مسلم لیگ کے نام سے ایک سو ایک جماعتیں کام کررہی ہیں۔ پاکستان کی تشکیل کا سہرا آل ا نڈیا مسلم لیگ کے سر تھا مگر آزادی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ بھارت میں رہ گئی اور ہم نے پاکستان مسلم لیگ بنا لی پھر اس کے ٹکڑے ہوتے چلے گئے، کبھی یہ مارشل لاءڈکٹیٹر وںکی باندی بنی تو کنونشن لیگ کہلائی ا ور کبھی ق لیگ، کبھی کونسل لیگ بنی اور کبھی قیوم لیگ، کبھی پگارا کے نام سے موسوم کی گئی۔ پاکستان کے قیام کی کھلی مخالفت جمعیت علمائے ہند نے کی مگر اس کے جو اکابرین پاکستان میں تھے، انہوں نے نئے نام سے کام کرنا شروع کر دیا، پاکستان کی مخالفت کا الزام جماعت اسلامی ہند پر بھی عائد ہوا، پاکستان بنا تو یہ جماعت بھی دونوں ملکوںمیں کام کرنے لگی۔ دیگر مذہبی جماعتیں بھی دونوں ملکوں میں بدستور موجود ہیں۔ صرف آل انڈیا کانگریس ہی ایک ایسی جماعت ہے جو صرف بھارت کے حصے میں آئی مگر مسلمانوں کے کانگریسی عناصر پاکستان کی مختلف جماعتوں میں گھس گئے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی پاکستان میں نئی بات نہیں اور ان کا نام بدل کر کام کرنے کا شیوہ بھی نئی بات نہیں۔ سرحدی گاندھی باچا خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو ممنوع قرار دیا گیا تو اس نے اپنے نام کے حصے تھوڑے ادھر ادھر کر کے آج تک سیاست چمکا رکھی ہے، ان کے نظریات میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آئی۔ باچا خان نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا ، پھر بھی یہ پاکستان میں کئی بار اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہے۔مشرف کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست ممنوع قرار دے دی، اس نے اپنی تین پی کے ساتھ ایک پی اور لگائی اور خوب سیاست چمکائی، بلکہ پانچ سال تک وہ پاکستان پر حکومت کر چکی ہے اور اس پابندی کے بعد سے مسلسل صوبہ سندھ میں راج کر رہی ہے۔ایم کیو ایم کی مثال تو آنکھیں چندھیا دینے کے لئے کافی ہے۔اس کے لیڈر لندن میں تشریف فرما ہیں، کھلے عام بھارتی را سے مدد طلب کرتے ہیں ، یہاں تک کہتے ہیں کہ بھارت سرحد کھول دے تو مہاجر واپس گھروں کو چلے جائیں۔ اس پارٹی پر ریاستی اداروں کی نظر کرم ہوئی توا سکے بخیئے ادھڑ گئے، اس کے ایک دو تین حصے ہو گئے اور اس پارٹی کی قیادت جو کھلے عام پاکستان کو گالیاں دیتی رہی، کراچی اور حیدر آباد میں ٹارگٹ کلنگ کرتی رہی، بھتہ مافیا چلاتی رہی، اور بالآخر اس کا ٹکراﺅ سندھ رینجرز اور افواج پاکستان سے ہوا اور ریاستی اداروں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں، یہ سب کچھ بھلا دیا گیا یا معاف کر دیا گیا، یہ لوگ سیاست کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ بلوچستان کا حال تو مت پوچھئے، یہاں کے بعض عناصر نے پچھلے ستر برسوں میں کئی باربغاوت کی، افواج پاکستان نے کئی بار آپریشن بھی کئے، بلوچستان لبریشن آرمی کا ٹکراﺅ افواج پاکستان اور عوام سے مسلسل ہو رہا ہے مگر اس کے باوجود ماضی کی فوجی اور سیاسی قیادت ا ور موجودہ فوجی ا ور سیاسی قیادت انتہائی فراخدلی سے پیش کش کرتی ہے کہ یہ ناراض اور بگڑے ہوئے عناصر قومی دھارے میں واپس آ جائیں۔ گویاصبح کا بھولا ہوا رات کو گھر واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔فاٹا میں تو دہشت گردوںنے خون کی ہولی کھیلی۔ فوجیوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلا،وانا کے بازار میں مغوی فوجیوں کی لاشیں کئی کئی روز لٹکائی جاتی رہیں۔ان کے ساتھ بھی ملکی قیادت کا یہی فیصلہ تھا کہ انہیں مذاکرات کے ذریعے قومی دھارے میں لایا جائے۔ فریقین کی مذاکراتی کمیٹیاں بھی تشکیل پائیں، ، بات تب بگڑی جب پشاور کے آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو بچوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔تب ضرب عضب ان کے خلاف لہرائی گئی مگر ان کا ایک سنگدل ترجمان احسان اللہ احسان جس نے سینکڑوں بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کی، یہ پکڑاگیا تو اسے بنا سنوار کر، خوب میک اپ کر کے دولہا کی طرح ٹی وی کیمروںکے سامنے پیش کر دیا گیا۔ قوم اس پر تڑپ کر رہ گئی۔یوں اس ”عظیم محسن“ کو کہیں پس پردہ دھکیلا گیا۔
