مصطفی نواز کے اندر سے جھانکتا ہوا اسٹیٹس مین…اسد اللہ غالب
ایک چلبلے کالم نویس نے مریم نواز مونس الٰہی اور بلاول بھٹو کے بارے میں طنزیہ انداز میں لکھا تھا کہ یہ تو سارے چوسنی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے سیاست کیا کرنی ہے ۔شکر ہے ان دنوں مصطفی نواز کھوکھر ابھی سیاست میں نہیں آیا تھا ورنہ وہ بھی انکے طنز کا نشانہ بن جاتا ،کالم نویس بھی اپنے آپ کو بادشاہ گر سمجھتے ہیں،وہ موج میں ہوں تو کسی کو آسمان پر چڑھا دیں اور بیوی سے جھگڑے کے بعد وہ کالم لکھنے بیٹھیں تو وہ اپنے ایک کالم میں کئی حکومتوں کا تختہ الٹ دیتے ہیں ۔
مصطفی نواز کھوکھر پر لکھنے بیٹھا ہوں صرف اس لیے کہ میں پچھلے چند برسوں سے اس کے انداز سیاست کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ خوش قسمت ہے کہ حاجی نواز کھوکھر کے گھر پیداہوا جو اقتدار کی راہداریوں کے گرو تھے ۔جیسا باپ ویسا بیٹا کی مثال ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر اپنے باپ کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور ترقی کے زینے تیزی سے طے کر رہا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا مگر اس نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر بھی دکھائے اور اس چھوٹی عمر میں دکھائے ۔جس نوجوان کی ابتدا ء سینیٹر بننے سے ہوئی ہو‘ اس کی انتہا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ میں نے اسے بچپن میں دیکھا ہے اور کبھی ذہن میں یہ تصور آیا بھی نہیں تھا کہ یہ لاڈلا بچہ سیاست میں بھی کبھی آسکتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ اپنے والد کا کاروبارسنبھالے گا اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے دائیں بائیں دکھائی دیا کرے گا ،مگر اس نے میرے سارے تجزیے اور اندازے غلط ثابت کردئیے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ وہ بیرون ملک پڑھنے گیا ہے لیکن بیرونی ڈگریاں لینے والے اس معاشرے میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں جن کا حدوداربعہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا ۔ مصطفی نواز کھوکھر نے پتہ نہیں کونسی ڈگری کہاں سے لی کہ وہ آیا اور چھا گیا اس نے سیاست میں پہلا قدم ہی رکھا تو میرا تھون جیت لی ۔وہ جلسوں میں تقریریں کرتا ہے،میڈیا اینکروں کے تیز تیکھے سوالوں کا سامنا کرتا ہے مگر حوصلے سے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے جواب دیتا ہے ۔اس کے لب و لہجے کی روانی پر رشک آتا ہے۔ وہ پہاڑی چشمے کی طرح ہے ۔ پتھر جس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر وہ آبشار بن کر ایک جوئے نغمہ خواں کا حصہ بن جاتا ہے ۔وہ اباسین کی طرح پتھریلی نوکیلی بلندو بالاچٹانوں کے اندر سے راستہ بناتا ہوا میدانوں میں اپنا پارٹ وسیع کرلیتا ہے ۔مصطفی نواز کھوکھر کے پاس معلومات کی کمی نہیں۔ منطق کی قلت نہیں اور وہ دلائل سے مالامال ہے۔ اپنے موقف کو سو سو طرح سے بیان کرنے پر قادر ہے۔وہ اینکر جو بڑے بڑوں کو پانی مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں مگر وہ مصطفی نواز کھوکھر پر سوال داغتے داغتے ہانپ جاتے ہیں ۔وہ آڑے ترچھے سوال کا جواب مسکرا کر دیتا ہے اورنرم لہجے میں دیتا ہے ۔کلی کو بھی پھول کی طرح کھلنے میں ایک عرصہ چاہئے مگر مصطفی نواز کھوکھرکلی سے یک دم کب پھول بن گیا اس کا علم کسی کونہیں ،اس نے دیکھنے اور سننے والوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ وہ قانون پر بات کرتا ہے تو قانون کی بڑی بڑی کتابوں کے اوراق اس کے سامنے خود پلٹتے چلے جاتے ہیں ۔وہ تاریخ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی ایک چٹکی بجنے تک کئی زمانے گزر جاتے ہیں ۔میں نے میاں نواز شریف کو ایک عام طالب علم سے سیاست دان بننے اور پھر تین بار وزیر اعظم بننے اور ہٹنے تک بغور دیکھا ہے ۔میں نے ہر سیاست دان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا منظر دیکھا ہے لیکن کسی نے بھی کامیابیوں کا سفر اس تیزی سے طے نہیں کیا جس پھرتی کا مظاہرہ مصطفی نواز کھوکھر کر رہا ہے ۔بس یہ کہتا ہوں کہ یہ اللہ کی دین ہے اور اس کی نعمت ہے جو مصطفی نواز کو کثرت سے میسر آئی ہے۔ میں اس کا موازنہ مونس الٰہی ،مریم نواز یا بلاول سے نہیں کروں گا کہ تینوں سیاسی گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں ۔مالی سیاسی اور حکومتی میراث کی دولت سے مالامال ر ہے مگر مصطفی نواز کا قصہ الگ ہے۔ اسکے پیچھے کوئی خاندان نہیں صرف اس کا ایک باپ ہے جس کی دعائیں اس کو لگ گئی ہیں حاجی نواز کھوکھر بے وقت اس دنیا سے چلے گئے۔ کا ش اللہ انہیں زندگی دیتا اور وہ اس ہونہا ر برو ا کی کامیابیوں کی الف لیلیٰ کا نظارہ کرتے ۔مصطفی نواز الف لیلیٰ لکھ رہا ہے جو پریوں کی طرح حسین ہے اور پرستان کی طرح مسحور کن ہے۔ وہ کسی جادو نگری کاباسی دکھائی دیتا ہے ۔میں چاہتا ہوں مصطفی نواز کامیابیوں کی نئی منزلیں طے کرے۔ اس کے اند ر محض ایک سیاست دان نہیں بلکہ ایک اسٹیٹس مین چھپا ہوا ہے ۔ میں نے اسے مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے سیرت پاک ﷺ کا مطالعہ کرے اور اس حکمت اور تدبر کو جاننے کی کوشش کرے جس کی مدد سے سیرت پاک پر چلے والوں نے دنیا کی دو سپر طاقتوں کو روند ڈالا تھا ۔ میں نے اسے کہا ہے کہ وہ قائد اعظم کی زندگی کو پیش نظر رکھے جنہوں نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر ایک الگ ریاست کی بنیاد رکھی ۔اور یہ ریاست آج عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے ۔اس ضمن میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کے مصمم ارادوں کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔جن کے ایک انقلابی فقرے نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا ،بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے ۔مصطفی نواز کھوکھر تو بھٹو کے ایٹمی پاکستان کا وارث ہے وہ ایک ایسی پارٹی میں شامل ہے جس نے بھٹو کے خون سے نمو پائی ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر کے سامنے مستقبل کی منزلیں ہیں وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان منزلوں کو پالے گا ۔خدا اس کا حامی و ناصر ہو ،اسکے باپ کی دعائیں اسکے شامل حال ہیںاور میرے خیر خواہی کے جذبات مصطفی نواز کو ایک اسٹیٹس مین کا درجہ حاصل کرنے میں مدد گار بنیں۔