجبات کیسے ادا کیے، اقساط کی رقم کس نے فراہم کی؟، سلمان بٹ نے جواب دیا کہ واجبات کی رقم طارق شفیع نے ادا کی جس پر عدالت نے ریکارڈ طلب کیا تو وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ 40 سال پرانا ریکارڈ کہاں سے لائیں، دبئی کے بینک 5 سال سے زیادہ کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ میاں شریف ہر کام اپنی مرضی سے کیا کرتے تھے، ہوسکتا ہے دادا اور پوتے کے کاروباری معاملات کا نوازشریف کوعلم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کی کوئی قانونی اور مصدقہ حیثیت نہیں ہے، میرے دفتر میں پاناما پیپرز کی درجنوں فائلیں پڑی ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ کوومبرکمپنی اورعمران خان کے وکیل کےجمع کردہ دستاویزات سے انکاری ہیں؟ جس پر سلمان بٹ نے جواب دیا کہ ان دستاویزات پر بعد میں بحث کروں گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہمیں تو پریکٹس میں بتایا گیا تھا کہ اگرجج سوال کرے تو اس کاجواب دیاجائے اور یہ کہتے ہیں کہ بعد میں بحث کروں گا۔ سلمان بٹ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق برطانوی قانون کافی لچکدار ہے، برطانوی قوانین کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کو رجسٹرڈ کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس سے متعلق کمپنی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ موزیک فونسیکا کو ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں بتایا گیا تھا؟، جس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر زبانی ڈیڈ دستاویزات کے برعکس ہو تو اس کی کیا حیثیت ہو گی، دستاویزات کے مطابق مریم کچھ کمپنیوں کی بینی فشری ہیں۔ سلمان بٹ نے جواب دیا کہ برطانوی قانون کے مطابق ایسی ٹرسٹ ڈیڈ کی اجازت ہے، ٹرسٹ ڈیڈ زبانی کلامی بھی ہوسکتی ہے، آف شور کمپنی کا ٹیکس نہیں دینا پڑتا، اگر ٹیکس اداکرنا ہوتا تو پھر شاید یہ آف شور کمپنیاں ہی نہ ہوتیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ثبوت اورشواہد ریکارڈ کرنا ہمارا کام نہیں ہے، دستاویزات کاجائزہ لینے کے لیے کمیشن بنانا پڑسکتا ہے، کمیشن بنانے سے متعلق تمام آپشن کھلے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں قطری دستاویزات کا ذکر نہیں کیا جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ وزیراعظم کا بیان سیاسی تھا عدالتی نہیں، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ عوام کے سامنے دیئے گئے بیان کو عدالت میں بھی ثابت کیا جائے۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا حسین نواز آف شور کمپنی کے بینی فشری اور مریم ٹرسٹی ہیں، یہی معاملہ اسپیکر کے سامنے اٹھایا گیا جو خارج ہوا۔ سپریم کورٹ نے اسپیکر کے پاس وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ سلمان بٹ نے موقف اختیار کیا کہ مریم نواز وزیراعظم کے زیر کفالت نہیں ہیں اس لئے وزیر اعظم مریم نواز کے گوشوارے ظاہر کرنے کے پابند نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ نے الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ، اسپیکر کی کارروائی رپورٹ داخل کی؟، معاملہ الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے تو 184/3 کے تحت مداخلت نہ کریں۔ سلمان بٹ نے کہا کہ جو مقدمات زیر التوا ہیں ان کی تفصیلات فراہم کر دوں گا جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ مقدمات عدالتوں میں زیر التو ہیں تو ہم ان کی سماعت نہ کریں۔