اسامہ بن لادن نائن الیون کے بعد سے امریکہ کو مطلوب تھا۔ امریکی سی آئی کے سربراہ نے الزام لگایا کہ اسامہ پاکستان میں کہیں چھپا ہوا ہے، جس دن ہمیں اس کا سراغ مل گیا ، ہم پاکستان کو بتائے بغیر اس کے خلاف آپریشن کر دیں گے۔ امریکہ نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا۔ حقانی گروپ کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خرابی کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔اس کے لئے کابل حکومت امریکی قیادت کے کان بھرتی ہے اور امریکہ بہادر آنکھیں بند کر کے اس الزام کو قبول کرتا ہے اور پاکستان کو مطعون کرنے لگ جاتا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جہاں اور کئی باتیں کی ہیں ، وہاں یہ بھی کہا ہے کہ حقانی گروپ پاکستان پر بوجھ ہے، اس پر قابو پانے میں کچھ وقت لگے گا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال بھی ریکارڈ پر ہیں کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرناہو گا، یوں ہم کابل ا ورو اشنگٹن کے الزامات کو قبول کرنے کا تاثر دے رہے ہیں۔ ڈان لیکس کا تنازعہ بھی اسی الزام کے ا رد گرد گھومتا تھا۔ اب اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بحث ایک بار پھر ریاستی اداروں کے درمیان نئے ٹکراﺅکی شکل اختیار کر سکتی ہے اور اس تنازعہ کے ہوتے ہوئے ہم کابل اور واشنگٹن کے الزامات کا داغ کیسے دھو سکتے ہیں۔ ہم نے مان لیا ہے کہ ڈور مور کا مطالبہ جائز ہے مگر ڈو مور کے لئے وقت دیا جائے یہ وقت ملتا ہے یا نہیں، یہ امریکی صوابدید پر منحصر ہے۔اس تناظر میں ایک نیا شاخسانہ در پیش ہے کہ ملی مسلم لیگ کہاںسے آن ٹپکی۔ لاہور میں ضمنی الیکشن نہ ہوتا تو یہ بڑا مسئلہ نہیںبننا تھا مگرا س میںایک آزاد امیدوارنے ووٹ اکٹھے کرنے کے لئے حافظ محمد سعید کی تصویریں اپنے پوسٹروں پر چھاپ دیں۔اس طرح ملی مسلم لیگ کا مسئلہ امریکہ کی کونسل آف فارن ریلیشنز تک جا پہنچا جہاں وزیراعظم عباسی سے انٹرویو میں دوسرا سوال ہی یہ پوچھا گیا کہ امریکہ نے جس شخص کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے، اس کے نام پر ووٹ مانگنے کی اجازت کیسے دی گئی، وزیر اعظم نے قانونی انداز میں بات کی کہ اس کے خلاف ہمارا الیکشن کمیشن کارروائی کرنے کا مجاز ہے اور یہ کارروائی ہو گی۔ اب ملی مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن کے سامنے رجسٹریشن کی درخواست دے رکھی ہے جس پر وزارت داخلہ نے سختی سے منع کیا ہے کہ ایسی جماعت کو سیاست کی اجازت دینے سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو گا۔ یہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ اصل دباﺅ تو امریکہ کی طرف سے ہے جس کو بھارتی سرکار نے حافظ محمد سعید کے خلاف بھڑکا رکھا ہے۔ ممبئی حملوں کا الزام بھی بھارت نے حافظ محمد سعید پر لگایا۔ ہم نے جھٹ پٹ انہیں پکڑ کر نظر بند کر دیا، ان کا مقدمہ عدالتوں میں چلتا رہا جہاں بھارتی الزام کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا جا سکا ،، مگر اب ان کے خلاف پروپیگنڈے کی نئی لہر چلی ہے اور وہ نئے سرے سے نظر بند کر دیئے گئے۔ متنازعہ مذہبی رہنماﺅں کی سیاست بھی کوئی نئی بات نہیں، رانا ثنااللہ اس الزام کا جواب دیتے دیتے تھک گئے ہیں کہ انہوں نے ایک حلقے میں جس ممنوعہ مذہبی شخصیت کو ٹرک پر بٹھایا تھا، ان کے حلقے میں ووٹ تھے جو انہی کے اثر ورسوخ کی وجہ سے مل سکتے تھے۔ اب اور اب امریکہ کی خفگی کا سامنا ہے، تو کسی کی تصویر کی ا شاعت بھی جرم بن گئی ہے۔ حقانی گروپ بھی امریکہ کے نزدیک مغضوب ہے، وہاں ہم ڈٹ جاتے ہیں کہ ا ن کی پناہ گاہیں ہمارے ہاں نہیں، افغانستان کے اندر ہیں مگر امریکہ پھر بھی نہیں مانتا، کابل بھی نہیں مانتا۔بلوچ علیحدگی پسندوں اور ایم کیو ایم کے شر پسندوں کو ہم قومی دھارے میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں، احسان اللہ احسان کو خوشنماءکپڑے پہنا کر ٹی وی پربھی پیش کرتے ہیں مگر حافظ محمدسعید نے آج تک پاکستان رینجرز ، مسلح افواج یا پاکستانی عوام کے خلاف نہ کوئی تلوار اٹھائی نہ کسی کا گلا کاٹا، نہ بھارت کی را سے مدد مانگی، وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں بھی ا سی طرح راستہ دینا چاہئے جس طرح بلوچ لبریشن آرمی کو دے رہے ہیں ، جس طرح ایم کیو ایم کے سرکاری سرپرستی میں نت نئے دھڑے بنا رہے ہیں۔ حافظ محمد سعیدبھی اسی حسن سلوک کے مستحق ہیں، ان کے جرائم وہ نہیں جو بلوچوں، فاٹا کے دہشت گردوں اور کراچی کے ٹارگٹ کلرز کے تھے یا ہیں، ان پر صرف بھارت کا الزام ہے جسے ہماری عدالتوں کی کھلی کارروائی میں آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اسی ملک میں مولانا مودودی کو ہماری عدلیہ نے پھانسی کی سزا سنائی مگر عالمی دباﺅ پر معاف کر دی گئی، ان کی جماعت آج بھی کام کر رہی ہے اور اچھے کام کر رہی ہے۔ حافظ محمد سعید کو آج تک کسی جرم میں کوئی سزا نہیں ہوئی، صرف بھارت اور امریکی پروپیگنڈے کا دباﺅ ہے ۔ اگر ہم نے اسی دباﺅ پر گھٹنے ٹیکنے ہیں تو امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو چارج شیٹ کر رہے ہیں ۔کیا ہم ان کی خوشنودی کے لئے پاکستان کو بیڑیاں پہنا دیں۔ ممبئی دھماکوں کا الزام اصل میں تو بھارت نے آئی ایس آئی پر لگایا تھا اور حکم دیا تھا کہ اس کے سربراہ نئی دلی حاضر ہوں ، وزیر اعظم گیلانی نے اعلی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے متعلقہ فوجی جنرل کو بھارت جانے کا حکم صادر کر دیا، مگر پاکستانی قوم ڈٹ گئی ورنہ ہم بھارتی دباﺅ پر اپنے انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر کو تالے لگا چکے ہوتے۔ رہا الزام کشمیر میں جہا د کا۔ تو آزاد کشمیر کی مختصر سی پٹی جہاد ہی کے نتیجے میں ہمیں ملی جس پر ہم نے منگلا ڈیم تعمیر کر لیا ہے۔ پینسٹھ میں بھٹو کی تجویز پر ایک بار پھر کشمیر میں جہادی بھیجے گئے، جن کی وجہ سے بھارت نے واہگہ اور چونڈہ کو زیر و زبر کر دیا۔ کشمیر میں جہاد حزب المجاہدین بھی کرتی رہی، یہ جماعت اسلامی کا جہادی ونگ ہے، قاضی حسین احمد دیہات میں شہید نوجوانوں کے غائبانہ جنازے پڑھاتے رہے، جماعت اسلامی کے اکابرین کے اپنے لخت جگر بھی کشمیر جہاد میں شہید ہوئے۔ یہی جرم حافظ محمد سعید سے بھی سرزد ہوا مگر نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے از خود کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی کہہ ڈالا۔ میرے مرشد مجید نظامی نے اس پر سخت احتجاج کیا مگرکنٹرول لائن کے ایک طرف پاکستانی فوج ہے اور دوسری طرف خارداربجلی والی باڑ ہے اور بھارتی مورچے، یہاں سے کوئی کیڑی بھی آر پار نہیں جا سکتی تو جماعت اسلامی اور حافظ محمد سعید سیاست پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، پاکستان کے آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ مذہبی جماعتیں سیاست نہیں کر سکتیں۔ درجن بھر مذہبی جماعتیں سیاست کر رہی ہیں اور حکومت کی اتحادی بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا طاہرالقادری، مولا نا سراج الحق، مولا نا پیر اعجاز احمد ہاشمی، مولانا سمیع الحق،مولانا ساجد میر، مولانا ابتسام الہی ظہیر،مولا نا ساجد نقوی سبھی مذہبی شخصیات ہیں، ان کے اپنے فرقے ہیں۔ان کی وجہ سے انتہا پسندی کو فروغ نہیں ملا تو حافظ محمد سعید کیا تیر چلا لیں گے۔ نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیاں ستر برس سے جو گل کھلا رہی ہیں اور درمیان میں پاکستان کو دو ٹکڑے بھی کر چکی ہیں،کم از کم ایساکوئی جرم تو ملی مسلم لیگ کے کھاتے میں نہیں، اس لئے ا سے آسانی کے ساتھ قومی سیاسی دھارے میں شریک کیا جاسکتا ہے۔